عبیداللہ عابد ……..
گزشتہ دنوں ایک صاحب ہمارے دفتر میں آئے، انھیں راستے میں ایک جگہ پر انھیں تحریک انصاف کے کسی وزیر کا قافلہ گزرنے کی وجہ سے کشمیرہائی وے(اسلام آباد) کے سیرینا چوک پر زیادہ دیر تک رکنا پڑا۔ وہ صاحب تحریک انصاف کے حامی تھے۔ میں نے کہا کہ آپ کے عمران خان اور سابقہ حکمرانوں میں پھرکیا فرق ہوا، ان کے پروٹوکول قافلوں کی وجہ سے بھی عام آدمی کو خوارہونا پڑتا تھا اور اب بھی وہی صورت حال ہے۔ وہ کہنے لگے کہ نوازشریف کے دور میں زیادہ دیر تک خوار ہونا پڑتا تھا اور عمران خان کے دور میں کم۔ میں نے انھیں کہانی اُس بادشاہ کی، جس کی رعایا محض اس بات پر خوش ہوگئی تھی کہ سابقہ بادشاہ انھیں کان پکڑا کر زیادہ جوتے رسید کرتا تھا اور موجودہ بادشاہ کم۔ بہرحال تحریک انصاف کے حامی موصوف عمران خان کے دور میں کم خوار ہونے پر خوش پائے گئے حالانکہ میں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی ایسا حکمران ڈھونڈو جس کے عہد میں بالکل خوار نہ ہونا پڑے۔
وزیراعظم عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ انھیں ووٹرز اور حامی ایسے ملے ہیں جو پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، جنرل مشرف کی حکومتوں سے ستائے ہوئے تھے تاہم بدقسمتی یہ ہے کہ خان صاحب سمجھتے ہیں یہ ووٹرز اور حامی اُن کی شخصی خوبیوں سے متاثر ہیں۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ الگ موضوع ہے کہ عمران خان میں ایک اچھے لیڈر والی کوئی خوبی ہے یا نہیں۔ بہرحال یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی روایتی حکمرانی سے ستائے ہوئے تھے۔
ہمارے ایک دوست تجزیہ نگار واٹس ایپ پر موصول ہونے والا ایک پیغام پڑھ کر سنارہے تھے کہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والوں میں کئی گروپ تھے:
بڑا گروپ: جو سمجھتا تھا کہ خان سائیکل پر وزیر اعظم ہاؤس جایا کرے گا،
دوسرا: جسے یقین تھا کہ خان خود کشی کر لے گا قرضہ بلکل نہیں لے گا،
ایک گُروپ سمجھ رہا تھا کہ سو ارب ڈالر دنیا کے منہ پر مارے گا اور باقی سو ارب ڈالر عوام پر خرچ کرے گا۔
ایک اور گروپ تھا جو سمجھتا تھا کہ خان کی ایک کال پر بیرون ملک پاکستانی اربوں کھربوں ڈالر پاکستان بھیج دیں گے
ایک گروپ وہ بھی ہے جو آج بھی کہتا ہے کہ خان کو وقت دو ایک روپے کے دو سو ڈالر ملا کریں گے.
ایک گروپ وہ بھی تھا جو سمجھتا تھا کہ خان نے پہلے ہی اتنی شہرت اور دولت دیکھی ہے کہ اسے وزارت عظمی کا کوئی لالچ نہیں اور نہ ہی وہ کسی کے نیچے لگ کے رہے گا۔
ایک بہت بڑا گروپ بھی ہے جو سمجھتا تھا نیک نیتی(اصل میں وہ بھی نہیں تھی) کے سامنے قابلیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔۔
ایک وہ بھی تھا جو سوچتے تھے کہ خان پنجاب پولیس کوسیدھا کرے گا.
ایک گروپ وہ بھی تھا جن کو یقین تھا کہ خان وہی کرے گا جو وہ کر رہا ہے۔ اور یہ یہی وہ گروپ ہے جسکو خان نے مایوس نہیں کیا-
اور ایک گروپ اس امید میں ہے کہ یہ قوم عظیم قوم بنے گی.
ان سب گروہوں میں شامل افراد اب رفتہ رفتہ دل شکستہ ہورہے ہیں، مایوس ہورہے ہیں. اگرچہ اب بھی کچھ حامی ایسے موجود ہیں جو
عمران خان کے ہر یوٹرن کا دفاع کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں.اب ان کے پاس بھی دفاع میں کہنے کو مزید کچھ بھی باقی نہیں رہا، سوائے اس کے کہ عمران خان کو چھ مہینے دیدیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ چھ مہینے بھی گزرگئے اور یہ دفاع کرنے والے بھی شرمندہ اور مایوس ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے تو پھر کیا ہوگا؟ بہتر ہے کہ عمران خان عوام دوست طرزحکومت کرنے کا سلیقہ کسی سے سیکھ لیں، یہ ان کے اور پاکستانی قوم کے حق میں بہت بہتر رہے گا.