12 ربیع الاول، جشن میلاد کی تیاریاں، لائٹننگ

ترے حسن خلق کی ایک رمق ۔۔۔۔

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

طہورہ شعیب، کراچی :

” ہیلو!افراء کیسی ہو؟ “
” میں ٹھیک تم سناؤ“۔۔
” یار ! آج تمہاری بلڈنگ میں میلاد ہے نا سنبل آنٹی کے ہاں ۔۔۔ ہمیں بھی بلایا ہے انہوں نے۔۔ اور ڈریس کوڈ بھی بتایا ہے۔ سب کو وائٹ ڈریس ہی پہننا ہے۔ امی پیچھے پڑی ہیں جانے کے لیے۔ تم بتاؤ تمہارا کیا پروگرام ہے؟“ افراء کی دوست لائبہ بولتی چلی گئی۔

” ہاں لائبہ۔۔۔۔ کب سے تیاریاں چل رہی ہیں بڑی زبردست۔ صفائی، کیٹرنگ وغیرہ مگر یار میلاد چھت پر ہے۔ امی کی طبیعت تو تمہیں معلوم ہے، سیڑھی نہیں چڑھ سکتیں بالکل! پھر ذیشان بھائی بھی حیدرآباد گئے ہوئے ہیں۔ ان کے پیچھے ویسے ہی طبیعت گر جاتی ہے ان کی۔ مجھے تو مشکل ہی لگ رہا ہے اپنا آنا بھی۔۔۔“

” یار یہ کیا بات ہوئی؟ اتنے دن ہوگئے ہم ملے بھی نہیں۔ اچھا موقع تھا۔ میلاد شروع ہونے کے بعد بیچ میں تو میں بھی اٹھ کر نہیں آسکتی تمہارے گھر۔۔“ لائبہ نے افسوس سے کہا۔

” لائبہ یار میں کوشش کروں گی اگر امی کی طبیعت ٹھیک ہوئی اور وہ سو گئیں تو۔۔۔ ورنہ تو مشکل ہی ہوگا!“

”چلو یار اللہ تعالیٰ آنٹی کو صحت دیں۔ تم ٹینشن نہ لو“ ۔لائبہ نے افراء کو دلاسا دیا۔

                 *..............*...........*

” اف۔۔ امی کس قدر بدبو آرہی ہے !!“ افراء نے کراہت سے منہ پر دوپٹہ ڈھک لیا۔ برتن دھونے کے لیے کھڑا ہونا محال تھا۔۔ ”یہ کیا؟؟“ اچانک اس کی نظر نالی سے ابلتے ہوئے پانی پر پڑی جو کچن کے ملحقہ حصے سے بہت تیزی سے بہتا ہوا آرہا تھا۔

” امی امی۔۔“ وہ حواس باختہ ہوکر پکارتی ہوئی اندر بھاگی ۔۔۔” افوہ افراء! ہمیشہ سمجھایا ہے کہ اس طرح بولائی ہوئی نہ آیا کرو۔ دل ہول جاتا ہے!! “ شائستہ نماز سے فارغ ہوکر بولیں۔” کیا ہوا؟“

” وہ امی کچن کے باہر پیسیج سے پانی آرہا ہے اور بدبو بھی بہت ہے۔“

” یا میرے اللہ! لگتا ہے پھر اوپر سے کوئی پائپ چوک ہوگیا۔۔“ شائستہ جلدی سے افراء کے ہمراہ معائنہ کرنے لگیں۔

” امی اب کیا ہوگا!۔۔“ افراء نے پریشان ہوکر کہا۔” بیٹا ! یہ اوپر سے ہی آرہا ہے پانی۔۔ان ہی کی لائن خراب ہے ۔پہلے بھی اتنی پریشانی اٹھائی تھی۔ معلوم نہیں یہ لوگ ٹھیک کیوں نہیں کرواتے۔
شائستہ نے فکرمندی اور تاسف سے کہا۔دونوں مل کر پانی کا بہاؤ بند کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔

  *.............*...........*

” الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ۔۔الصلوۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ۔۔“
سفید براق چادروں پر سفید لباس میں ملبوس دائرے میں کھڑی خواتین اور بچیاں ہم آواز ہوکر نہایت عقیدت اور احترام سے سلام پڑھ رہی تھیں۔ اگربتیوں کی خوشبو سے سارا پنڈال مہک رہا تھا۔ برقی قمقمے اور گلاب کی پتیاں محفل کی رونق کو دوبالا کر رہے تھے۔اس پر سبک رفتار سے سرسراتی ہوئی ہوا اور سلام کے کلمات کی گونج ۔ عجب ملکوتی فضا بنا رہے تھے۔ محفل میلاد ختم ہونے پر میزبان خوش دلی سے سب کی تواضع کرنے لگیں۔

                     *...........*.........*

” بیٹا! بس کرو! تھک جاؤ گی۔۔“
شائستہ نے افراء کو ایک اور ڈول بھرتے دیکھ کر کہا۔” امی ! یہ تو صاف کرنا ہی پڑے گا ، نہیں تو پانی رس رس کر لاونج تک آجائے گا۔“

”اف ! پانی تو دوبارہ آرہا ہے امی۔۔“ افراء نے پریشان ہو کر نالی کی طرف دیکھا۔ بالائی منزل سے برتن دھلنے کی آواز بہت واضح تھی۔

” افراء بیٹا ! تم اوپر جائو۔ سنبل سے کہو کہ ابھی برتن نہ دھلوائیں۔ ذیشان بھی گھر پر نہیں ہے پانی اندر آگیا تو کون سنبھالے گا سامان۔۔“

”مگر امی! ہم میلاد میں نہیں جاسکے۔ آپ سنبل آنٹی کو تو جانتی ہیں وہ کتنی جلدی برا مان جانتی ہیں۔“ افراء روہانسی ہوگئی۔

” اچھا ٹھہرو! میں فون پر بات کرتی ہوں۔“ شائستہ نے سنبل کو فون ملایا مگر فون ریسیو نہ ہوا۔ چاروناچار افراء نے جلدی سے کپڑے بدلے اور اوپر پہنچی ۔ چھت کا داخلہ دروازہ کھلا تھا، دستک کے ساتھ عبور کیا۔سامنے ہی سنبل مہمانوں کی خاطر مدارت میں مصروف تھی۔ افراء کے سلام کرنے پر اس کی طرف متوجہ ہوگئیں۔

” آنٹی ! وہ ایک بات کرنی تھی آپ سے پلیز۔“سنبل کی نگاہوں میں ناگواری اور شکوہ واضح تھا۔

افراء نے مسئلہ بتایا، اور سب سے اجتماعی سلام کرکے واپس لوٹ گئی۔ سنبل کی ناقدانہ نظر دروازے تک اس کا پیچھا کر رہی تھی۔لائبہ کی نظر اچانک دروازے پر پڑی تو وہ افراء کے پیچھے لپکی۔

” کیا ہوا سنبل؟ سب خیریت ہے؟ “ ایک دو خواتین سنبل کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر متوجہ ہوئیں۔

” بس کچھ نہیں بہن! نفسا نفسی کا دور ہے۔آج کل تو پڑوسی ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک نہیں ہوتے۔ پھر یہ تو ثواب کا معاملہ تھا۔ اب دیکھئے دین میں کتنا حق ہے پڑوس کا۔ نہ شائستہ خود آئی نہ بچی کو بھیجا۔ اب بچی آئی بھی تو کس حلیے میں، اورنج رنگ کے کپڑوں میں۔ کم از کم میلاد کے تقدس کا ہی خیال کرلینا چاہیئے تھا۔“ سنبل میٹھے لہجے میں سب کہہ گئیں۔ خواتین بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھیں۔ چند لمحوں میں ماحول کی پاکیزگی بدگمانی اور غیبت کی نذر ہونے لگی۔

” آپ لوگ بیٹھیں۔ اور گلاب جامن ضرور لیجئے ، بہت لذیذ اور گرم ہیں۔ میں آتی ہوں کچھ دیر میں۔۔“ سنبل زینہ اترنے لگیں۔

