نجمہ ثاقب :
دائی نے خدا بخش کے بیٹے کی آ نول کاٹ کے رنگیلے پیڑھے کو آگے سرکایا تو نومولود کی دادی نے بسم اللہ پڑھ کے سفید اور سیاہ ڈبیوں والا ملتانی کھیس اُس کے اوپر ڈال دیا اور دوپٹے کے پلو میں بندھا لال نوٹ بچے کے سر پہ کالی چھتری بنائے بالوں پر وار کے قریب کھڑی للیانی کو تھما یا جس نے دونوں ہاتھوں میں پکڑے پانی سے لبالب بھرے دونے اور تسلے کو وہیں زمین پہ دھرا اور نیم وا دروازے کی اوٹ سے مُنہ نکال کر پکاری:
” مبارک ہو چودھری ! تیری بیٹیوں کی بودی ڈھانپی گئی“
آناً فاناً منظر بدل گیا۔
ونگار صحن کے وسط میں آن کھڑا ہوا اور اِتنے ولولے سے ڈھول پہ تھاپ دی کہ گلیوں، پگڈنڈیوں اور بنوں پہ چلتے قدم بے اختیار ہوکر خدا بخش کے گھر کی جانب کھنچنے لگے۔
’’ دیمو مراثی‘‘ کی بیوی نے بچے کے پنگھوڑے پہ سرخ رنگ کا کپڑا باندھا اور اپنی سریلی آواز میں ’’ سُوہلے ‘‘ گانے لگی۔ صحن کا مرکزی دروازہ دونوں پٹ کھول دیا گیا۔ مبارک کے لیے آتے جاتے لوگوں کے بیچوں بیچ ’’ تاجا نائی ‘‘ کندھے پہ کالا بُھجنگ کڑاہ اور کڑچھا رکھے کِسی نوزائیدہ مملکت کے فاتح کی طرح اندر داخل ہوا۔
اُس نے مغربی دیوار کے پاس خادم موچی کی مدد سے چھوٹا موٹا گڑھا کھودا اور دو موٹی موٹی موسلی کی سی لکڑیاں جھونک کر دھڑا دھڑ’’ بالوشاہی ‘‘ اُتارنے لگا۔ جنھیں تام چینی اور کانسی کی تھالیوں کے بجائے پڑچھتی پر ٹنگی سلور اور سٹیل کی بڑی بڑی پراتوں اور کھلے پیٹوں والے پتیلوں میں ڈال کر لوگوں کے بیچ پھرایا جانے لگا۔
خالص اپنے خاندان کی عورتوں نے چھاجوں میں گندم کے دانوں اور سفید چینی کے بوہلے بنائے اورکچے چاولوں کی پراتوں پہ گلابی سفید اور زرد رنگ کے پتاسوں کے ساتھ پچاس، پچاس اور سو، سو کے نوٹ دھر کے بدھائی لانے لگیں۔
برادری کی عورتیں اور کمی کاریوں کے بچے اس پہ سوا تھے۔ ونگار کے ہاتھوں میں تھکن لرزش کی صورت میں ابھی نہیں اُتری تھی کہ جمعرات کا فقیر باہر کی چوکھٹ پہ آکے کھڑا ہوگیا۔
جونہی اس نے چمٹے پہ جُگنی گانی شروع کی خالی ڈھول آپو آپ چپ ہوگیا۔ چمٹا بجتے بجتے اچانک اس کے بازوئوں میں پہنے کالے کانچ کے کڑوں سے ٹکرایا، تو اس کے آہنگ سے خدا بخش کا دل خوشی سے جھوم اُٹھا۔ اور اُس کے وجود میں ننھی مُنی پھلجھڑیاں سی چھوٹنے لگیں۔ اُسے لگا جیسے وہ اللہ وسائی کو ابھی ابھی بیاہ کر لایا ہے۔
اُس کے دو تولے کے کینٹھے میں چھن چھن کرتے ’’ لاٹو‘‘ پہ عورتیں ہاتھ پھیر پھیر کے اُس کے حقے سچے وجود کو محسوس کررہی ہیں اور’’ لال سالو‘‘ والی ووہٹی کی چوکی کے گرد ننگی ٹانگوں اور ننھے مُنے نکلے پیٹوں والے زرد رو بچوں کے اکٹھ میں اندر باہر جاتے ہوئے اس کی گردن اُٹھ سی گئی ہے۔ اور وہ یاروں کی منڈلی میں جانا جانے لگا ہے۔
پانچویں روز بچے کے بال اُتار ے گئے اور ساتویں دن گھر کا پلا تگڑا بیل کاٹ کر خدا بخش نے تیز سرخ مرچوں کے آلو شوربے والے گوشت کے ساتھ تندوری روٹیاں پکوا کرساری برادری کی تواضع کی۔ ٹسّے ٹسّے زردے کی مہک برآمدوں اور کمروں میں پھیل گئی۔
خدا بخش کی ماں حضرت پیر کی درگاہ کے مجاور سے نیم دودھیا رنگ کی کوڈی دم کروا کے لائی اور اُسے اونی کالے دھاگے میں پرو کر بچے کے بائیں بازو پہ باندھ کے اعلان کیا کہ بچے کا نام آج سے منظور حسین ہے۔
یوں منظور حسین سب گھروالوں کا منظورِ نظر بن کے پلنے لگا۔ دادی کے آنکھ کے تارے کے بارے میں پہلی چہ میگوئی تب ہوئی جب اپنے ہم عمر بچوں کے برعکس وہ اپنا سر اورگردن کندھوں پہ سنبھال نہ سکا۔ اور ہزار دم درود اور علاج معالجے کے باوجود اُس کا سر بے ہنگم انداز میں دائیں بائیں ڈھلکا رہنے لگا۔
کوئی سال ڈیڑھ تک دادی اور باپ اسے اپنی آغوش میں لپٹائے پیروں، فقیروں، ویدوں اور حکیموں کے ٹھکانوں پہ چکر لگاتے رہے۔ جب کسی نے بھی کوئی اُمید نہ دلائی اور خدا بخش مایوس ہونے لگا،تو اس کی ماں پوتے کو اُٹھائے حضرت پیر کی درگاہ پہ لے گئی۔
کالے کپڑوں اور بے ہنگم ڈاڑھی والا مجاور قبر کے تعویذ پہ بیٹھا دھنادھن بھنگ گھوٹ رہا تھا۔ اُس کے سہ رنگے لکڑی کے ہاون دستے کے اوپری سرے پر بندھے گھنگھروچھن چھن بج رہے تھے۔
دادی نے بچہ’’ سچی سرکار‘‘ کے قدموں میں رکھ دیا اور آنکھوں سے ساون کی جھڑی لگائے زار و ُزار رو دی۔
مجاور نے بوٹی کی سی لال لال آنکھیں اُٹھا کر بچے کو دیکھا پھر ہاتھ باندھے کھڑے خدا بخش اور زار زار روتی اُس کی ماں کو دیکھ کے ہاون دستہ کو نڈی کے سِرے پہ ٹکایا اور میل کچیل سے بھرے ناخنوں والا پکے رنگ کا ہاتھ بچے کے سر پر پھرتے ہوئے بولا :
” خدا بخشا! تیرا بیٹا سائیں لوک ہے۔ اس کے ڈھلکے سر اور ٹپکتی رالوں کو دیکھ کے دِل چھوٹا نہ کرو۔ ایسے جی بڑی برکت والے ہوتے ہیں۔ ان کی دعا سونا ہے، تو گالی چاندی سے کم نہیں۔ تم اسے اللہ کا تحفہ سمجھ کے پالو پوسو۔ ذرا بڑا ہوجائے تو یہاں سچی سرکار کے قدموں میں لا رکھو۔ اس کا معصوم وجود یہاں دھمالیں ڈالے گا، تو دیکھنا کیسے نور برکت بن کے اور برکت نور بن کے مزار کے آسے پاسے اترتا ہے۔ “
دادی نے جھٹ پوتے کو چادر میں سمیٹ لیا۔ نذرانے کے روپے قبر کے تعویذ پہ رکھے اور الٹے قدموں چلتے مزار کے صحن کی مٹی چھوڑ دی۔ صرف ایک مرتبہ پیچھے آتے خدا بخش کو مُڑ کے دیکھا اور چادر کے کنارے سے آنکھیں پونچھتی آنسوئوں سے بھیگی آواز میں بولی:
” میرا اِکو اِک پوتا اب پائوں میں گھنگھرو باندھ کے درگاہ پہ ٹھمکے لگائے گا اور عرُس کی روٹیاں سمیٹے گا “
پھر اُس نے ایک ہاتھ سے بچے کو تھاما اور دوسرے سے اپنی ران کو پیٹتے ہوئے شکوہ کرتی آواز میں بولی:
” میں نے اِس دن کے لیے دعائیں مانگی تھیں؟ دس او ربّا اس دِن کے لیے میں نے منتیں مانی تھیں۔“
وہ ہاتھ فضا میں بلند کرتی اور گراتی رہی۔
خدابخش چُپ چاپ اُس کے پیچھے چلتا رہا۔ اُس کے قدم معمولی سے بھاری ہوگئے تھے اور درگاہ سے گھر تک اونچے بنوں کا معمول کا جانا پہچانا راستہ اُس روز اُسے اجنبی اور نیا سا لگ رہا تھا۔
آم کی گھنیری شاخوں پر کوئل کوکنے کے دن تھے۔ کھیتوں میں درانتیاں پڑگئی تھیں۔ جب بیساکھی کا میلہ لگا۔ منظور حسین چار پانچ سال کا گل گھوتھنا سا بھاگا پھرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی حالت قدرے بہتر ہوگئی تھی۔البتہ رالیں بہنے کی رفتار میں کوئی کمی نہ ہوئی تھی۔ اس کی قمیص سینے سے ہمہ وقت گیلی اور سیلی سیلی رہنے کہ وجہ سے اَکڑ کرچمڑا بنی رہتی۔
گھر میں وہ دادی کا سایہ بنا رہتا۔ وہی اُس کے مُنہ میں نوالے بنا بنا کرڈالتی۔ گچل مچل رومال سے اُس کا مُنہ صاف کرتی۔ رالوں سے بھرے چہرے کا طواف کرتی مکھیاں اُڑاتی ۔ پھر وہ بھاگ بھاگ کے گلی میں نکل جاتا اور راہگیروں کے گرد تالیاں بجاتا پھرتا، تودادی اُسے پکڑ پکڑ کر اندر لاتی رہتی۔
مگرمیلے میں جانے کے لیے جب اُس کی ماں سے اُسے نئے کپڑے پہنا کے موچی کا سِلا جوتا پہنایا اور وہ نیا ہونے کی وجہ سے ’’چی چی‘‘ چو نچال دِکھانے لگا تو منظور حسین نے دونوں پائوں باری باری اُٹھا کر چیخ ماری۔ اور خدا بخش کے کڑک تہبند کا پلا چھوڑ کے چھڑپا ماردادی کی گود میں گھس گیا۔ دادی نے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں پوتے کا مُنہ لے کر چوما اور بولی:
” میں بڈھی ٹھوٹھ۔ میرا میلوں ٹھیلوں میں کیا کام، تو نر بچہ ہے۔ ایسی جگہوں پہ تیرا جانا بنتا ہے۔ باپ کا تہبند پکڑے رکھنا کہیں بھیڑ بھاڑ میں اِدھر ُادھر نہ ہوجانا۔“
پھر اپنی دھوتی کی ڈب سے اُس نے ہرے رنگ کے دو نوٹ نکالے اور منظور حسین کی جیب میں ڈال کر بہو کی طرف مُنہ کرکے بولی:
” وسائیے! یاد ہے۔ جب منظور حسین پیدا ہوا تھا، تو اس کی پھوپھی ہرے نوٹوں کا ہار لائی تھی اور ہار کی ہر ہر لڑی میں20،20 نوٹ تھے۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز کپکپا گئی اور کسی جذبے کی شدت سے دو شاخی ہو کر گھٹ سی گئی۔ لبوں ہی لبوں میں کچھ پڑھ کر منظور حسین پہ چھوہ کی۔ اور پرے مُنہ کیے آنسو پونچھنے لگی۔
منظور حسین باپ کے ساتھ میلے میں پہنچا، تو لوگوں کی چہل پہل اور رونق نے اُسے باندھ لیا۔ میلے کا میدان فلمی گیتوں کے شور سے گونج رہا تھا۔
وہ جلیبی اور مٹھائی کی دُکان پر رُکے جہاں باسی مٹھائیوں کی اُمسی اُمسی مہک تیل سے بھرے سموسوں میں رَچ بس گئی تھی۔ آگے خادم موچی ہاون دستے سے چمڑاکوٹ رہا تھا اور اُس کا جواں سال بیٹا دیسی جوتوں پہ طلّہ چڑھاتا جاتا تھا۔ کھلونوں کی دُکان پر بچوں کا جمِ غفیر تھا۔
منظور حسین نے مٹی کے دو گھوڑے اور پلاسٹک کی ایک ریل گاڑی خریدی۔ سرکس پہ موت کے کنوئیں کی موٹر سائیکل سٹارٹ ہونے والی تھی، باپ بیٹا لوگوں کی بھیڑ کے درمیان سے جگہ بناتے اونچی سیڑھیوں پہ چڑھنا چاہتے تھے کہ منظور حسین کا ہاتھ خدا بخش سے چھوٹ گیااور وہ دھڑام سے نیچے جا گِرا۔
نیچے ایک آدمی چھابڑی میں بتاشے سجائے بیٹھا تھا۔ منظور حسین چھابڑی کے اوپرگِرا، تو چھابڑی اُلٹ گئی اور بتاشے ٹوٹ ٹاٹ دور تک جا بکھرے۔ خدا بخش کے ارے ارے کرتے، اور دوڑکر اُس تک پہنچنے سے پہلے اس نے منظور حسین کو قابو کرلیا تھااور دھائیں دھائیں اس کی کمر پہ دو ہتڑ بھی جما دیے تھے۔
منظور حسین نے غوں، غوں، غاں، غاں کرکے احتجاج کرنے کی کوشش کی۔ شور سُن کر دو چار تماش بین بھی اکٹھے ہوگئے۔ دیمو مراثی نے منظور حسین کو پہچان لیا تھا، وہ چھابڑی والے کا ہاتھ روک کر بولا :
” سائیں لوک ہے خلیفہ جی ! بد دعا دے دے گا تو لگ جائے گی۔ “
” مجھے تو خود یہ کسی کی بد دعا لگتا ہے “ خلیفہ جی کی بانچھوں سے کف اُڑا جاتا تھا اور کیچڑ زدہ آنکھوں میں لال لال ڈورے آوارہ ہوئے جاتے تھے۔
اُس کا بس نہ چلتا تھا کہ اپنا نقصان پورا کرنے میں منظور حسین کو مروڑ کے رکھ دے۔
” غوں۔ غوں۔ غوں “ باپ کو دیکھ کے منظور حسین نے لپکا لیا۔
خدا بخش نے غصیلی نظروں سے چھابڑی والے کو تَکا اور سسکیاں لیتے بیٹے کو ساتھ لگا کے بولا :
” تیرا نقصان تو میں پورا کردیتا۔ اگر تو بچے کو اس بری طرح نہ پیٹتا۔“
” توبہ ، توبہ “ دوچار بوڑھوں نے اپنے پوپلے مُنہ پیٹ ڈالے۔ ” قربِ قیامت ہے، لوگوں پہ دن دھاڑے رات سوتے ایسے ہی تو عذاب نہیں آن پڑتے۔ پاگلو! یہ تو اللہ کی نشانیاں ہیں۔ یہ سائیں لوک بڑی پہنچی ہوئی ہستیاں ہیں۔ ان کی آواز عرش ہلا دیتی ہے۔
کیسا جرم کما لیا خلیفہ جی! “
خلیفہ نے چھابڑی سمیٹی اور کھسک لیا۔
منظور حسین گال پہ ہتھیلی دھرے ابھی تک روں روں کررہا تھا۔ اس کے تیل چُپڑیے بالوں کی سیدھی سطیر مانگ تھوڑی بے ترتیب ہوگئی تھی۔
لوگوں کے لیے دلچسپی ختم ہوگئی، تو وہ آگے پیچھے ہوتے کھسک لیے۔ خدا بخش نے اُسے اُٹھالیا اور ہلکے قدموں سے چلتا باہر کے راستے کی جانب بڑھنے لگا۔
دوپہر ڈھلنے لگی تھی۔ دھوپ میں معمول کی تمازت ابھی موجود تھی۔ مگر مرد وزن کی اکثریت اس سے بے نیاز بھرے پرے میدان میں گھوم رہی تھی۔ جب وہ ہر پھر کے مٹھائی کی دکان کے سامنے پہنچے، تو منظور حسین کی نظر رنگ برنگی مٹھائیوں پہ ٹہل کرتی پہلو میں کھڑی کھلونوں والی ریڑھی پہ پڑی۔ اس نے بے اختیار ہو کر اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا اورٹانگیں مار مار کے باپ کے وجود سے علیحدہ ہونے لگا۔
” خدا بخش اوئے کیا ہوا؟ اوئے کیا ہوا کہتا رہ گیا اور منظور حسین سواری سے اُتر، لپک کے ریڑھی کے پاس جاکے کھڑا ہوگیا۔
ریڑھی اوپر سے نیچے تک چھوٹے بڑے سادہ رنگین ہر قسم کے کھلونوں سے بھری ہوئی تھی۔ مگر ان میں سے ایک بھی گھگو گھوڑا نہیں تھا۔
خدا بخش نے اُسے گہرے آبی دستے والی ننھی مُنی کلہاڑی، چابی سے ٹخ ٹخ چلتے گھوڑے، پکی مٹی سے بنے بیلوں کی جوڑی کے پیچھے لگے گُڈے پہ للچایا لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی منظور حسین کی آنکھوں سے کھوئے گئے کھلونوں کا عکس نہ مٹا سکی۔
” اچھا ! چل اِدھر بیٹھ ۔“ خدا بخش نے اسے بازو سے پکڑ کرمَندو حلوائی کی دُکان کے تھڑے پہ بٹھایا اور پہلوان جی کی طرف مُنہ کرکے لجاجت سے بولا:
” بچہ ادھر بیٹھا ہے پہلوان جی۔ اپنے کھلونے سرکس والے ’’ٹوٹے‘‘ میں گِرا آیا ہے۔ میں ذرا دیکھ لائوں ۔ بس یوں گیا اور ہوا کی طرح آیا۔ مندو نے اپنے موٹے پیٹ کو کھجاتے ہوئے کدّو سا سر ہلا دیااور چھوٹے کو آواز دے کر بولا:
” جا بھاگ کے جلیبی کا دونا لا ، شاہ جی کی خاطر کریں “ منظور حسین نے گرم رسیلی جلیبی کو رغبت سے منہ میں رکھا۔ اُسے اُس کا ذائقہ مزیدار معلوم ہوا اور ایک کے بعد دوسری کھاتا چلا گیا۔
مندو کی دکان کے داہنی جانب موسمی پھلوں والے کا ٹھیلا تھا۔اس نے کھڑے کھڑے دو امرود منظور حسین کی طرف لڑھکائے اور اشارے سے بولا :
” کھائو۔ کھائو سرکار موج کرو“
اس وقت ٹھیلے پہ دو دیہاتی کھڑے پھل خرید رہے تھے، انھوں نے پھل کی قیمت ادا کرکے ٹھیلے والے سے واپس پیسے وصول کیے۔ اِک نے دوجے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ دوسرے نے جواباً اثبات میں سر ہلایا۔ پہلے نے آگے بڑھ کے بقایا ملنے والی رقم منظور حسین کے قدموں میں رکھی اور عقیدت بھری دلچسپی سے اُسے تکتے ہوئے اپنی راہ لگ گئے۔
یہ منظر وہاں سے گزرتی کالے کرتے اور آسمانی دھوتی والی مائی رنگی نے دور سے دیکھا ۔ قریب آن کے وہ رُکی، ٹھٹکی۔ زیر لب کچھ بدبداتے ہوئے اُس نے پہلو میں سِلی جیب سے کچھ نکالا اور منظور حسین کے سامنے ڈھیر کردیا۔
تھوڑی دیر بعد خدا بخش ناکام و نامراد ہاتھ لٹکائے واپس آیا، تو گز بھر کے فاصلے پہ اُس کے پائوں جکڑے گئے۔
منظورحسین کچر کچر امرود کھائے جاتا تھا۔ سامنے پڑے دونے پہ مکھیاں بھنک رہی تھیں اور آسے پاسے، پانچ، دس سو، پچاس کے نوٹوں اور سِکوں کی ڈھیری لگی ہوئی تھی۔