ذوالفقار علی بھٹو، سابق وزیراعظم پاکستان

اس وقت بھٹو کی لاش تختہ دار پر لٹک رہی تھی ( 1 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قربان انجم :

” ذوالفقار علی بھٹو کیس “ پاکستان میں اخباری رپورٹروں کی سب سے بڑی کوالی فکیشن مانا جاتا ہے، جس اخبار نویس / رپورٹر نے اس کیس کی رپورٹنگ کی ہو، اسے ایسا احترام ملتا ہے کہ کسی دوسرے رپورٹر کو کیا ملے گا۔

جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ چل رہا تھا، آج کے بزرگ صحافی جناب قربان انجم روزنامہ جنگ سے وابستہ تھے، یہ وہی تھے جنھوں نے بھٹو کی پھانسی کی خبر بریک کی تھی، اس پرانھیں مرحوم میر خلیل الرحمن کی طرف سے انعام بھی ملا تھا۔

جناب قربان انجم نے پھانسی کی خبر کیسے بریک کی، یہ ایک دلچسپ قصہ ہے۔ یہ صرف ایک قصہ ہی نہیں بلکہ آج اور آنے والے کل کے اخبار نویسوں کے لئے ایک سبق بھی کہ رپورٹنگ کیسے کی جاتی ہے؟ اخلاقی اور اخباری تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خبر کیسے نکالی جاتی ہے؟

زیر نظر تحریر آپ کے لئے خوب دلچسپ ، معلومات افروز اور سبق آموز ثابت ہوگی۔ تحریر کے آخر میں تبصرہ کرکے اپنا فیڈ بیک ضرور دیجئے گا۔ ( ادارہ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھٹو مرحوم کو تختہ دار پر لٹکانے کے المناک واقعہ اور اس کے پس منظر کی رپورٹنگ قارئین کے لئے دلچسپ ہوسکتی ہے جس کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ 5 جولائی 1977 کو فوج نے کنٹرول سنبھال کربھٹو کو گرفتار کرلیا تھا۔ 18 مارچ 1978 کو ہائی کورٹ نے انھیں قتل کے الزام میں سزائے موت دے دی ۔ میں ان دنوں روزنامہ ’ جنگ ‘ کراچی میں بطور نامہ نگار خدمات انجام دے رہا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے قتل کے متعلق مقدمے کی رپورٹنگ کی ذمہ داریاں میں نے انجام دیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد جب عدالت عظمیٰ نے اپیل پر بھی فیصلہ صادر کردیا تو بھٹو کے لواحقین کے پاس ” رحم کی اپیل “ واحد امکان باقی رہ گیا تھا مگر بھٹو فیملی کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ صدر ( جنرل محمد ضیا الحق ) سے رحم کی اپیل ہر گز نہیں کی جائے گی مگر بیگم نصرت بھٹو پھانسی سے چند گھنٹے قبل ضیا الحق سے رحم کی اپیل پر آمادہ ہوگئی تھیں۔ وہ ہر قیمت پر اپنے شوہر کی جان بچانے کی متمنی تھیں۔ اس سے پہلے رحم کی ایک اپیل کسی پارٹی کارکن کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔

جب ہمیں پتہ چلا کہ رحم کی اپیل کی گئی ہے تو اس کی تصدیق کے لئے میں اپنے دوست رپورٹر سید منیر کاظمی مرحوم کے ہمراہ پنجاب سیکرٹریٹ گیا۔ ہم سیکرٹری داخلہ سے ملنا چاہتے تھے۔ وہ دفتر میں موجود نہیں تھے۔ ہم ڈپٹی سیکرٹری داخلہ کے دفتر پہنچ گئے۔ جب وہاں گئے دفتر کا دروازہ کھلا تھا۔ ڈپٹی سیکرٹری باہر ہی سے نظر آرہے تھے۔ نہایت بدحواسی کے عالم میں کھڑے ہوکر فون سن رہے تھے۔ ڈپٹی سیکرٹری نے ہماری طرف دیکھا۔ ان کی بوکھلاہٹ میں اضافہ ہوا۔

فون سنتے رہے مگر اس دوران پریشانی کے عالم میں ہمیں دوبارہ دیکھا ( ہم ان کی اجازت کے بغیر ہی کمرے میں داخل ہوچکے تھے )، فون ہولڈ کروا کے ہم سے مدعا دریافت کیا۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا تو بدحواسی کے عالم میں بولے:

’’ فرمائیے! جی فرمائیے ‘‘ ،
ہمارا جواب سنے بغیر کہنے لگے ” آپ کیا چاہتے ہیں؟ آج میں آپ کے ساتھ بات نہیں کرسکتا ، بے حد مصروف ہوں۔ ایک دو روز کے بعد تشریف لائیں، اس وقت تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ میں کتنا مصروف ہوں۔“

ہم مایوس واپس لوٹ آئے۔ ہمیں محسوس ہوگیا کہ معاملہ اہم ہے اور بھٹو ہی کے متعلق ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ سزائے موت کے مجرموں کے متعلق شعبے سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ یہ دفتر سیکرٹریٹ کے فرسٹ فلور پر تھا۔ وہاں گئے۔ عملے کے دو تین افراد بیٹھے تھے۔ ان سے مدعا بیان کیا:

” بھائی جان ! کیا قتل کے مجرموں کی رحم کی اپیلوں کا ریکارڈ یہاں مل سکتا ہے؟ “
”آپ کس مجرم کے ریکارڈ سے دلچسپی رکھتے ہیں ؟ “ ایک کلرک نے استفسار کیا۔
” بھٹو صاحب “

” اب ریکارڈ دیکھ کر کیا کرو گے ، جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا “
ہمارے اشتیاق میں قدرتی طور پر یکدم کئی گنا اضافہ ہوگیا۔
بے تابی سے پوچھا :” کیا ہوگیا ؟ “

وہاں موجود اہلکاروں میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا تاہم جس نے ” ہوچکا “ کی اطلاع دی، ہم نے ان صاحب سے ملتجیانہ درخواست کی:
” ہمیں آپ کی مخلصانہ مدد کی ضرورت ہے۔ براہ کرم چند منٹ علیحدگی میں ہماری گزارش سنیں ۔۔۔۔۔ “

اور وہ ہمارے ساتھ کمرے سے باہر نکل آیا۔ ہم تینوں سیکرٹریٹ کے کیفے میں پہنچ گئے، چائے منگوائی اور اس کلرک سے عرض کی:
” ہم اخبار نویس ہیں، پتہ چلا ہے کہ بھٹو صاحب کے لئے رحم کی اپیل کی گئی ہے، ہمارے ایڈیٹر نے اس کا متن حاصل کرنے کی ڈیوٹی لگائی ہے، ہماری مدد فرمائیں۔ ہماری روزی کا سوال ہے۔ “

کلرک کسی قدر خوفزدہ ہوا۔ ہم نے مزید منت سماجت کی تو کہنے لگا :
” رحم کی ایک نہیں ایک سے زائد اپیلیں تھیں جو مسترد کی جاچکی ہیں۔“
اپیل کنندگان کے نام اور دیگر تفصیلات بتانے سے اس نے معذرت کرلی۔ دیگر تفصیلات کے بغیر سٹوری نہیں بن رہی تھی۔ جہاں تک رحم کی اپیلوں کا تعلق ہے، اس بارے میں تفصیلات ہمارے علم میں تھیں۔ کلرک ”بادشاہ “ سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ہم نے عمداً بات اپیلوں سے شروع کی تھی، اس یقین کے ساتھ کہ بات آگے بڑھے گی تو بات بنے گی۔

رحم کی اپیل قاعدے کے مطابق پہلے گورنر کے پاس جاتی ہے۔ گورنر آفس میں ایک ذمہ دار افسر سے برادرم ممتاز اقبال ملک کی آشنائی تھی۔ ملک صاحب ان دنوں روزنامہ ” جسارت “ کراچی کے لاہور میں بیوروچیف تھے۔ انھوں نے گورنر ہائوس سے یہ خبر حاصل کرلی کہ وہاں رحم کی اپیل آئی تھی جو گورنر نے اس سفارش کے ساتھ صدر مملکت کو بھجوا دی کہ جیل مینوئل کے تحت ہی یہ اپیل ناقابل پذیرائی قرار پاسکتی ہے،

یعنی اس اپیل میں جیل مینوئل کے کسی ضابطے کا تقاضا پورا نہیں کیا گیا تھا۔ یہ خبر ممتاز اقبال ملک نے روزنامہ ” وفاق “ کے منیر کاظمی کو دے دی ۔ انھوں نے مجھے عطا کردی۔ اگلے روز ” جسارت “ اور ” وفاق “ میں یہ خبر شائع ہوگئی مگر ” جنگ “ نے شائع نہیں کی، حالانکہ میں نے ” جنگ “ کے راولپنڈی آفس کو یہ خبر بروقت فراہم کردی تھی۔

ان دنوں لاہور آفس سے خبریں راولپنڈی اور وہاں سے کراچی ، کوئٹہ اور لندن بھجوائی جاتی تھیں۔ ” جنگ “
لاہور کی اشاعت شروع نہیں ہوئی تھی۔ میر خیل الرحمن زندہ تھے۔ انھوں نے کسی ماتحت کے توجہ دلانے پر یا از خود نوٹس لیتے ہوئے راولپنڈی کے ذمہ داروں سے دریافت کیا کہ اتنی بڑی خبر جسارت کراچی میں شائع ہوگئی، ہمارے لاہور کے نامہ نگار نے کیوں فراہم نہیں کی؟ باقاعدہ جواب طلبی کرکے مجھے رپورٹ کریں۔

انھوں نے میر صاحب کو بتایا کہ قربان انجم نے خبر فراہم کردی تھی مگر معاملہ چونکہ بے حد حساس تھا، فوجی حکومت ہے، اس لئے ” احتیاط “ کے طور پر خبر روک لی گئی تھی۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں