سائنس کے خلاف ایک مقدمہ جس کا مطالعہ کرکے آپ جھوم اٹھیں گے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداعوان ……..
گزشتہ دنوں ایک مختصر سی تحریر پڑھنے کو ملی جس میں نہایت اہم، قابل غور نکتے اٹھائے گئے تھے۔ عنوان تھا:سائنس ہمیں کہاں سے کہاں لے آئی؟
لکھا تھا کہ
پہلے: وہ کنویں کا میلا اور گدلا پانی پی کر بھی 100 سال جی لیتے تھے۔
اب: نیسلے اور پیور لائف کا خالص شفاف پانی پی کر بھی چالیس سال میں بوڑھے ہو رہے ہیں۔
پہلے: وہ گھانی کا میلا سا تیل کھا کر اور سر پر لگا کر بڑھاپے میں بھی محنت کر لیتے تھے۔
اب: ہم ڈبل فلٹر اور جدید پلانٹ پر تیار کوکنگ آئل اور گھی میں پکا کھانا کھا کر جوانی میں ہی ہانپ رہے ہیں۔
پہلے: وہ ڈلے والا نمک کھا کر بیمار نہ پڑتے تھے۔
اب: ہم آیوڈین والا نمک کھا کر ہائی اور لو بلڈ پریشر کا شکار ہیں۔
پہلے: وہ نیم، ببول، کوئلہ اور نمک سے دانت چمکاتے تھے اور 80 سال کی عمر تک بھی چبا چبا کر کھاتے تھے۔
اب: کولگیٹ اور ڈاکٹر ٹوتھ پیسٹ والے روز ڈینٹیسٹ کے چکر لگاتے ہیں۔
پہلے: صرف روکھی سوکھی روٹی کھا کر فٹ رہتے تھے۔
اب: اب برگر، چکن کڑاہی، شوارمے، وٹامن اور فوڈ سپلیمنٹ کھا کر بھی قدم نہیں اٹھایا جاتا.
پہلے: لوگ پڑھنا لکھنا کم جانتے تھے مگر جاہل نہیں تھے.
اب: ماسٹر لیول ہو کر بھی جہالت کی انتہا پر ہیں.
پہلے: حکیم نبض پکڑ کر بیماری بتا دیتے تھے۔
اب: سپیشلسٹ ساری جانچ کرانے پر بھی بیماری نہی جان پاتے ہیں۔۔۔۔
پہلے: وہ سات آٹھ بچے پیدا کرنے والی مائیں، 80 سال کی ہونے پر بھی کھیتوں میں کام کرتی تھی۔۔۔
اب: پہلے مہینے سے ڈاکٹر کی دیکھ بھال میں رہتے ہوئے بھی بچے آپریشن سے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور دو بچوں کے بعد دی اینڈ.
پہلے: کالے پیلے گڑ کی مٹھائیاں ٹھونس ٹھونس کر کھاتے تھے۔۔۔۔
اب: مٹھائی کی بات کرنے سے پہلے ہی شوگر کی بیماری ہوجاتی ہے۔۔۔
پہلے: بزرگوں کے کبھی گھٹنے نہی دکھتے تھے۔۔۔
اب: جوان بھی گھٹنوں اور کمر درد کا شکار ہیں۔۔۔
پہلے: 100 واٹ کے بلب ساری رات جلاتے اور 200 واٹ کا ٹی وی چلا کر بھی بجلی کا بل 200 روپیہ مہینہ آتا تھا۔۔۔
اب: 5 واٹ(5watts) کا ایل ای ڈی انرجی سیور اور 30 واٹ کےLED ٹی وی میں 2000 فی مہینہ سےکم بل نہیں آتا.
پہلے: خط لکھ کرسب کی خبر رکھتے تھے.
اب: ٹیلی فون، موبائل فون، انٹرنیٹ ہو کر بھی رشتے داروں کی کوئی خیر خبر نہیں.
پہلے: غریب اور کم آمدنی والے بھی پورے کپڑے پہنتے تھے.
اب: جتنا کوئی امیر ہوتا ہے اس کے کپڑے اتنے کم ہوتے جاتے ہیں
سمجھ نہیں آتا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
کیوں کھڑے ہیں؟
کیا کھویا کیا پایا ؟
سائنس ہمارے لئے رحمت ہے یا زحمت ؟”
نامعلوم صاحب تحریرکے نکات ختم ہوئے۔ اب میں سوچ رہاہوں کہ اس نکات کا جواب کیسے دیاجائے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں ان نکات کا جواب نہ دیاگیا تو جدید دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے جن ستونوں پر کھڑی ہے، ان میں دراڑیں پڑجائیں گی۔تابھی تک میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا، آپ کے پاس ہے کوئی جواب؟ اگر آپ کے پاس بھی کوئی جواب نہ ہو تو ازراہ کرم اس زحمت یا رحمت کے دوراہے پر کھڑے ہوکر ہمیں کیاکرنا چاہئے؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں