” داتا گنج بخش “ کے مزار کے احاطے میں اور آس پاس رات کی تاریکی اور دن کے اجالے میں کون سے کھیل کھیلے جاتے ہیں؟ حیران کن انکشافات
انور جاوید ڈوگر :
ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط اول )
ہم بنے داتا کے ملنگ ( قسط دوم )
4 اگست کی شام مجھے ایک ملنگ بشیر خاں نے کہا کہ
”شاہ جی! آئیے ! آپ کو ایک اور نظارہ کرائیں ، ہم داتا دربار سے باہر آگئے، مین گیٹ کے ساتھ والی دیوار کے ساتھ ایک گاڑی کھڑی تھی۔ بشیر ملنگ نے ایک خاتون سے میرا تعارف کرایا۔ اس خاتون کے ساتھ ایک انتہائی معزز آدمی کھڑا تھا اور تین لڑکیاں تعارف کے بعد وہ عورت مجھ سے مخاطب ہوئی اور کہنے لگی:
”شاہ جی ! یہ 2500 کی ہے، یہ 3000 کی اور یہ 5000 کی۔ وہ اپنی ”بیٹیوں“ پر ہاتھ رکھ کے یوں مول بتا رہی تھی جیسے کسی بھیڑ بکری کا سودا کیا جاتا ہے۔ میں نے کوئی سودا کرنا ہی نہیں تھا۔ میں نے بات کو ٹالنے کے انداز میں کہا:
” بی بی ! ہم ملنگ لوگوں کے پاس اتنے پیسے کہاں ہوتے ہیں؟ عورت گالی دے کر بولی“ یہ ملنگ لوگ بڑے …… جیوندے نیں شاہ جی“ ۔ میں خاموشی سے چلا آیا۔ آتے ہوئے میں نے نادانستہ طور پر اس معصوم بچی کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا جس کی قیمت پانچ ہزار روپے بتائی گئی تھی، وہ چودہ سال کی ہو گی ۔ اس کی آنکھوں میں تیرنے والے آنسو میں آج تک نہیں بھول سکا۔ ان آنسوؤں کی حقیقت کیا ہو گی۔ یہ کچھ تو میں جانتا ہوں یا پھر وہ بچی…… جو شرفا کی اس نگری میں دولت کی صلیب پر لٹکا دی گئی ہے۔
بشیر ملنگ کے ساتھ میں واپس آگیا تو وہ مجھے بتانے لگا کہ ایسے کئی گروہ یہاں اردگرد کھڑے ہیں۔ ان لوگوں نے مختلف ہوٹلوں کے اندر کمرے بھی بک کروا رکھے ہیں۔ یہ گاہک کا شناختی کارڈ لے لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی لڑکی روانہ کر دیتے ہیں۔
میں نے بشیر ملنگ سے پوچھا کہ ان لوگوں نے مکروہ دھندے کے لئے داتا دربار کے اردگرد ہی اپنے اڈے کیوں بنا رکھے ہیں؟ وہ کہنے لگا کہ یہاں کئی سرمایہ دار تماش بین آتے ہیں اور ہیر امنڈی نزدیک ہونے کی وجہ سے دھندہ کرنے والی یہاں آجاتی ہیں۔ یہ پبلک مقام ہے کوئی اعتراض بھی نہیں کر سکتا۔
اصل بات یہ ہے کہ یہاں سے جعلی پیر اور ملنگ گاہک کی شکل میں مل جاتے ہیں ان لوگوں کے پاس لوٹ کا مال ہوتا ہے اس لئے مال مفت دل بے رحم والی کیفیت ہے۔ یہ ملنگ لوگ کس قدر عیش و نشاط کے عادی ہوتے ہیں آپ کو اس کا اندازہ تب ہو سکتا ہے جب آپ چند ماہ درباروں پر گزاریں گے۔ کئی ملنگ تو باقاعدہ مجرے سنتے ہیں۔ ملنگ نے آپس میں کوڈ ورڈز بھی طے کر رکھے ہیں۔ جس روز کسی ملنگ کے پاس کوئی سادہ لوح خاتون نہ پھنسے وہ دوسروں سے کہتا ہے کہ آج میں روزہ سے ہوں۔
جب اسے کوئی سادہ لوح خاتون مل جائے تو وہ کہتا ہے کہ آج بہت روزی ملی ہے۔ اگر کئی سادہ لوح خواتین مل جائیں تو ملنگ کا جملہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ ” اج تے روزی اتے روزی وج رہی اے شاہ جی نہیں کٹھے سی لچھے ای نیں“
ملنگوں اور ملنگیوں کی ایک فوج ظفر موج ایک دربار سے دوسرے دربار پر ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انتظامیہ ان ملنگوں اور ملنگنیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ ملنگ ایسی ملنگنیوں کو ”بھلے لوگ“ کہتے ہیں جو خود گناہ کی زندگی بسر کرتی ہوں یا دوسرے شہروں سے آنے والی لڑکیوں کو گناہ کی زندگی بسر کرنے کی ترغیب دیتی ہوں۔
ایسے بھلے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان میں سے بعض کے ساتھ ملاقات بھی کی۔ ایک ملنگنی پروین گوگی نے مجھے بتایا کہ اب وہ تھک چکی ہے اور شادی کرنا چاہتی ہے لیکن اب اس عمر میں کوئی میرے ساتھ شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ پروین نے بتایا کہ وہ کوئی بارہ سال قبل داتا دربار آئی تھی۔ داتا دربار پر میری ملاقات ایک جعلی پیر کے ساتھ ہوئی۔ اس جعلی پیر نے مجھے یقین دلایا کہ اگر تم میرے دئیے ہوئے تعویز اپنے شوہر کو پلا دو اور دم کی ہوئی چینی چائے میں ڈال کر 40 روز تک اپنے شوہر کو پلا دو تو وہ تمام زندگی تمہارا مرید اور نوکر بن کر گزارے گا۔
میں نے اپنے شوہر کو رام کرنے کے لئے جعلی پیر کی خدمات حاصل کر لیں۔ میرا مسئلہ یہ تھا کہ شوہر اپنی بھابی میں دلچسپی رکھتا تھا اور مجھے اس کی یہ عادت بہت ناگوار گزارتی تھی۔ میں نے 40 روز تک جعلی پیر کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق عمل کیا۔ چالیس روز کے بعد میرا شوہر میرا نوکر تو کیا بنتا جعلی پیر کے ساتھ میرے تعلقات کے پیش نظر اس نے مجھے طلاق دے دی۔
اس جعلی پیر کو جب یہ علم ہوا کہ میں اپنے شوہر کی طرف سے آزاد ہو گئی ہوں تو اس نے مجھے کہا کہ کوئی بات نہیں آج سے تم میری بیوی ہو۔ تمہیں صرف ایک کام کرنا ہو گا اور وہ کام یہ ہے کہ تم دربار سے سادہ لوح خواتین کو گھیر کر میرے ڈیرے لایا کرو۔ اس جعلی پیر علیم شاہ نے ملتان روڈ پر ایک فحاشی کے اڈے کے ساتھ اپنا آستانہ بنا رکھا تھا۔ میں نے اس جعلی شاہ کو اپنا شوہر جان کر اس کے لئے کام شروع کر دیا۔ درجنوں نہیں سینکڑوں ہزاروں سادہ لوح خواتین کو اس کے اڈے تک پہنچایا۔
یہاں پر وہ عورتوں کی آوازیں ٹیپ کر کے انہیں بلیک میل بھی کیا کرتا تھا۔ میری بدکاری کی وجہ سے خاندان نے منہ موڑ لیا۔ حتیٰ کہ میری تین بیٹیاں بھی شوہر نے اپنی تحویل میں رکھیں اور مجھے ان سے ملاقات تک کی اجازت نہیں تھی۔ کچھ عرصہ قبل یہ جعلی پیر بھی غائب ہو گیا۔ میں نے اتنے خاندان برباد کیے ہیں اب اس کی سزا تو مجھے ضرور ملے گی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس جعلی پیر نے مجھے بھی بلیک میل کیا اور میرے ساتھ باقاعدہ نکاح تک نہیں کیا۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ کئی عورتیں اور نوجوان لڑکیاں اپنے گھروں سے زیورات اور نقد رقوم چوری کر کے جعلی پیر کے ہاں ڈھیر کر دیا کرتی تھیں۔ یہ جعلی پیر عورتوں سے رقم لینے کے ساتھ ساتھ ان کی بے حرمتی بھی کرتا اور انہیں اس امر کے لئے مجبور بھی کرتا رہا کہ وہ اس کے لئے اور گاہک تلاش کریں۔
