پاکستانی روپے، پانچ ہزار روپے کے نوٹ

تحفہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر میمونہ حمزہ :

شاپنگ مال کے کیش کاؤنٹر پر بل ادا کر کے وہ باہر نکلی، پارکنگ میں ڈرائیور اسی کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے اسے اگلی منزل بتائی اور گاڑی چل پڑی، کم وقت اور مقابلہ سخت کے مصداق وہ بار بار کلائی کی گھڑی اور موبائل دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے دور شہر میں رہنے والے میزبانوں کو اپنے سفر کا بتایا تو وہاں سے مزید ہدایات بھی مل گئیں،
’’ ڈائیوو بس پر آئیے گا، وین میں سفر مشکل ہو گا آپ کے لئے‘‘۔

وہ تنہا سفر کر رہی تھی، اس لئے کچھ خوف کا بھی شکار تھی، اڈے پر پہنچتے ہی اسے ایک جانب اے سی کوچ کا بورڈ نظر آیا تو وہ اسی جانب بڑھ گئی، تیزی سے ٹکٹ لیا، اور وین میں سوار ہو گئی، مددگار عملے نے اس کا بیگ چھت پر باندھ دیا، اور وہ دستی سامان لے کر نشست پر بیٹھ گئی، اسی اثنا میں میزبان کی جانب سے رابطہ کیا گیا،
’’ ہم نے ڈائیوو میں آپ کی بکنگ کروا دی تھی، سیٹ مل گئی؟‘‘۔

تبھی اسے اندازہ ہوا کہ اس نے تو دوبارہ موبائل فون چیک ہی نہیں کیا، اور جلد بازی میں ٹکٹ خرید لیا، کار کا ڈرائیور واپس جاچکا تھا، اور یہ کوچ بھی ٹھیک ہی تھی، اے سی اچھا چل رہا تھا، نشست بہت آرام دہ تو نہ تھی، لیکن گزارے لائق تھی،اسی لئے اس نے کسی اور آپشن کے بارے میں نہ سوچا۔

وہ شیشے سے باہر دیکھنے میں مگن تھی، جب اس کے ساتھ والی نشست پر ہلچل ہوئی، آنے والے مسافر آرام سے نشستوں پر بیٹھنے کی بجائے کافی دھکم پیل کر رہے تھے، شاید سامان زیادہ تھا، وہ ان سے انجان بنی باہر ہی دیکھتی رہی، وین چل پڑی تو اس نے سکھ کا سانس لیا، اور سنیکس کھانے میں مشغول ہو گئی۔

گاڑی پوری رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی، اور جولائی کے مہینے میں اے سی کی ٹھنڈک بتدریج کم ہو رہی تھی، حتی کہ اس کے پاؤں گرم ہونے لگے، شاید انجن کے قریب نشست ہونے کی بنا پر انجن کی گرمی اندر آنے لگی تھی، اس نے پاؤں سکیڑے، اور انہیں گرم سطح سے دور رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی، ڈرائیور کو متوجہ کیا، کہ وہ اے سی تیز کر دے، مگر وہ سنی ان سنی کئے اپنے کام میں مگن رہا۔اس نے ایک مرتبہ پھر ڈرائیور کو متوجہ کرنا چاہا:۔
’’اے سی تیز کر دیں پلیز۔۔ گاڑی گرم ہو رہی ہے‘‘۔

ڈرائیور نے ہاتھ ڈیش بورڈ کی جانب بڑھایا، مگر یہ کیا، اس نے ریکارڈ پلیئر آن کر دیا تھا۔ اور بے ہنگم موسیقی سے گاڑی گونج اٹھی تھی۔ اس نے غصّے سے اگلی سیٹ کی جانب دیکھا۔ ڈرائیور اپنے کام میں مگن تھا، اس کا سر درد سے پھٹنے لگا، اس کے پاؤں جوتوں کے اندر بھی جل رہے تھے۔

اس نے بے بسی سے آگے پیچھے دیکھا، مسافر اونگھ رہے تھے، اور کچھ باہر کے نظارے میں مگن! کئی مسافروں نے سائیڈ ونڈوز کھول لی تھیں۔ اس نے بھی زور لگا کر بائیں جانب کھڑکی کھولنے کی کوشش کی، اس کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے اس کی مدد کی، اور روزن سے ٹھنڈی ہوا اندر داخل ہوئی تو اس کا دماغ بھی ٹھکانے آیا،

اس نے ارد گرد کا جائزہ لیا۔ اس کے برابر میں بیٹھی لڑکی کے ساتھ دو بزرگ افراد تھے، باپ، جو سفید ریش بھی تھا، اور ساتھ کھڑکی کی جانب ادھیڑ عمر اس کی ماں ہی لگ رہی تھی۔ لڑکی سیاہ گاؤن اور پرنٹڈ سکارف پہنے ہوئے تھی۔