” ذرا انسان بات کرنے سے پہلے موقع محل ہی دیکھ لیتا ہے۔اب اس وقت تو میں پلمبر کو بلوانے سے رہی گھر میں،عجیب لوگ ہیں۔۔“ وہ بے حد جز بز تھیں۔

                            *.........*.........*

” افراء کی بچی!!۔۔ اتنے آخر میں کیوں آئیں؟ اور آنٹی کیسی ہیں؟کپڑے وائٹ کیوں نہیں پہنے؟“ نچلی منزل تک پہنچتے ہوئے لائبہ نے سوالات کی پوجھاڑ کردی۔

اندر جاکر کچن کا نقشہ دیکھ کر کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہی۔ شائستہ آنٹی الگ پریشان کھڑی تھیں۔ افراء اور شائستہ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود لائبہ افراء کے ساتھ صفائی میں جت گئی۔

                     *...........*..........*

” بھئی بہت ہی بہترین انتظام تھا۔ اللہ اپنے نیک بندوں کو ہی اپنے سے قریب ہونے کا موقع دیتا ہے۔ بڑی ہی توفیق والی ہے سنبل۔۔ “ گھر پہنچتے ہی لائبہ کی امی طاہرہ نے تعریف کی۔

” امی ! یہ آپ کو کیسے گارنٹی ہے کہ انہوں نے میلاد پڑھوایا ہے تو وہ ضرور ہی اللّٰہ کی محبوب بندی ہیں؟“
” بری بات ہے لائبہ! کسی کی نیکی نیتی پر شک نہیں کرتے!“ طاہرہ نے بیٹی کو سرزنش کی۔

” ٹھیک ہے، مانا کہ اللّٰہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے زیادہ قریب ہے مگر میری سمجھ سے باہر ہے کہ پڑوس کو تکلیف میں ڈال کر میلاد پڑھوا لینے سے کون سے درجات بلند ہوتے ہیں؟؟ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کی محبت میں یہ محفل سجائی گئی تھی۔ انہوں نے ہمیشہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹائی، جانی دشمنوں کو بھی دکھ نہ دیا۔ ان کے امتی ہوکر ہم اللہ کی مخلوق کو کیسے اذیت دے سکتے ہیں اور پڑوس کا حق تو رشتے داروں کے جیسا ہوتا ہے۔“

” بھئی پڑوس کا حق تو شائستہ پہ بھی عائد ہوتا ہے، خود نہیں آئیں اور افراء کو بھی نہیں بھیجا!اور انہیں کیوں تکلیف ہوئی؟ “ طاہرہ نے سنبل کی طرف داری کرتے ہوئے پوچھا۔
لائبہ نے تاسف سے ماں کی طرف دیکھا۔اور انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔

” اب تو ختم ہوگئی نا بات۔ میرا خیال ہے انہوں نے نیچے اتر کر منع کردیا ہوگا اس مسئلے کی وجہ سے برتن دھونے سے۔۔اب کیوں پریشان ہو؟“ طاہرہ نے پوچھا۔

” امی! بات بہت سادہ ہے! جہاں ثواب حاصل کرنے کے لیے سنبل آنٹی نے اتنا اہتمام کیا، اتنی سجاوٹ،اتنی مہمان داری، ایک پلمبر کو بلوانا کیا مشکل تھا۔ مہینے بھر پہلے سے اطلاع تھی ہمیں میلاد کی۔“ لائبہ دوست کی پریشانی پر بہت ہی دل گرفتہ تھی۔

” بالکل ٹھیک بات ہے۔ واقعی جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا جب کہ ذیشان بھی گھر پر نہیں، ان کا ہاتھ بالکل اکیلا ہے۔“ طاہرہ نے لائبہ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔

” اچھا اب مجھے چائے ملے گی اچھی سی؟ میری بیٹی تو پڑوس اور دوستی کا حق ادا کرکے آئی ہے نا۔اب ماں کی خدمت بھی کرو۔۔“
طاہرہ نے مسکرا کر شوخی سے کہا اور لائبہ کا موڈ ٹھیک کرنا چاہا کہ بات تو بہت گہری تھی اور حقیقی بھی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں