سید امجد حسین بخاری :
کشمیری خواتین کی صبح کا آغاز نماز فجر سے ہوتا ہے۔ خواتین نماز کے بعد کچن کے کام کا آغاز کرتی ہیں ، نون چائے کا ناشتہ تیار کرتی ہیں ، جانوروں کے باڑے کی صفائی کرتی ہیں ، دودھ دوہتی ہیں ، بچوں کو تیار کرکے سکول بھیجتی ہیں ، بعدازاں گھر کے اندر اور اطراف سے صفائی کرتی ہیں اور پھر جانوروں کو لے کر چراگاہوں اور جنگلوں میں چلی جاتی ہیں ۔
جنگل میں جاتے ہوئے لکڑیاں کاٹتی ہیں ، ساتھ ہی جانوروں کے چارے کا بندوبست بھی کرتی ہیں ، نماز ظہر کے قریب جانوروں کو لے کر گھروں کو لوٹتی ہیں، لکڑیوں اور چارے کا گٹھا سر پر اٹھائے گھر پہنچتی ہیں ، دوپہر کا کھانا تیار کرتی ہیں ، جانوروں کو دوہتی ہیں اور دو سے تین گھنٹے قیلولہ کرتی ہیں ، اس کے بعد بچے سکولوں سے واپس آجاتے ہیں ، جنہیں کھانا کھلایا جاتا ہے اور پھرجانوروں کو لے کر جنگلوں میں چلی جاتی ہیں۔
مغرب کے بعد گھروں کو واپسی ہوتی ہے ، کھانا تیار کیا جاتا ہے ، جانوروں کا دودھ نکالا جاتا ہے ، انہیں چارہ ڈالا جاتا ہے اور خواتین اس کے بعد آرام کرتی ہیں۔ کشمیری خواتین کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں مگر نیلم اور جہلم کے بعض علاقوں میں مردوں کے کام یعنی گھاس کٹائی ، لکڑیاں کاٹنا اور گھروں کی تعمیر تک کے کام بھی خواتین ہی کرتی ہیں ۔
کئی پڑھی لکھی خواتین سرکاری ملازمت کرتی ہیں جبکہ کڑھائی ، سلائی، بنائی بھی کشمیری خواتین کا خاصہ ہے ۔ اگلی چند قسطوں میں کوشش کروں گا کہ خواتین کے ہر کام کو تفصیل سے بیان کروں۔
کشمیر اور یوم دفاع
چھ ستمبر کو ساری پاکستانی قوم ’ یوم دفاع پاکستان‘ مناتی ہے ، کوئی پاک فوج کو طعنے دے کر اور کوئی بھارت کی برتری کے دعوے کرکے یوم دفاع مناتی ہے ، میں گزشتہ آٹھ سال ہر چھے ستمبر کا آغاز شہدا کی قبروں پر فاتحہ خوانی سے کرتا ہوں لیکن اس سال بوجوہ میں کسی شہید کی مرقد پر حاضری نہیں دے پایا۔
ٹوئٹر کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں چند صحافی دوستوں سے گفتگو ہوئی، آج انہوں نے دفاع پاکستان بھر پور انداز سے منایا ، جموں سے کشتواڑ اور لداخ سے سرینگر سرپھرے کشمیریوں نے بھارتی فوج اور حکومت کو بھرپور انداز میں پیغام پہنچایا۔
اصل میں یہی کشمیری ہی دفاع پاکستان کی اصل جنگ لڑ رہے ہیں ۔ یہی جرات اور بہادری کے ساتھ پاکستان کی بقا کیلئے اپنا سینہ پیش کرتے ہیں۔ یہ کشمیر کے مختلف علاقوں سے آج دن کی تصاویر ہیں جو دفاع پاکستان کی عملی تصویر ہیں۔ ان تصویروں میں پاکستان سے محبت اور امید کا پیغام پوشیدہ ہے۔ یوم دفاع تو گزر گیا لیکن پاکستان کی خاطر کشمیریوں کی قربانیاں امر ہو چکی ہیں۔ تصویریں دیکھیں اور خود فیصلہ کریں کہ پاکستان کا دفاع کون کر رہا ہے۔
کشمیری جوڑے
وہ کہتے ہیں ناں کہ شادی باہمی اعتماد کا نام ہے ، دھوپ اور چھاؤں ، بہار اور خزاں ، خوشی اور غمی ، دکھ اور افسردگی ہر محاذ پر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے وعدہ پورا کیا جاتا ہے ۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں شادی شدہ جوڑوں کے تعلق کی انوکھی روایات ہیں ، محبت کی پیمائش کے الگ الگ پیمانے ہیں لیکن پرفیکٹ جوڑوں کے اندر بھی کچھ کمی موجود ہوتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کی خامیاں تلاش کر لیتے ہیں مگر کشمیر میں سات پھیرے سات وعدے مکمل کرنے کا اعلان ہیں ، قبول ہے ، صرف زبان سے اقرار نہیں کیا جاتا بلکہ دل سے تسلیم بھی کیا جاتا ہے، سات پھیروں اور قبول ہے کہ اقرار میں دونوں فریق میاں بیوی کے حقیقی رشتے کی عملی تصویر بن جاتی ہیں۔
اگر فریق اول دھوپ میں کھڑا ہے تو فریق ثانی چھاؤں بن کر ساتھ کھڑا ہوتا ہے، یقین جانیں پاکستان اور ہندوستان میں اگر کوئی آئیڈیل جوڑا موجود ہے تو اس میں سے ایک فریق کا لازمی تعلق کشمیر سے ہوگا۔ یہ تصویر اوڑی کی ہے جہاں ایک جوڑا لوبیا کی پھلیوں سے دانے نکال رہا ہے۔
گھڑکن
یہ کشمیری بچوں کا مقبول کھلونا ہے، عموماً اخروٹ کے سیزن میں دو سے تین ماہ تک بچے اس کھلونے سے لطف اندوز ہوتے ہیں ، اس کھلونے کی تیاری میں دو اخروٹ استعمال ہوتے ہیں ، نیچے والا اخروٹ بڑا ہوتا ہے ، اس میں تین سوراخ کئے جاتے ہیں۔
دو سوراخ آمنے سامنے کئے جاتے جبکہ ایک سوراخ کنارے پر بنایا جاتا ہے ، نیچے والے اخروٹ کو کھوکھلا کرکے اس میں سے گری مکمل طور پر نکال لی جاتی ہے جبکہ ایک ڈوری جس کی لمبائی زیادہ سے زیادہ ایک فٹ تک ہوتی ہے ، کی جاتی ہے ، مضبوط لکڑی لے کر ان سوراخوں کے آر پار کی جاتی ہے۔
بعد ازاں دوسرے اخروٹ کی پشت میں ڈوری اور لکڑی ڈال دیتے ہیں ، ڈوری کا ایک حصہ نیچے والے اخروٹ کے تیسرے سوراخ سے باہر نکالا جاتا ہے ، بعدازاں لکڑی کو گھمایا جاتا ہے تاکہ ڈوری لکڑی پر لپٹ جائے اور مکمل طور پر اخروٹ کے اندر سما جائے ۔
ڈوری کا ایک سرا باہر رکھا جاتا ہے، بعدازاں اسے سرے کی مدد سے ڈوری کو کھینچا جاتا ہے، نیچے والے اخروٹ کو دو انگلیوں میں پکڑا جاتا ہے جبکہ دوسرے ہاتھ سے ڈوری کو کھینچا جاتا ہے، اخروٹ کے ٹکرانے سے رگڑ پیدا ہوتی ہے جس سے بہت پیاری آواز نکلتی ہے ۔
اسی گھڑ گھڑ کے باعث اس کھلونے کو گھڑکن کہا جاتا ہے ، ستمبر سے نومبر تک تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا اہم مشن گھڑکن کو قبضے میں لینا ہوتا ہے، اوپر والا اخروٹ ماسٹر جی کھا جاتے ہیں جبکہ نچلہ حصہ پھینک دیا جاتا ہے۔
ایک گھڑکن کی تیاری میں بچوں کا ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے مگر ماسٹر جی کی تیز آنکھ اس محنت پر پل بھر میں پانی پھیر دیتی ہے۔ بچپن میں کئی بار اینٹی گھڑکن سکواڈ کے ہاتھوں چھترول کروا چکا ہوں۔( جاری ہے )