جنسی تعلیم، مسلمان بچوں کو کب، کتنی اور کیسے دیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تزئین حسن ……..
کیا قرآن اور حدیث جنس کے معاملات میں رہنمائی کرتے ہیں؟
اس مضمون کا مقصد قران اور دینی ذرائع کے مطابق جنسی تعلیم اور تربیت کی ضرورت کے حوالے سے دینی طبقات کو مسلمان معاشروں میں موجود رویوں پر نظر ثانی کی دعوت دینا ہے.
ہندوستان کی ریاست بھوپال کے آخری نواب حمیداللہ خان کی بیٹی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نوابزادہ شہر یار خان کی والدہ، عابدہ سلطان اپنی یادداشتوں “The Memories of a Rebel Princess” میں رقم طراز ہیں کہ انہیں بچپن ہی میں انگریزی، فرانسیسی زبان کی تعلیم، گھڑسواری، تیراکی، پیانو بجانے یہاں تک کے شیر کے شکار کی تربیت دی گئی تھی، لیکن خود ان کے بیان کے مطابق ان کی شادی شدہ زندگی کی ناکامی کی واحد وجہ یہ تھی کہ انہیں شوہر اور بیوی کے درمیان ازدواجی تعلق کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں دی گئی جس کے باعث وہ ازدواجی عمل کو انتہائی قابل نفرت عمل سمجھتی تھیں. اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روایتی طور پر مسلمان معاشروں میں تربیت کے اس اہم پہلو کو کس طرح نظر انداز کیا جاتا رہا ہے.

فی الوقت مغرب میں مقیم مسلمان والدین اسکولوں میں بچوں کو جنسی تعلیم Sex Education دینے کے حوالے سے شدید کرب کا شکار ہیں، کیونکہ اس معاملے میں مغربی نقطہ نظر ہمارے دین، معاشرت، کلچر اور روایات سے براہ راست متصادم ہے اور اکثریت اس معاملے میں مغربی پبلک اسکولوں کے نصاب پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے.

فی الحال Sex Education لازمی یعنی Mandatory نہیں لیکن بعض جگہ اسے لازمی کرنے کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے، جسے مختلف کمیونٹیز کی مخالفت کا سامنا ہے. عام طور سے مسلمان کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں ہندو، سکھ اور بہت سے قدامت پرست عیسائی اور یہودیوں کے کچھ فرقے بھی اسکول میں اس نوعیت کی تعلیم کے خلاف ہوتے ہیں.

سوال یہ ہے کہ کیا جنسی تعلیم فی الواقع سرے سے ہی غلط ہے؟ یا ہمارے بچوں کو اس کی ضرورت ہے؟ اس تعلیم کے لیے دلیل قران اور حدیث سے ملتی ہے. دین کے یہ ماخذ بہت سے مقامات پر ان معاملات کو بہت کھول کر بیان کرتے ہیں. اگر دس سال کے بچے کو قرآن ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھایا جائے اور جو مسلمان گھرانوں میں پڑھایا جانا چاہیے تو اس میں Sex Education سے متعلق بہت سی چیزیں از خود آ جاتی ہیں. مگر عام طور سے مسلم معاشرے اور مملکت اغیار میں مقیم مسلم کمیونیٹیز عموماً بچوں کو یہ تعلیم اور تربیت دینے کی ضرورت سرے سے محسوس ہی نہیں کرتیں.

جنسی تعلیم سے مراد عمر کے ساتھ ساتھ بچوں میں جو جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں آتی ہیں، ان سے متعلق مسائل سے آگاہی اور ان نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے دینی اور سائنسی معلومات فراہم کرنا ہے. والدین کے لیے یہ تربیت جب ہی ممکن ہے جب وہ اس کی ضرورت محسوس کریں اور انھیں خود ان مسائل سے آگاہی ہو اور اولاد ایک دوست کی مانند ان کے اس طرح قریب ہو کہ ان سے ہر موضوع پر بات کی جا سکے.

ان موضوعات میں سب سے اہم بچوں کو ان کے جسم کے پرائیویٹ حصوں کا شعور دینا کہ انہیں کوئی دوسرا ہاتھ نہیں لگا سکتا ہے. pleasant اور unpleasant touch کی آگاہی دینا. کسی دست درازی کی صورت میں بچے کو اس سے نمٹنے کے طریقے بتانا. ان میں بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ذہن میں پیدا ہونے والی خواہشات اور ان کو لگام دینے کے طریقے بھی ہو سکتے ہیں اور ان کے نقصانات بھی. ایام اور احتلام کے بعد غسل، حمل، مرد عورت کے درمیان ازدواجی تعلقات اور زنا کے دینی اور دنیوی نقصانات بھی مناسب عمر میں زیر بحث آ سکتے ہیں. درحقیقت یہی جنسی تعلیم ہے.

ہو سکتا ہے بعض والدین انھیں نامناسب یا غیر ضروری تصور کریں مگر یہ یاد رکھیں کہ آج کے انٹرنیٹ کے دور میں اگر آپ کا بچہ فلموں، پاپ کلچر، لٹریچر سے بچا ہوا بھی ہے تو اسے یہ سب کسی دوسرے ذریعہ سے معلوم ضرور ہوگا. اور مناسب یہ ہے کہ اس سے پہلے آپ خود اس کی رہنمائی کرنے والے ہوں. یہ چیز بچے کو آپ پر اعتماد بھی دے گی اور کسی ناگوار صورتحال سے نمٹنے کا شعور بھی.

چند سال پہلےسعودی عرب میں راقم کے ایک درس میں غسل کے مسائل کے بیان کے دوران ایک دینی بہن نے اپنی بارہ تیرہ سالہ بچیوں کو کمرے سے باہر بھجوانے کی استدعا کی. خاتون کا خیال تھا کہ اس عمر کی بچوں کے سامنے یہ مسائل بیان کرنا شرم و حیا کے تقاضوں کے منافی ہے. حالانکہ ان مسائل کی تعلیمات کے بغیر نہ تو بچیاں پاک ہو سکتی ہیں نہ نماز کی شرائط پوری کر سکتی ہیں جو مسلمان کے لیے از حد ضروری ہے.

اسی طرح چند مہینوں پہلے کینیڈا میں ایک درس اٹینڈ کرنے کا اتفاق ہوا جس میں سونے سے پہلے کلمہ پڑھنے کی فضیلت بیان کی جا رہی تھی کہ اگر خدا نخواستہ سوتے میں موت آجائے تو کلمہ کے بغیر نہ آئے. سننے والی بہنوں میں کسی نے اپنے کسی سوال یا تبصرے میں ہم جنسی کا لفظ استمعال کر لیا. اس وقت تو اس مداخلت پر خاموشی اختیار کی گئی، لیکن بعد میں اس پر بہت لے دے ہوئی کہ ہم جنسی کا تذکرہ درس میں کرنا بہت معیوب بات ہے. ہم اس اہم نکتہ کو فراموش کر جاتے ہیں کہ ہم جنسی کا تذکرہ تو قران میں بھی ہے اور کینیڈا جیسے ملک میں جہاں اسکولوں میں ہم جنسی کے موضوع پر گفتگو ہوتی ہو اور ملک کا وزیراعظم بہ نفس نفیس Gay Parade میں شرکت کرتا ہو، ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی طبقات سنجیدگی سےان موضوعات کو درس کا حصہ بنا کر بچوں والی مسلم خواتین کو اس کا شعور دیں کہ انھی ماؤں کو اپنے بچوں کی اصل رہنمائی کرنا ہے. اور یہ صرف کینیڈا یا امریکہ کا ہی مسئلہ نہیں، اب تو پاکستان میں بھی ٹی وی چینلز، ٹاک شوز اور ڈراموں کے ذریعے اس موضوع پر کھلم کھلا بات ہو رہی ہے. اردو ادب کا مطالعہ کرنے والے اور مسلم معاشروں کا کھلی آنکھ سے مشاہدہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ہمارے آس پاس بھی صدیوں سے بہت کچھ ہو رہا ہے. ایسے میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے یہ سمجھنا کہ ہمارے بچے ان موضوعات سے متاثر نہیں ہوں گے، بصیرت کی شدید کمی ہوگی.
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم درس میں سونے سے قبل کے وظائف تو ڈسکس کرنا چاہتے ہیں مگر اہم سماجی مسائل اور ان کا حل دینے سے اعراض کرتے ہیں. ہمارے مذہبی طبقات بالغ بچوں والی خواتین تک کے سامنے ان مسائل کا تذکرہ معیوب سمجھتے ہیں. سوچنے کی بات یہ بھی کہ اپنی خواتین اور بچوں کو ان موضوعات سے دور رکھ کر ہم بدلتے ہوئے دور کے ساتھ ساتھ قرآنی تعلیم کے تقاضوں کو سمجھنے میں بھی غلطی کا ارتکاب تو نہیں کر رہے؟

دین ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتا ہے اور اسے سیکھنے کے معاملے میں شرم کو پسند نہیں کرتا. آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں کی اس بات کی تعریف کی کہ وہ دین سیکھنے کے معاملے میں شرماتی نہیں تھیں. اپنے بچوں کو ہمیں یہ اعتماد دینے کی ضرورت ہے کہ جہاں انھیں ایسے کسی معاملے میں رہنمائی کی ضرورت ہو تو وہ خود سوال کریں. اور اگر دینی یا دنیوی معاملات میں کوئی پریکیٹکل چیلنج انھیں محسوس ہو تو اسے بھی اس اعتماد کے ساتھ ڈسکس کرسکیں کہ ان کا یقین کیا جائے گا اور انھیں مناسب رہنمائی دی جائی گی.

ماں باپ کی تربیت یا اسکولوں کے نصاب تعلیم کا مقصد ایک اچھے انسان، شہری اور سب سے بڑھ کر ایک اچھا مسلمان بننا، سکھانا ہے. قرآن اور دینی تعلیم کا مقصد بھی ظاہر ہے یہی ہے اور ہونا چاہیے. اگر ہم رٹو طوطوں کی طرح محض قرآن کی سورتیں اپنے بچوں کو یاد کروا رہے ہیں، لیکن قران اور حدیث زندگی گزرنے کا جو طریقہ بتاتے ہیں، شرم و حیا کو بہانہ بنا کر ان سے اعراض کرتے ہیں، تو ظاہر ہے اس سے دینی اور دنیوی تعلیم کا حق ادا نہیں ہوتا.

اس سے آگے بڑھ کر دنیا میں ایک بچے کو جو چیلنجز درپیش ہیں، ان کی تعلیم اور تربیت دینا اور باقاعدہ ایک نصاب تعلیم کے طور پر دینا بہت ضروری ہے. ہم جغرافیہ، تاریخ، لسانیات، ریاضی کی تعلیم کے لیے نصاب کی ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن جن دینی اور دنیاوی مسائل سے ہمارے بچوں کو ابتدائی عمر سے لیکر بلوغت اور بلوغت سے لیکر بڑھاپے تک سابقہ پیش آتا ہے، اس کو نظر انداز کرتے ہیں یا اسے ماں باپ کے انفرادی فیصلے پر چھوڑ دیتے ہیں.

بعض والدین شاید اس معاملے میں حساس ہوں اور سینہ بہ سینہ کچھ معلومات کو منتقل بھی کرتے ہوں، لیکن راقم کو مسلم معاشروں میں خصوصاً برصغیر سے تعلق رکھنے والی مسلم کمیونیٹیز (بعض اوقات غیر مسلم کمیونٹیز میں بھی مگر وہ فی الحال موضوع نہیں) میں اس بات کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے.

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس ضرورت کا احساس ہو بھی جائے تو والدین خود کہاں سے رہنمائی لیں. اس کے لیے باقاعدہ نصاب کے ذریعہ اہل علم کی رہنمائی کی ضرورت ہے. جس کے لیے دینی طبقوں ہی کو آگے آنا ہوگا. ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ اگر کوئی سیکولر فرد یا ادارہ کینیڈا و امریکہ کے تعاون سے کوئی ڈاکومنٹری، ٹی وی سیریل یا نصاب تیار کر لے تو ہمیں اعتراض ہوگا، لیکن خود اس معاملے میں پیش رفت کی ضرورت مشکل ہی محسوس کریں گے.

ہم سب جانتے ہیں کہ بچہ اپنی عمر کے مختلف مراحل میں مختلف جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں سے گزرتا ہے. لڑکوں کو لڑکیاں اچھی لگتی ہیں. یہ فطری تقاضا ہے، مگر انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ انھیں گھورنا اخلاقی اور دینی تقاضوں کے خلاف ہے. حیرت کی بات یہ ہے کہ مغرب کے آزاد روش معاشرے میں کسی بھی فرد کو گھورنا یا اشارہ کرنا انتہائی بدتہذیبی سمجھی جاتی ہے، فقرے کسنے کو جنسی طور پر ہراساں کرنا اور بغیر مرضی ہاتھ لگانے کو جنسی حملہ تصور کیا جاتا ہے، لیکن مسلمان معاشروں میں جنھیں 14 سو سال قبل غض بصر کا حکم دیا گیا تھا، گلی محلے، اسکولوں یہاں تک کہ یونیورسٹیوں میں بھی آتی جاتی لڑکیوں کو گھورنا اور اس سے آگے ان پر فقرے کسنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے. شاید ہماری کچھ بہنوں کو میرے اس تجزیے پر اعتراض ہو، مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم میں سے بہت کم لوگ اپنے لڑکوں کو اس معاملے میں کوئی ہدایت دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں. نصاب تعلیم میں اسے زیر بحث لانا تو بہت دور کی بات ہے.

اپنی لڑکیوں کے سر ڈھکنے اور پردہ کرنے کو تو ہم سب ضروری خیال کرتے ہیں مگر کتنے مسلمان گھرانے ہیں جہاں اپنے جوان ہوتے لڑکوں کی فطری خواہشات کو لگام دینے کی فکر ہوتی ہے. اور کیا اس کے لیے باقاعدہ تعلیم اور تربیت کی ضرورت نہیں؟

خود لڑکیاں خدا کی عطا کردہ فطری جسمانی تبدیلیوں کو باعث شرم محسوس کرتی ہیں جو کہ ایک غلط احساس ہے. انہیں مناسب انداز میں با اعتماد طریقے سے ان تبدیلیوں کے ساتھ نمٹنے اور گھر اور گھر سے باہر نکلنے کے آداب سکھانا ضروری ہے. اور یہ سب بھی مذکورہ تعلیم کا ہی حصہ ہونا چاہیے.
اور اس سے بہت پہلے چھوٹی عمر سے ہی گھروں میں یا گھروں سے باہر پڑوس، اسکول، ٹیوشن سینٹر، اور رشتے داروں کے ہاں کسی نازیبا جسمانی پیش رفت کی صورت میں والدین یا بڑوں کو مطلع کرنے کی تربیت دینا بھی ضروری ہے. یہ وہ چیز ہے جس سے ہم شاید بہ حیثیت قوم اغماض برتتے رہے ہیں، جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا ہے.

خصوصاً جائنٹ فیملی سسٹم میں رشتے داروں پر اعتماد کیا جاتا ہے. میری ایک بہت اچھی جاننے والی ایک پڑھی لکھی خاتون نے مجھے بتایا کہ ان کی ایک بہن جو ایک سخت گیر کرنل کی زوجہ ہیں، جائنٹ فیملی سسٹم میں اپنی کم عمر بیٹی کو اکیلے گھر پر نہیں چھوڑ سکتیں، لیکن اس کی وجوہات کو اپنے غصیلے شوہر کے سامنے بیان کرنے سے بھی قاصر ہیں، جو اپنے بھائی کے بارے میں کوئی بات سننے کے بجائے بیوی اور بیٹی ہی کو گھر سے نکال دیں گے. مرد ویسے بھی ہمارے معاشرے میں ہر لحاظ سے بہت مضبوط ہوتا ہے. اس کا عمل کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو، اس کا خمیازہ عام طور سے صنف نازک کو ہی بھگتنا پڑتا ہے، چاہے وہ بچی ہی کیوں نہ ہو.

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ان مسائل سے متعلق بہت سی تعلیمات ٹکڑوں کی صورت میں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق مسلمان والدین نئی نسل میں منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں. لیکن زندگی کے اس اہم ترین پہلو کی اہمیت کے پیش نظر سائنٹفک بنیادوں پر والدین اور ٹیچرز کے لیے ایک نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے مذہب کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو. اس کے لیے ہمیں مناسب انداز میں مختلف فورمز پر ان موضوعات کو زیر بحث لانا ہوگا.

یہ بات بھی یاد رہے کہ اسلامک اسکول میں پڑھنے والے بچے بھی ان برائیوں سے کلی طور پر بچے ہوئے نہیں. پچھلے دنوں ایک پاکستانی کینیڈین جو اب ایک بچے کی ماں ہے، سے بات کرنے کا موقع ملا جس نے اسلامک اسکول میں تعلیم حاصل کی، اور وہاں ہم جنس بچیوں کی موجودگی کا ذکر کیا. مذکورہ خاتون اپنے واحد بچے کو پبلک اسکول تو چھوڑ اسلامک اسکول بھی بھیجنے پر راضی نہیں، اور گھر پر ہی ہوم اسکولنگ کروا رہی ہے.

راقم خود بوسٹن امریکہ میں اپنے قیام کے دوران اسلامک اسکول میں پڑھی ہوئی ایک مسلمان طالبہ اور اس کی متعدد مسلمان دوستوں سے تفصیلی انٹرویو کرچکی ہے، جو اچھے اداروں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، لیکن سب اپنے ہم جنس ہونے کا اعتراف کرتی ہیں. اس گروپ کے ذریعہ راقم کو ایسی مسلمان کہلانے والے لیڈران اور نارتھ امریکہ کی سطح پر منعقد ہونے والی ریٹریٹ (ایک طرح کی تربیت گاہ) کا علم بھی ہوا، جہاں مسلمان بچوں کو ذکر اذکار کے ساتھ باقاعدہ عمل لوط کے دینی جواز بتائے جاتے ہیں. مذکورہ طالبہ چند سال پہلے حج بھی کر چکی ہے. لیکن خود اس کا ماننا تھا کہ ہم جنسی کا دنیا میں فروغ دراصل ایک بہت طاقتور سیاسی تحریک کا ایجنڈا ہے.

یہ مغرب میں رہنے والے والدین کے لیے لمحہ فکریہ ہے لیکن اگر اس آگ کو بجھانے کے لیے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو گلوبلائزیشن کے اس دور میں وہ وقت دور نہیں کہ یہ ہم آگ سب کے دروازوں تک پہنچے گی.

اور ان سب مسائل سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ تربیتی نظام ناگزیر ہے. بچوں کو تعلیم دینے کے لیے روایتی اور جدید ہر طرح کے کمیونیکیشن وسائل کا استمعال ضروری ہے، مثلاً والدین کی غیر رسمی گفتگو، اسکولوں کا نصاب، سبق آموزکہانیاں، کارٹون اور اینیمیشن پر مبنی فلمیں اور سب سے بڑھ کر والدین کی تربیت کے لیے نصاب کہ انھیں ان مسائل کا شعور دیا جائے. یوٹیوب پر انڈیا میں تیار کردہ کچھ انیمیشن ویڈیوز جنسی حملوں اور ہراساں کرنے کے واقعات کے حوالے سے شعور دینے کی کوشش کرتی ہیں مگر اس موضوع پر مسلمان معاشروں میں ہمہ جہت کام ہونا چاہیے.

اسی طرح مغرب میں مقیم مسلمان جہاں پبلک اسکولوں میں جنسی تعلیم کے خلاف ہیں، وہاں ان کے پاس نصاب کی شکل میں اپنا Sex Education پروگرام ہونا ضروری ہے. اسے مسجدوں میں کلاسز کی صورت میں پڑھایا جا سکتا ہے اور حکومتی سطح پر اسکولوں میں approve کروانے کی کوشش بھی شروع کی جا سکتی ہے. ان سب کوششوں کے بغیر محض سرکاری Sex Education پروگرام کی مخالفت اور اس سے آگے بڑھ کر درس میں ان موضوعات کا تذکرہ معیوب سمجھنا کس زمرے میں آتا ہے. قارئین اس بارے میں بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں.

راقم کے استدلال سے کوئی یہ مطلب نہ لے کہ ان ایشوز کو گفتگو میں شامل کرنے کا مقصد کسی قسم کا چٹخارا حاصل کرنا ہے. یہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں مسلم کمیونیٹیز کو اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی طرف دعوت دینا ہے. اس وقت برائی اتنی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ آنے والے وقت کے تقاضوں کو نظر انداز کیا تو ہمارے بچے دینی تعلیمات سے دور ہو کر اغیار کے طریقے اختیار کر سکتے ہیں.

آخر میں
میں اس بات کو دہرانا ضرور چاہوں گی کہ تغیرات کے اس سیلاب میں صرف وہ قومیں پنپ سکتی ہیں جو ان کے مطابق اپنے آپ کو نہ صرف ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہوں بلکہ آنے والی تبدیلیوں کا ادراک بھی کر سکیں، اور اس کے لیے تیار بھی ہوں. اس ضرورت کو نہ سمجھنا دراصل اپنے آپ کو اور اپنی آئندہ نسلوں کو ہلاکت میں ڈالنا ہے.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں