احمد شاہین :
برطانوی یونیورسٹیوں میں ماسٹرز یا پوسٹ گریجویٹ ڈگری کے لیے تعلیمی سال کا آغاز عموماً ستمبر کے مہینے میں ہوتا ہے۔ اس برس اگرچہ کورونا وبا سے پیدا شدہ صورتحال نے ہر چیز تلپٹ کرکے رکھ دی ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ زندگی آہستہ آہستہ معمول کی جانب لوٹ رہی ہے۔ اسکولز کھل چکے ہیں جبکہ یونیورسٹیوں میں نیا تعلیمی سال، تاریخوں کی معمولی سی تبدیلی کے ساتھ شروع ہونے کے قریب ہے۔
عموماً برطانوی یونیورسٹیوں میں موسمِ خزاں کی ٹرم ستمبر کے وسط یا اس کے بعد سے شروع ہوجاتی ہے، جبکہ اس برس زیادہ تر یونیورسٹیاں ستمبر کے آخری ہفتے یا اکتوبر کے ابتدائی دنوں میں پوسٹ گریجویٹ کلاسز کا آغاز کررہی ہیں۔
اگر آپ ان خوش قسمت بین الاقوامی طالب علموں میں شامل ہیں جنہوں نے اس برس برطانوی یونیورسٹی میں ایڈمیشن حاصل کیا ہے اور اب روانگی کے لیے پر تول رہے ہیں، تو یہ بلاگ آپ ہی کے لیے ہے، خصوصاً ابتدائی دنوں کو کارآمد بنانے کے لیے۔
چونکہ 6 سال پہلے میں اس صورتحال سے گزر چکا ہوں اور وہاں ہونے والے معاملات کو بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں اس لیے سمجھتا ہوں کہ اپنے تجربات سے کئی لوگوں کی مشکلات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
لیکن اگر اس سال آپ داخلہ نہیں لے سکے ہیں مگر مستقبل میں حصولِ تعلیم کی خاطر برطانیہ آنا چاہتے ہیں تو یہ معلومات آپ کے لیے بھی مفید ہیں۔ اور اگر آپ ان دونوں زمروں میں نہیں آتے تو پھر بھی برطانوی نظامِ تعلیم، یہاں طلبہ کی روٹین اور روزمرہ معمولات کو جاننے کے لیے یہ بلاگ دلچسپ ثابت ہوسکتا ہے۔
خود کو برطانوی طرزِ زندگی کے لیے تیار کریں
بارش، بے وقت بارش، کبھی بھی بارش! یہ برطانوی موسم کا مختصر ترین خلاصہ ہے۔ پاکستان میں بھلے ہی بادل دیکھ کر دل میں لڈو پھوٹتے ہوں اور چولہے پر تیل کی کڑاہی دھر دی جاتی ہو، مگر برطانیہ میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ اور ہاں، اگر صبح الارم سے آنکھ کھلے، آپ بیڈ پر لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کر پردہ سرکائیں اور کالی گھٹائیں آپ کا استقبال کریں تو بھی دل میں چھٹی کا خیال تک نہ لائیں۔ برطانیہ میں بارش کے سبب کلاس چھوڑنا ایسا ہی تصور کیا جائے گا جیسے آپ پاکستان میں اس وجہ سے چھٹی کرکے بیٹھ جائیں کہ باہر ‘سورج نکلا ہوا تھا’۔
پاکستان سے آتے وقت، بارش سے نمٹنے کے لیے، چھتری، رین کوٹ یا واٹر پروف جیکٹ اور سردی سے نمٹنے کا سامان لیتے آئیں۔ اگرچہ یہ سب یہاں بھی مل جائے گا، لیکن جب ایک طالب علم کو پاکستان سے لائے گئے پاونڈز خرچ کرنا پڑیں تو یقیناً یہ ایک مشکل صورتحال ہوتی ہے۔
برطانوی یونیورسٹیاں کثیر الثقافتی معاشرے کی عملی تصویر ہیں۔ آپ سے بہت مختلف عقائد رکھنے والے دنیا بھر سے آئے، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف قومیتوں کے افراد سے تعلق اور میل جول رکھنے کے حوالے سے ذہنی طور پر تیاری بہت ضروری ہے تاکہ آپ نا چاہتے ہوئے بھی کسی معاملے میں ایسی بات نہ کہہ دیں جو کسی کو ناگوار گزرے۔
‘سوری’ اور ‘تھینک یو’ کا بے دریغ استعمال، بظاہر موقع محل نظر نہ بھی آتا ہو لیکن یہ 2 حرف آپ کو کسی بھی صورتحال میں سننا پڑسکتے ہیں، لہٰذا صرف سننے ہی پر اکتفا نہ کریں، گفتگو اور مختلف حالات کے دوران خود بھی ان کو استعمال کرنے کی عادت ڈال لیں۔
