نزہت نورین :
فریحہ اور ماریہ دو بہنیں تھیں ، دونوں میں بے انتہا محبت تھی۔ اکٹھے سونا، اسکول جانا کھیلنا اور کپڑے ایک جیسے پہننا ان کے لیے لازم وملزوم تھا۔ وقت گزرا کالج میں آگئیں لیکن اب ان کی پسند میں فرق آنے لگا۔ ماریہ ہر قسم کے فیشن کی دلدادہ تھی لیکن فریحہ سادہ رہنا پسند کرتی تھی۔
فریحہ نے جوانی ہی میں قدم رکھتے ہی دوپٹہ سر پر اوڑھنا شروع کر دیا تھا ۔ اب بھی باقاعدہ حجاب کے ساتھ کالج جاتی تھی۔ جب دونوں یونیورسٹی میں آئیں تو ماریہ کے نت نۓ ہئیرسٹائل حتیٰ کہ جینز فریحہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ فریحہ حجاب میں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی اور استقامت کے ساتھ اپنی پڑھائی کرتی رہی۔
مسز واجد یونیورسٹی کی واحد ٹیچر تھیں جو پردہ کرتی تھیں اور دینی تعلیم سے آراستہ تھیں۔ انھیں فریحہ کا حجاب اوڑھنا اچھا لگتا تھا۔ وہ فریحہ کو اپنے پاس بٹھاتیں اور اسے دینی تعلیم بھی دینے لگیں۔ یوں فریحہ نے باقاعدہ پردہ شروع کر دیا۔
ان کےوالدین کی برادری سے ایک خاتون اپنے بیٹے کے رشتے کے لیے ان کے گھر آئیں ۔ ان کا بیٹا انجینئر تھا۔ اس خاتون نے ماریہ کو پسند کر لیا ۔ اگلی بار جب ان کا بیٹا خرم اپنی والدہ کے ساتھ ان کے گھر آیا تو اسے پتہ چلا کہ ان کی دو بیٹیاں ہیں لہذا اس نے فریحہ سے ملنے کی بھی خواہش ظاہر کی۔ فریحہ نے سلام کیا اور سائیڈ پر بیٹھ گئی۔ حجاب نے اس کے چہرے کی معصومیت اور حیاء نے چہرے کی شگفتگی کو اور بڑھا دیا تھا۔
خرم کے دل سے آواز آئی
”سیپ میں موتی“ اور اس نے فریحہ کو منتخب کر لیا۔
بے شک سیپ میں موتی اور حجاب میں عورت دونوں ہی قیمتی ہوتے ہیں کیونکہ قیمتی چیزیں پیکنگ میں ہی ہوتی ہیں۔