تحریر و تصاویر/ ڈاکٹر محمد کاشف علی :
روایات بتاتی ہیں کہ شیر شاہ سوری کی جرنیلی سٹرک (گرانٹ ٹرنک روڈ) کے گردونواح میں خطہِ یونان یعنی گجرات سے مغل شہنشاہ (روایت میں نام تو شہنشاہ جہانگیر کا آتا ہے جو مصدقہ نہیں ہے) کا لشکر گزر رہا تھا اور خوراک و رسد کی کمی کا شکار تھا مگر مرکزی گجرات سے ذرا ہٹ کر بہ جانب شمال مشرق ایک صوفی سخی حافظ حیات رحمۃ اللہ علیہ جو وہاں علم و رو حانی تربیت کی جوت جگائے بیٹھے تھے، نے بادشاہ کے لشکر کو خوراک کی ترسیل کی اور یوں بدلے میں بادشا ہ نے کئی ایکڑز زمین جو صوفی حافظ حیات کی درسگاہ سے متصل تھی عطا کر دی کہ اس زمین کی آمدن سے حافظ صاحب درگا ہ و درسگاہ کا انتظام بہتر طریقے سے چلا سکے ۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمان کے مطابق حضرت حا فظ حیات دہلی سے وزیرآباد اس وقت کے ولی حضرت عبدالباقی فیض یاب ہونے آئے تھے۔ انہوں نے آپ کی مناسب تربیت فرما کر آپ کو دریائے چناب (چندر بھاگا ) کے دائیں کنارے کے اوپری علاقے میں فیض تقسیم کرنے کی اجازت دی۔
یوں حضرت حافظ حیات نے جس جگہ ڈیرا جمایا وہاں جنگل میں تعلیم و روحانی تربیت کا چشمہ جاری ہو گیا اور علاقہ ان کے نام حافظ حیات سے منسوب ہو گیا اور آج اسی جگہ پر یونیورسٹی آف گجرات کا پر شکوہ کیمپس موجود ہے اور اس کو حافظ حیات کیمپس کا نام دیا گیا ہے۔ بے شک قرآن کا فرمان ہے کہ (مفہوم) تم میر ا ذکر کرو میں تمہارا ذکرو بلند کروں گا ۔
یونیورسٹی آف گجرات حافظ حیات کیمپس اسی جاگیر پر قائم ہے جو مغل بادشا ہ نے عطیہ کی تھی حضرت حافظ حیات کا اور ان کے کچھ مریدین کے مزارات یونیورسٹی کے اندر ہی ہیں۔ مرکزی مزار کے جنوب میں ایک مغل طرز کی عمارت کافی بہتر حالت میں موجود ہے جو شائدحافظ صاحب بطور لنگر خانہ کے استعمال کرنے تھے۔
اس کو پروفیسر عبدالرحمان بارہ دری لکھتے ہیں۔ جہاں سے تعلیم کے متلاشی، درویش، مسافر اور ضرورت مند افراد پیٹ کی آگ بجھایا کرتے تھے مزار سے متصل غربی طرف بھی تین چار کمروں پر مسشتمل نانک شاہی اینٹوں سے تعمیر کردہ ایک عمارت موجود ہے ،حقیقت میں عمارت تو موجود نہیں بس اس کے کھنڈرات و اثرات عکاسی کرتے ہیں کہ عمارت پر شکوہ تھی۔ شائد اس عمارت کو درسگاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھایا پھر درویش و مسافران اس میں بسیر اکرتے تھے۔ اس کا مصرف یا تو سرائے کا تھا یا پھر درسگاہ کا۔
مرکزی مزار کے مشرق کی جانب عمر بخش کا مقبرہ ہے جو اپنے سبز رنگ اور منفرد طرزِ تعیمر کیی وجہ سے توجہ کا طالب بنتا ہے۔ جامعہ گجرات کی تعمیر سے پہلے یہاں نہ صرف جمعرات کو زائرین کا ہجوم ہوتا تھا بلکہ سالانہ عرس اور میلہ بھی لگتا تھا،
اب چوں کہ یہ جامعہ کی حدود میں ہے تو سالانہ عرس سکڑ کر رہ گیا ہے اور جمعرات کو زائرین کی تعداد بھی محدود ہو گئی ہے۔ جامعہ کی حدود میں آنے کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ مخدوش ہوتے اثرات کا زوال کچھ حد تک رک گیا ہے جبکہ مرکزی مزار، مسجد، بارہ دری اور صحن کی دیکھ بھال کافی بہتر ہے۔
افسوس کا مقام یہ کہ ہم نے حضرت حافظ حیات کے سرمایہ کی بہت مناسب دیکھ بھال نہیں کی جیسا کہ بتایا کہ مزار تو کافی بہتر حالت میں ہے مگر درسگاہ یا سرائے کے اثرات بہت مخدوش حالت میں ہیں۔ شائد جلد ہی محکمہ آثارِقدیمہ اور محکمہِ اوقاف کی غفلت سے ہم موجود آثار سے محروم ہو جائیں گے۔
2 پر “حافظ حیات ، مغلیہ دور کی ایک درسگاہ” جوابات
Isko study Karany k Bad Acha feel honay k sath Information b Mili hai k Hum Jaha study Karty uski Jaga ki starting kasy hoe kasy wo building ki tameer hoe it’s really good🙂
شکریہ ایک اچھی عمارت اور خوب سیرت شخصیت سے متعارف کروانے کے لئے ۔