برطانوی طرزِ زندگی کے حوالے سے یہ سب کچھ اور دیگر بہت سی عملی باتیں آپ کی یونیورسٹی بھی گاہے بگاہے بتاتی رہے گی، ان پر نظر رکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ ساتھ ہی ساتھ یونیورسٹی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور آن لائن فورمز بھی جوائن کرلیں تاکہ مختلف ہدایات بروقت آپ تک پہنچ سکیں۔
رہائش کا انتظام ترجیحی بنیادوں پر کریں
چاہے آپ یونیورسٹی ہاسٹل میں رہائش اختیار کرنا چاہ رہے ہیں، کچھ دوستوں کے ساتھ کرائے پر نجی رہائش رکھنا چاہتے ہیں یا ‘خوش’ قسمتی سے آپ کے دُووور کے رشتہ دار اسی شہر میں مقیم ہیں جہاں آپ کی یونیورسٹی موجود ہے اور انہوں نے آپ کے گھر والوں کو بھی قائل کرلیا ہے کہ بچہ اپنی نظروں کے سامنے ہی رہے تو اچھا ہے، جو بھی صورتحال ہو، رہائش کو جلد از جلد اور برطانیہ آنے سے پہلے ہی فائنل کرکے اس معاملے پر اپنا ذہن یکسو کرلیں۔
یونیورسٹی کی جانب سے فراہم کردہ رہائش گاہ اگرچہ نسبتاً مہنگی محسوس ہوتی ہے اور یہاں کچھ پابندیوں اور ضابطوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے لیکن بطور طالب علم، یہاں پڑھائی کے لیے صورتحال آئیڈیل ہوگی۔ ایک مخصوص علمی ماحول، کامن رومز میں بھی مختلف اہم موضوعات پر معیاری ڈسکشنز اور پھر پڑھائی کے لیے موجود سہولیات کی وجہ سے عموماً ‘لائق’ طلبہ کی پہلی ترجیح یونیورسٹی ہاسٹل ہی ہونی چاہیے۔ جہاں تک بات ہے صفائی، کھانا پکانا اور کپڑے دھونے کی تو یہ آپ کو پرائیوٹ رہائش میں بھی خود ہی کرنا ہے اور یونیورسٹی ہاسٹل میں بھی یہ ذمہ داریاں آپ کو خود ہی اٹھانی ہیں۔
لیکن اگر پھر بھی اگر آپ کا ارادہ یونیورسٹی سے باہر رہائش رکھنے کا ہی ہے تو اس حوالے سے جتنا جلدی ہو کام شروع کرلیں۔ آن لائن سروسز کے ذریعے کرائے پر مناسب کمرے مل جاتے ہیں، ان کو ڈھونڈ کر مارک کریں اور ای میل یا ویب سائٹ پر موجود میسجز کی سہولت کے ذریعے، مالک مکان یا پراپرٹی منیجر سے رابطہ کرکے اپنے آنے کی تاریخ کے بارے میں مطلع کردیں۔
عموماً یونیورسٹیاں ‘فریشر ویک’ یا پہلے ہفتے کے دوران بین الاقوامی طالب علموں کو رہائش فراہم کرتی ہیں، تاکہ اس دوران وہ یہاں رہتے ہوئے اپنی رہائش کا انتظام کرلیں۔ اس سلسلے میں فوراً اپنی یونیورسٹی سے رابطہ کرکے مزید تفصیلات حاصل کرلیں تاکہ برطانیہ ‘لینڈ’ کرنے سے قبل ہی رہائش کے بارے میں آپ کو ذہنی اطمینان ہو۔
طبّی سہولیات سے آگاہی حاصل کریں
برطانیہ کا طبّی نظام، پاکستان سے یکسر مختلف اور نئے آنے والوں کے لیے قدرے پیچیدہ بھی ہے۔ یہاں ہر شخص کو مقامی سطح پر موجود کلینک جسے یہاں ‘جنرل پریکٹس’ کہا جاتا ہے سے رجسٹریشن ضروری ہے اور طبعیت کی خرابی پر وہ اسی پریکٹس سے پیشگی اپائنٹمنٹ لے کر یہاں موجود ڈاکٹر یا ‘جنرل پریکٹیشنر’ کو ‘چیک اپ’ کروا سکتا ہے۔ برطانوی شہریوں کے لیے یہ سہولت بالکل مفت ہے جبکہ آپ سے ‘ہیلتھ سرچارج’ کی مد میں رقم آپ کی ویزا ایپلیکشن کے وقت ہی وصول کرلی گئی ہوگی۔
معمول کا نزلہ، کھانسی، زکام یا سر درد وغیرہ میں جی پی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے، اس کے لیے آپ اپنے قریب موجود کسی بھی فارمیسی یا میڈیکل اسٹور کا رخ کریں گے جہاں موجود سرٹیفائیڈ طبّی عملہ، علامات سننے کے بعد آپ کو اس کی دوا فراہم کردے گا۔ اس پورے نظام اور طبّی سہولیات کے استعمال کے حوالے سے آپ کو مزید قیمتی مشورے یونیورسٹی کے ابتدائی دنوں میں بھی دیے جائیں گے، ان کو اپنے پاس ضرور نوٹ کرلیں، خصوصاً یہ کہ آپ کے نزدیک جی پی کہاں واقع ہے، رجسٹر ہونے کے لیے آپ کو کیا دستاویزات چاہیے ہوں گی اور علاج معالجے میں کیا چیز ‘فری’ ہے اور کس کی اضافی قیمت آپ کو ادا کرنا ہوگی۔
بینک اکاؤنٹ کھلوا لیں
چاہے یونیورسٹی فیس کی ادائیگی ہو، روزمرہ کی خریداری یا پھر ٹرانسپورٹ کا استعمال، بینک اکاؤنٹ خصوصاً بینک کارڈ کے بغیر برطانیہ میں اس کا تصور محال ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سرکاری سطح پر بھی نقد رقم کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور بینک کارڈ کے ذریعے ہی لین دین کو فروغ دیا جارہا ہے کیونکہ یہ محفوظ بھی ہے اور آسان بھی۔
اگر آپ کا داخلہ لندن میں موجود کسی یونیورسٹی میں ہوا ہے تو پھر بینک کارڈ آپ کے روزمرہ کے سفر کے لیے بھی ضروری ہے کیونکہ لندن انڈر گراؤنڈ ہو یا لندن کی معروف ریڈ بس، یہاں کیش قبول نہیں کیا جاتا۔ سفر کے لیے یا تو اسٹیشن پر موجود خودکار مشینوں اور ٹریول بوتھ سے ٹریول پاس بنوانا پڑے گا، یا پھر آسان اور معروف طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے ‘کانٹیکٹ لیس’ بینک کارڈ کو ٹرین اسٹیشن یا پھر بس میں موجود، پیمنٹ پینل سے ‘ٹچ’ کردیں، یہ مشین خود ہی مطلوبہ کرایہ کاٹ لے گی۔
برطانیہ میں موجود اکثر بینکوں نے بین الاقوامی طلبہ کی سہولت کے لیے انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ اکاؤنٹ کی سہولت دے رکھی ہے۔ آپ اپنی یونیورسٹی کے اندر یا اس سے قریب موجود بینک کی برانچ میں جاکر یہ سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔ اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے عموماً آپ کا پاسپورٹ، اسٹوڈنٹ کارڈ اور رہائش کا ثبوت طلب کیا جاتا ہے جبکہ اس سلسلے میں بھی مزید تفصیلات یقیناً یونیورسٹی کے ابتدائی دنوں میں مہیا کی جائیں گی، انہیں غور سے سنیں اور لکھ کر رکھ لیں۔
یونیورسٹی کی فراہم کردہ سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں
آپ نے ایک برطانوی یونیورسٹی میں پڑھائی کا فیصلہ یقیناً بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ لہٰذا اس نادر موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں موجود سہولیات کا بھرپور استعمال کریں۔ یونیورسٹی کی تعلیم فقط لگی بندھی پڑھائی، امتحانات اور پھر ڈگری کا حصول نہیں ہے، یہ اس سب سے بہت بڑھ کر ہے۔ شخصیت کی تعمیر، اپنا نقطہ نظر احسن انداز سے بیان کرنا، صحت مند اور متوازن طرزِ زندگی اپنانا اور اس قسم کے بہت سے دیگر اوصاف جو عملی زندگی میں آپ کے کام آئیں، یہ سب یونیورسٹی لائف سکھا سکتی ہے، بشرطیکہ آپ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں۔
یونیورسٹی آمد سے پہلے ہی یونیورسٹی کی ویب سائٹ اور آن لائن موجود مواد کو اچھی طرح کھنگال لیں تاکہ آپ جان سکیں کہ آپ کی یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹ سپورٹ کی کیا سہولیات موجود ہیں اور آپ ان میں سے کن کن سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔ عموماً کیریئر کے بارے میں رہنمائی، پارٹ ٹائم جاب، انگلش لینگویج کورسز، اسٹڈی رومز اور لائبریری ایسی سہولیات ہیں جن کے بارے میں آپ کو معلوم ہونا چاہیے اور یونیورسٹی پہنچنے کے بعد ابتدائی دنوں ہی میں خود کو ان سے رجسٹر بھی کروا لیں۔
خصوصی طور پر لائبریری، کیونکہ شاید یہ وہ جگہ ہو جہاں آپ کو اپنا سب سے زیادہ وقت صرف کرنا پڑے۔ کلاس یا لیکچر تو محض ایک، ڈیڑھ گھنٹہ ہی ہوگا لیکن اس کی تیاری کے لیے آپ کو کئی گھنٹے لائبریری میں رہنا پڑسکتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر کچھ وقت لائبریری میں گزارنے کی عادت ڈالیں اور یہاں موجود مختلف سیکشنز جیسے کمپیوٹر سیکشن، گروپ ڈسکشن رومز وغیرہ سے واقفیت حاصل کرلیں اور یہ بھی معلوم کرلیں کہ آپ ایک وقت میں کتنی کتب ایشو کروا سکتے ہیں اور اس کا طریقہ کار کیا ہے۔
اسٹوڈنٹ سوسائٹیز میں شمولیت اختیار کریں
برطانوی یونیورسٹیوں کی ایک خاص پہچان اس کی ‘سوسائٹیز’ ہیں جو ہر یونیورسٹی میں موجود ‘اسٹوڈنٹ یونین’ چلاتی ہے۔ جس میں آپ کو مذہب اور قومیت سے لے کر، کھیلوں کے کلبز اور ثقافتی سرگرمیوں سے لے کر سیاسی بحث و مباحثہ اور زندگی کی مختلف جہتوں سے متعلق اسٹوڈنٹ سوسائٹیز ملیں گی۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ طالب علم یہ بناتے بھی خود ہیں اور اس کا انتظام بھی خود ہی چلاتے ہیں، جبکہ یونیورسٹی کی جانب سے بعض اوقات ان کی سرگرمیوں کی نوعیت دیکھ کر فنڈز بھی دیے جاتے ہیں۔
یہ سوسائٹیز ہر سال نئے ممبر بناتی ہیں اور اپنی نئی قیادت کا چناؤ بھی کرتی ہیں۔ ان کی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرکے یقیناً آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
اس وقت تقریباً ہر معروف یونیورسٹی میں اسلامک سوسائٹی اور پاکستان سوسائٹی موجود ہیں جو مذہبی اور قومی ایام، شان و شوکت سے مناتی اور گھر سے دُور گھر کی یادیں تازہ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں سوسائٹیاں بالترتیب اسلام اور پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات اور غلط پروپیگنڈا کا توڑ کرنے کے لیے بھی کافی مفید ہیں، ان میں شمولیت اختیار کرکے آپ بھی کچھ مثبت کاموں میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
تعلیمی سال شروع ہونے کے بعد عموماً پہلے ہفتے میں ہی ان سوسائٹیز کی جانب سے ممبرشپ مہم شروع کی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے اسٹالز بھی لگائے جاتے ہیں جہاں سوسائٹی کے نمائندے، تفصیل سے اغراض و مقاصد بتاتے ہیں، آپ بھی اپنی دلچسپی کی سوسائٹی ممبرشپ ضرور حاصل کریں لیکن یاد رہے کہ جن یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تعداد زیادہ ہے وہاں ان سوسائٹیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور ہوسکتا ہے کچھ سوسائٹیز کا نصب العین اور سرگرمیاں آپ کے ذہن میں موجود اخلاقی بنیادوں اور معاشرتی قدروں سے بہت مختلف یا مخالف ہوں۔ اس پر اپنی منفی رائے دینے کی بجائے، آنکھیں بند کرکے آگے نکل جائیں۔
آخر میں ایک دل کی بات
آپ چاہے اوپر بیان کیے کسی بھی نقطے کو سنجیدگی سے مت لیں یا ’لندن پلٹ’ رشتہ داروں اور دوستوں کے مشوروں کو بھی سنی ان سنی کردیں، کوئی بہت خاص نقصان نہیں اٹھائیں گے۔ حالات تھوڑی سی سختی کے ساتھ آپ کو سب سکھا ہی دیں گے، سروائیو کرنا بھی اور ابتدائی دنوں کے دوران کسی بھی صورتحال میں خود کو ایڈجسٹ کرنا بھی۔ لیکن ایک بات جو شاید کوئی نہ بتا پائے وہ یہ کہ ‘ٹیکسٹ میسج، فون کال کے برابر یا اس کا متبادل نہیں’۔
والدین اور گھر والوں کو اپنی خیریت اور روزمرہ کی روٹین سے آگاہ کرنے کے لیے میسجز کے بجائے کال کرنے کی عادت ڈالیں اور بہت سخت مصروفیت میں بھی کوشش کریں کہ یہ عادت نہ چھوٹنے پائے۔
برطانیہ میں آپ کی پڑھائی اور کامیابیوں کے لیے نیک خواہشات!
( بشکریہ ڈان )