یہ ساری رام کہانی سنانے کے بعد پروین نے مجھ سے التجا کی کہ شاہ جی ! اگر آپ میرے ساتھ شادی کر لیں تویہ مجھ پر احسان ہو گا۔ میں نے بہانہ کیا کہ ہم تو ”سید“ ہیں اور ”سید خاندان“ سے باہر شادی نہیں کر سکتے۔ البتہ میں کوشش کروں گا کہ تمہاری کسی بھلے آدمی سے شادی ہو جائے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تم یہ عادتیں چھوڑ سکو گی؟
پروین نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ آپ کے اس سوال کے جواب میں اگر میں سچ کہوں تو وہ یہ ہے کہ میں یہ عادتیں نہیں چھوڑ سکوں گی۔ دربار کے چسکے نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے ایک خدا کا بندہ پہلے بھی مجھے اپنے گھر لے گیا تھا اور میرے ساتھ شادی کے لئے بھی آمادہ تھا لیکن میں اسے چھوڑ کر تیسرے دن دربار واپس آگئی تھی۔ یہاں کے ملنگ اس قدر بھلے لوگ ہیں کہ اب ان کو چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔
پروین نے ایک واقعہ سنایا جس سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ اس کی ممتا ابھی نہیں مری۔ اس واقعہ سے یہ ثبوت بھی ملتا ہے کہ کسی عورت کی ممتا شاید کبھی نہیں مرتی خواہ وہ کسی بھی روپ میں کیوں نہ ہو پروین نے کہا کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیٹی کا راستہ روک لیا جو داتا دربار کے آگے سے گزر کر کالج جاتی ہے۔ میں اس کے پاؤں پڑ کر گڑگڑائی کہ بیٹی ایک بار ماں سمجھ کر میرے گلے لگ جاؤ۔
میری بیٹی نے مجھے ٹھوکر مار دی اور کہا کہ میں ایسی عورت کو اپنی ماں نہیں کہہ سکتی جس نے ہمیں بچپن میں لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ اور خود ایک جعلی پیر کے ساتھ چلی گئی تھی۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے پروین کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میں نے ایک لمحہ بھر کے لئے سوچا کہ آخر اب ان بے وقعت آنسوؤں کی کیا قیمت ہو سکتی ہے۔ پروین نے تفصیل کے ساتھ کہانی سنانے کے بعد بالآخر تان یہاں آکر توڑی کہ اب تو میں داتا دربار کی ہو کر رہ گئی ہوں میں کہیں نہ جا سکتی۔ کون مجھے قبول کرے گا۔ اگر کوئی مجھے قبول بھی کرے گا تو میں اس کے معیار پر پوری اتر سکوں گی۔
پروین کبھی کبھی دماغی مریض لگتی تھی اور اس کی نیم پاگل حرکتوں پر ترس بھی آتا تھا۔ مگر ایک نعت خواں منیر بھٹی نے مجھے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ جناب ! یہ عورت خواتین کی خرید و فروخت کرنے والے گروہ کی رکن ہے،اور اب بھی ہفتے میں کئی ایسی لڑکیوں کو ادھر سے ادھر کر دیتی ہے جو گھروں سے جھگڑوں یا اپنے آشناؤں کے ساتھ بھاگ کر آتی ہیں۔(جاری ہے )