حماد سکندر :
مری، عزیز آباد باڑیاں سے ٹرین گزرتی ہوئی. ماشاءاللہ
ایک تصور۔۔۔۔۔۔ جو میں نے دیکھا
یہ کتنا خوبصورت منظر ہے. برف پوش پہاڑیاں، دھند اور سورج غروب ہونے کا منظر۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک احساس کہ یہ مری کی تصویر ہے لیکن ایسا نہیں کیونکہ یہ بھارت کا شہر ” شملہ “ ہے جہاں دنیا بھر سے ٹورسٹ پہنچتے ہیں اور دلکش مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ہماری ناممکنات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ممکنات ہو سکتی تھیں اگر ٹورزم انڈسٹری اپنا وجود برقرار رکھ پاتی لیکن بدقسمتی سے ٹورسٹ پوائنٹس سے کمایا جانے والا پیسہ نہ جانے سرکار کہاں چھوڑتی ہے. ملک بھر میں سے سب سے زیادہ سیاح آج بھی مری میں آتے ہیں ، ایک بڑا زرمبادلہ یہ شہر کماتا ہے۔ اس شہر میں بڑے بڑے بزنس مین سیاست دان اور ٹیکنوکریٹس پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے ملک کی نمائندگی عالمی فورمز پر کی لیکن انہوں نے اپنے شہر کو وہ توجہ نہ دی جو شملہ کو شاید ملی ہو.
سالانہ چوالیس سے پچاس لاکھ قومی و بین الاقوامی سیاح شملہ جاتے ہیں اور وہ بہترین یادیں سمیٹ کر واپس گھروں کو لوٹتے ہیں. وہاں کوئی لڑائی اور جھگڑوں کی یلغار نہیں ہوتی، نازیبا ویڈیوز منظر عام پر نہیں آتی، کوئی کسی سے زیادتی نہیں کرتا ، سیاح بھی شملہ کی روایات کا خیال رکھتے ہیں.
مری میں ہوٹل بہت پیارے ہیں، مال روڈ کی رونقیں خوب ہیں، ہم لوگ بھی تو بہت اچھے ہیں لیکن ایسا کیا ہے جو انٹرنیشنل ٹورسٹس مری سے نا آشنا ہیں یا وہ یہاں آنا نہیں چاہتے؟
یہ چند سوال ہیں جو حماد سکندر اور حماد سکندر جیسے سینکڑوں نوجوانوں کے دل و دماغ میں ہلچل مچا دیتے ہیں۔ اگر پوچھیں کہ کیا ہماری ٹورزم کا دائرہ کار ہر عام آدمی اور نچلے طبقے تک پھیلا ہوا ہے؟ تو جواب نفی میں آتا ہے۔
انٹرنیشنل سیاح تو درکنار اپنے دیس میں بھی شورش برپا ہے لیکن داخلی حلقوں میں سب اچھا کی رپورٹ دی جاتی ہے کہ ” جناب ! کمرے پورے لگ رہے ہیں “ او جناب ” آج بھی بہت رش تھا “ دوکان گاڑی کا کام بہترین رہا، جیب گرم گرم محسوس ہوتی ہے۔ نہ جانے یہ گراف کہاں کس قدر ایسکلیٹ کرے گا یا دھڑام سے زمین پر گرے گا۔ ایک سروے ناگزیر ہو چکا ہے۔
اگر آپ مری میں ٹرین کا تصور کریں تو ایک دم سے لفظ ” نہیں، اور ناممکن “ بجلی کی طرح آپ کے شعور کو چھو کر گزر جاتا ہے اور کسی حد تک حقیقت بھی ہے۔ سیاسی چپقلشیں ایسا ہونے نہیں دیتیں دیگر ترجیحات ہمیں اس طرف سوچنے نہیں دیتیں، اور سرمایہ اتنی پسلی نہیں رکھتا کہ ایسے خواب دیکھے بھی جائیں۔
سب سے بڑا مسئلہ ٹورزم انڈسٹری کا مفلوج ہونا ہے. مری میں سرمایہ دار کو ” مافیا “ کہا جاتا ہے جو کہ کہنا نہیں چائیے۔ کیونکہ قوانین کو لاگو کرنا، نظام کی تجدید، اور انڈسٹری کو چلانا ٹورزم انڈسٹری کا کام ہے اور سرکار ہی اس کی ذمہ دار ہے۔
ہمارے نمائندے اگر سرمایہ دار بچاؤ مہم چلانے کے بجائے اگر ٹورازم یعنی سیاحت بچاؤ مہم پر سوچنا اور کام کرنا شروع کر دیں تو یہی ناممکنات اور نہیں نا ممکن کی تکرار بدل کر ” ہاں جی ، اور واہ جی“ ہو جائے گی.
کون بچائے گا اس شہر کو یہ ایک کسوٹی ہے۔ فی الحال ہم تختیاں لگا لیں، سوشل میڈیا پر داد سمیٹ لیں۔ ٹانگیں کھینچ لیں۔ باقی آنے والی نسل دیکھ لے گی.
اور یاد کروا دوں اج سیاحت کا عالمی دن ہے۔ اگر اپ کو ہمارے کسی لیڈر یا ادارے کی ٹویٹ، ویڈیو پیغام یا اقدام نظر آیا ہو تو ضرور مطلع کیجیے گا.
ایک تبصرہ برائے “مری میں ٹرین سروس”
بہت اچھی تحریر ھے۔ دعا ہے کہ یہ حکومتاس طرف مذید توجہ دے ۔