باہر کے مناظر خوبصورت اور دل موہ لینے والے تھے، وہ ان مناظر میں کھوئی ہوئی تھی، اچانک ساتھ والی مسافر نے اسے متوجہ کیا۔ وہ ڈسپوزیبل گلاس میں سیون اپ ڈال کر اسے پیش کر رہی تھی، اس نے معذرت کر دی، اور اس انکار میں اس کی شرمندگی بھی شامل تھی، اس نے کچھ دیر قبل ہی تو پورا سینڈویچ کھایا تھا، اور جوس کی بوتل بھی ! اس نے تو مروتاً بھی ان سے نہ پوچھا تھا۔اب آہستہ آہستہ ان کی پٹاری میں سے اور چیزیں بھی نکل رہی تھیں،

لڑکی اپنے ابا کو پیش کرتی اور وہ اصرار سے پہلے اس کی اماں کو کھلاتے اور پھر خود! وہ بھی وقفے وقفے سے اماں سے حال پوچھتی، کبھی ہاتھ کا پنکھا جھلنے لگتی، کبھی ماتھے پر ہاتھ پھیر کر بال سلجھا دیتی۔ والد بھی کھڑکی کی جانب بیٹھی خاتون کا بڑا خیال رکھ رہے تھے،

اس سفر میں ان دونوں کی توجہ کا مرکز وہی تھی، وہ کچھ دیر انہیں دیکھتی رہی۔ سفر تقریباً آدھا کٹ چکا تھا، سورج کی تمازت بھی کچھ کم ہو گئی تھی، وہ جو کچھ دیر پہلے غصّے میں تپ رہی تھی، اب اس کا مزاج بھی ٹھنڈا ہو رہا تھا۔

کوچ اب ٹھنڈے علاقے سے گزر رہی تھی۔ اس نے بیگ کی زپ کھولی اور چھوٹی سی ڈائری نکال لی۔ وہ پلان بنا کر آئی تھی کہ اس شہر اور علاقے کی سوغات بھی خریدے گی، وہاں کے ڈرائی فروٹس، پوشاکیں اور نادر لکڑی کا کام سب ہی مشہور تھا۔ اور یہاں کے تحائف اس کی سہلیوں اور عزیز و اقارب کو بہت مرغوب بھی تھے،

یہ وقت خریداری کی فہرست مرتب کرنے کے لئے مناسب ہے۔ اس نے سہیلیوں کی فہرست بنائی، اور پھر ان کے ذوق کے مطابق ان کے تحفے کا تعین کیا، اسے یقین تھا کہ اس کے پرس میں موجود رقم سے سب خریداری ہو جائے گی، اس مرتبہ وہ تحفوں کی رقم بطور خاص لائی تھی۔ کوچ کی رفتار کم ہوئی اور پھر ایک جگہ پارک کر دی گئی۔ ڈرائیور نے ریکارڈ پلیئر بند کیا، اور بآوازِ بلند اعلان کیا:

” بیس منٹ میں سب سواریاں واپس آ جائیں۔“ سامنے مسافروں کے لئے چھوٹا سا ہوٹل تھا، اور قریب ہی دو خستہ سی دکانیں بھی تھیں، جہاں تھال میں پکوڑے اور سموسے رکھے تھے۔ مسافر ایک ایک کر کے اترنے لگے، اس کے دائیں جانب پھر ہلچل ہوئی اور بزرگ سواری نیچے اتر گئی۔ سیٹ پر فراخی کا احساس ہوا تو اس نے بھی ذرا پاؤں پسار لئے۔

اس کے ساتھ بیٹھی لڑکی پھر اپنی اماں پر جھکی ہوئی تھی، انہیں سیٹ پر ذرا آگے کر کے ان کی کمر سہلا رہی تھی۔ بزرگ خاتون نے اس کی جانب خیر سگالی کے انداز میں میں دیکھا، ان کے لبوں پر مسکراہٹ تھی، بلکہ سفر میں جب جب اس کی نگاہ ان پر پڑی تھی انہیں مسکراتے ہی پایا تھا۔ بعض لوگوں کا چہرہ ہی ہنستا مسکراتا ہوتا ہے۔

ان کے علاوہ کوچ میں کوئی خاتون نہ تھی۔ مرد سواریاں اتر چکی تھیں، اس لئے وہ ان دونوں سے بے تکلف بات کرنے لگی۔ انہیں آگے مزید سفر بھی کرنا تھا، اور پھر کوچ سے اتر کر گاؤں تک کا سفر! بیٹی نے بتایا کہ ماں کینسر کی مریضہ ہے، جس کا کینسر آٹھ برس پرانا ہے۔ ان کے پاس زیادہ وسائل نہیں اس لئے جب ممکن ہو تو علاج کروا لیتے ہیں،

پھر کچھ عرصہ یوں ہی بیت جاتا ہے۔ اور جب تکلیف بڑھ جائے تو پھر ماں کو لیکر ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔ اب ان کی تکلیف بہت بڑھ گئی ہے، اس لئے انہیں ہر ہفتے علاج کے لئے راولپنڈی لانا پڑتا ہے، جہاں ان کی کیمو تھراپی ہوتی ہے۔

اس نے کپڑا ہٹا کر اسے کینسر کا مقام دکھایا تو وہ اندر تک لرز گئی، کینسر کا زہر کسی کیکڑے کے مانند ان کے جسم میں پیوست تھا۔ اس کے لئے یہ تصور کرنا بھی مشکل تھا کہ اس سے دو فٹ دور بیٹھی خاتون اس اذیت کے باوجود اتنی آرام سے سفر کر رہی تھیں؟ وہ جو ہٹی کٹی تھی، اس سے تو پاؤں میں پہنچنے والی ذرا سی گرمی برداشت نہ ہو رہی تھی، اور غصّے سے اس کا دماغ کھولنے لگا تھا۔

اس نے ایک مرتبہ پھر اس خاتون کے چہرے کی جانب دیکھا، جس پر تکلیف کے آثار تو تھے، مگر ہلکی سی مسکراہٹ اس سب پر حاوی تھی۔ بیٹی نے ماں سے پانی کا پوچھا، اس نے محبت سے سر اثبات میں ہلا دیا۔ بیٹی نے بتایا کہ ماں کے علاج میں ان کے کھیت کے کئی درخت بک چکے ہیں، گائیں اور بکریاں بھی، امی کہتی ہیں مجھ پر اتنا مال ضائع نہ کرو، لیکن جتنا ہمارے بس میں ہو علاج کرواتے ہیں، جب ڈاکٹر کے پاس جانے کی رقم نہ ہو تو حکیم کا علاج کروا لیتے ہیں۔

” یہ کینسر بہت سخت جان بیماری ہے۔“ ماں نے گفتگو سمیٹی۔’’ڈاکٹر نے کہا ہے کہ کچھ ہفتے اسی طرح کیمو تھراپی کریں گے، اس کے بعد آپریشن کریں گے، اللہ کرے میری امی بالکل ٹھیک ہو جائیں‘‘۔ بیٹی کی آنکھوں میں امید کے دیپ جل اٹھے۔

ہم ہر ہفتے رات کا سفر کر کے صبح ہسپتال پہنچتے ہیں، وہاں داخلہ نہیں لیتے بس سیدھا کیموتھراپی کے مقام پر جاتے ہیں، کیمو سے ان کی طبعیت کافی خراب ہو جاتی ہے، قے بہت آتی ہے، اور کمزوری بھی ہو جاتی ہے، پھر ہم ہوٹل میں کسی اے سی کمرے میں انہیں چند گھنٹے رکھتے ہیں، اور پھر واپسی پر اسی اے سی کوچ میں لاتے ہیں۔ بس راستے میں ٹھنڈا پلاتے رہتے ہیں۔ اس نے ماں کے بال سلجھاتے ہوئے کہا۔

وہ سر ہلا ہلا کر ان کی باتیں سن رہی تھی، لیکن اس کی نشست میں جیسے کانٹے اگ آئے تھے، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا موازنہ اس بزرگ خاتون سے کر رہی تھی، جو کینسر کا شکار تھی، آٹھ برس سے مسلسل اس بیماری کی اذیت برداشت کر رہی تھی، جس کی زبان سے اس نے ایک مرتبہ بھی کسی کے بارے میں گلہ نہ سنا تھا، نہ ہسپتال کے بارے میں، جو اتنی شدید کیفیت پر بھی انسانی ہمدردی میں اسے چند گھنٹے کے لئے بھی اپنا بستر نہیں دیتا تھا، نہ سینکڑوں کلو میٹر دور سے آنے والی کے بل میں کوئی کمی کرتا تھا، حتی کہ اسے تو اس وین ڈرائیور سے بھی گلہ نہ تھا جو اے سی کا کرایہ وصول کر کے تھوڑے سفر بعد ہی اسے بند کر دیتا تھا، اور اس کی جگہ بے ہنگم موسیقی کی کیسٹ لگا دیتا تھا۔

اس نے بڑی مرعوبیت کے ساتھ اس ہستی کو دیکھا، جس کے چہرے پر ابدی مسکراہٹ کھیل رہی تھی، کچھ لوگ یوں بھی ’’سمائیلنگ فیس‘‘ ہوتے ہیں، اس نے سوچنا چاہا، مگر اس کے دل سے آواز آئی: ’’فیس از دی انڈکس آف مائینڈ‘‘۔

چہرہ تو محض ذہن کا اک دریچہ ہے۔ اس نے سواریوں کے کوچ میں آنے سے پہلے ہی اپنا بیگ کھولا، اور تحفوں کے لئے جمع کی ہوئی رقم کو چپکے سے اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ ایک دم اچھل پڑی۔
’’ آپ رہنے دیں اسے، ہم سید ہیں، صدقہ نہیں لیتے‘‘۔

اس کی آنکھیں چھلک پڑیں:’’نہیں، صدقہ نہیں ہے یہ ۔۔ یہ تو تحفہ ہے‘‘۔جی ہاں، یہ سب تحفہ ہی تو تھا، اسے لگا کہ تحفہ کا بھی کوئی حقدار ہوتا ہے، اور اس کا تحفہ اصل مقام پر پہنچ گیا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “تحفہ”

  1. زبیدہ روف Avatar
    زبیدہ روف

    میرا دل کر رہا تھا کہ یہ end ھو ۔۔۔😊