عبیداللہ عابد ……..
تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبدالوہاب آج صبح نماز فجر کے بعد اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ گئے، وہ گزشتہ کئی روز سے ڈاکٹرز اسپتال میں زیر علاج تھے، انہیں ڈینگی بخار کے باعث اسپتال منتقل کیا گیا تھا، حاجی عبدالوہاب کو سانس لینے میں دشواری کاسامنا تھا اور سینے میں تکلیف بھی تھی جس کے باعث وہ رواں سال کے تبلیغی اجتماع میں شرکت بھی نہیں کرسکے تھے۔ گزشتہ رات حاجی عبدالوہاب کی طبیعت کافی خراب ہو گئی جس کی وجہ سے وہ اس جہان فانی سے رحلت فرما گئے۔
امیرتبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب1922 کو ہندوستان کے شہر دہلی میں پیدا ہو ئے، ایک دوسری روایت کے مطابق وہ سہارنپور میں پیدا ہوئے تھے۔ان کا تعلق راجپوت راؤ برادری سے تھا، ہجرت کے بعد پاکستان آئے،اور وپیاں والاتحصیل بورے والا ضلع وہاڑی میں قیام پذیر ہوئے،اسلامیہ کالج لاہور سے گریجو یشن کیا، گریجویشن کے بعد بطورتحصیلدار ملازمت شروع کردی،عبد الوہاب تبلیغی جماعت کے بانی محمد الیاس کاندھلوی کے زمانے سے ہی تبلیغی جماعت سے منسلک ہوئے۔ اس کام میں اس قدر منہمک ہوئے کہ ملازمت بہت پہلے چھوڑ دی تھی، پھر نہ شادی کی نہ ہی کوئی کاروبار. نوجوانی میں سیدعطااللہ شاہ بخاری کی مجلس احرارالاسلام میں بھی شامل رہے اورتحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اکتوبر 2013ء کو تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان کے درمیان میں امن مذاکرات کے لیے حاجی محمد عبد الوہاب کا نام بطور سربراہ لویہ جرگہ تجویز کیا گیا تھا۔ فروری 2014ء میں طالبان نے حاجی محمد عبد الوہاب،سمیع الحق،ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نام تجویز کیا تھا کہ وہ پاکستان اور طالبان کے درمیان میں امن مذاکرات میں بطور سہولت کار کردار ادا کریں۔حاجی عبدالوہاب مسلم دنیا کی 500 سو بااثر شخصیات میں 10 ویں نمبر پر شامل تھے، ان کا شمار پاکستان کے ان پانچ لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی تبلیغ کے لئے وقف کی۔
معروف مبلغ مولانا طارق جمیل کہتے ہیں کہ حاجی صاحب صاحب حال لوگوں میں سے ایک تھے جو کروڑوں میں ایک ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے کوئی کام لیتا ہے، وہ کوئی اور کام کرتے، بس! اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا وہی کام کرتے ہیں۔ جس نے بھی حاجی عبدالوہاب کو دیکھا، وہ ان سے جیسا انسان پھر نہیں دیکھ سکتا۔ مولانا سراپا دعوت تھے۔ مولانا طارق جمیل بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ اور مولانا احسان صاحب حاجی صاحب کے پاس بیٹھے تھے، وہ اپنا کھلا، سفید قمیض پہن رہے تھے،تاہم وہ دین سےمتعلق گفتگو کرنے میں اس قدر مگن تھے آدھا پون گھنٹہ اسی حال میں گزار دیا اور انھیں دھیان ہی نہ رہا کہ انھوں نے قمیص بھی پہننی ہے۔ اسی طرح کھانے کے دوران بھی دین کی دعوت دے رہے ہوتے تھے، مولانا طارق جمیل کہتے ہیں کہ پون گھنٹہ تک ایک لقمہ ان کی انگلیوں کے درمیان رہا لیکن وہ دین سے متعلق گفتگو میں مگن رہے۔ مولانا کے بقول:” میں نے ان میں نبیوں والا درد، تڑپ اور بے قراری دیکھی،مزاجا ایسی شخصیت دنیا میں کہیں نہیں دیکھی، کھانے کا وقت نہ سونے کا وقت”. چنانچہ تبلیغی جماعت کے دیگر اکابرین نے ان پر پابندی عائد کردی کہ آپ کے کھانے کے وقت کوئی شخص آپ کے پاس نہیں بیٹھے گا تاکہ آپ کھانا تو کھالیں.
پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم حاجی عبدالوہاب کے پاس گئے اور ان کی خدمت میں ایک بہت بڑی رقم پیش کی۔ حاجی صاحب نے وہ خطیر رقم قبول کرنے سے انکارکردیا اور کہا کہ ہمیں رقم کی ضرورت نہیں، آپ کی ضرورت ہے۔ آپ تبلیغ میں کچھ وقت لگائیں۔ وزیراعظم صاحب نے مختلف دلائل دینے شروع کردئیے کہ یہ رقم تبلیغی جماعت کے کام میں صرف کریں، حاجی صاحب نے انکارکردیا، وزیراعظم صاحب نے کہا کہ حضرت ! اتنی بڑی رقم آپ کو کوئی نہیں دے گا، حاجی صاحب نے فورا جواب دیا کہ اتنی بڑی رقم قبول نہ کرنے والا بھی آپ کو کوئی نہیں ملے گا۔
حاجی عبدالوہاب چھیانوے(96)برس کی عمر میں بھی روزے رکھتے تھے،ساری رات قرآن مجید پڑھتے تھے، وہ روزانہ ایک ہزار مرتبہ سورہ اخلاص پڑھتے تھے اور تین ہزار مرتبہ یاحی یاقیوم برحمتک استغیث پڑھاکرتے تھے اور لوگوں کو بھی اس کی نصیحت کرتے تھے، کہا کرتے تھے کہ یہ پڑھ لیا کرو، کبھی بیمار نہیں ہوگے۔
واضح رہے کہ محمد شفیع قریشی تبلیغی جماعت کے پہلے امیر تھے ان کی وفات کے بعد حاجی محمد بشیر دوسرے امیر مقرر ہوئے جبکہ حاجی عبدالوہاب تیسرے امیر مقرر ہو ئے، وہ عالمی تبلیغی جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی تھے.