سید امجد حسین بخاری :
کشمیری خواتین وادی کے کلچر کا حسن ہیں ، وادی کی ثقافت میں خوبصورتی ، رعنائی اور چاشنی انہی کے دم سے ہے ، کشمیر میں مردوں کا زیادہ رجحان ملازمتوں اور کاروبار کی جانب ہوتا ہے ، اس وجہ سے اس کلچر میں مردوں سے زیادہ خواتین کا اثر غالب ہے۔
گھروں کی صفائی انہی خواتین کے سگھڑ پن کی علامت ہے ، کچن گارڈننگ کاسہرا بھی خواتین کے سر ہے ، باغوں میں بہار ، کھیتوں میں فصلوں کی رونقیں ، کچن میں پکوانوں کی لذت سبھی کشمیری خواتین کی مرہون منت ہے ،
جیسا کہ میں نے تذکرہ کیا کہ گھروں کی خوبصورتی کی وجہ کشمیری خواتین ہیں۔ آپ کو اگر کشمیر میں جانے کا موقع ملا ہوتو گھروں کے اطراف میں خوبصورت پھول آپ کو لازمی نظر آئیں گے ، یہ پھول کشمیری خواتین کی قدرت سے محبت کا نمونہ ہیں، کشمیری گھروں میں گلاب، موتیا، رات کی رانی ، گل داودی سمیت مختلف اقسام کے پھول کاشت کئے جاتے ہیں۔
اکثر گھروں کے اندر بیل بوٹوں کے نقش و نگار بھی انہی خواتین کی وجہ سے ہے ۔ گھروں کے اطرا ف میں پھول جہاں گھر کے اندر مہک پیدا کرتے ہیں ، وہیں ارد گرد کے ماحول میں بھی خوشبوؤں کا بسیرا ہوتا ہے۔کشمیر ی خواتین کی پھولوں سے محبت سے ملک کے دیگر حصوں کی خواتین بھی سبق حاصل کرسکتی ہیں۔
کشمیر اور محرم
کشمیر برصغیر کا واحد خطہ ہے جہاں فرقہ واریت نہیں ہے، جہاں مسلکی اختلافات میں شدت نہیں ہے، جہاں مذہبی رواداری ہے، محرم میں ہر گھر افسردہ اور ربیع الاول میں ہر محلے میں چراغاں کیا جاتا ہے، بیساکھی اور نوروز کی تقریبات بھرپور انداز سے منائی جاتی ہیں ، یکم محرم سے دس محرم الحرام تک ہر گھر میں مظلومین کربلا کا غم منایا جاتا ہے،
صبح کے وقت میں بیشتر گھروں میں دودھ اور چاول کی کھیر بنا کر فاتحہ کی جاتی ہے جو کہ ننھے علی اکبر کی یاد تازہ کرتی ہے ، عصر کی چائے کی بجائے شربت تیار کرکے فاتحہ خوانی ہوتی ہے جو کربلا کی پیاس کی یاد دلاتی ہے ، عورتیں حضرت فاطمہ اور بی بی زینب کے قصے بیان کرتی ہیں ، ان کی سیرت پر سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے ، خود احتسابی کی جاتی ہے ،
دیکھا جاتا ہے کہ کیا وہ بنت رسول صل اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی پیروی کر رہی ہیں ، وہ کہاں پر خطا کی مرتکب ہوئی ہیں ، ان خطاؤں پر اللہ سے معافی مانگی جاتی ہے ، محرم کے پورے ماہ کسی گھر میں موسیقی بجتی ہے اور نہ ہی کوئی فیملی فنکشن ہوتا ہے ، دس محرم کو شربت اور دودھ کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں، جموں ، جنوبی کشمیر ، باغ اور حویلی میں محرم کے جلوس برآمد ہوتے ہیں۔ اس موقع پر شیعہ ،سنی ، دیوبندی ، اہل حدیث سبھی ایک خاندان کی مانند ہوتے ہیں
کشمیر اور گھاس کٹائی کا سیزن
کشمیر میں موسم سرما کی مدت چار سے چھے ماہ تک ہوتی ہے ، اس دوران مال مویشی کے کھانے کیلئے سبزہ دستیاب نہیں ہوتا ، کیونکہ زیادہ تر چراگاہیں برف سے ڈھکی رہتی ہیں ، اس لئے کشمیر میں جانوروں کے چارے کیلئے گھاس کو کاٹ کر خشک کیا جاتا ہے ،
پہاڑوں پر موجود گھاس کی لمبائی ایک سے تین فٹ تک ہوتی ہے ، جسے درانتی کی مدد سے کاٹا جاتا ہے ، اس دوران ایک مخصوص انداز میں تنکوں کو اکٹھا کرکے پہاڑی کے اوپر ہی چھوڑ دیا جاتا ہے ، دو سے تین دنوں میں گھاس خشک ہوجاتی ہے ، جسے باندھ لیا جاتا ہے ، بعدازاں گھاس کے گٹھے درخت کے ساتھ لٹکائے جاتے ہیں ،
گھاس کٹائی کا سیزن یکم بھادوں سے شروع ہوتا ہے جو کہ نصف کاتک تک جاری رہتا ہے، اس دوران کھیتوں میں اگائی گئی مکئی بھی کاٹ کر خشک کی جاتی ہے ، اس سے دانے الگ کئے جاتے ہیں ، جنہیں بعدازاں دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے ، خیر اس موضع پر بعد میں آتے ہیں ، پہلے گھاس کٹائی کی بات کرلیتے ہیں ،
کشمیر میں گھاس کاٹنے کیلئے دس سے پچیس تک افراد جمع ہوتے ہیں ، روزانہ ایک گھر کی گھاس کاٹی جاتی ہے ، یعنی روزانہ ایک گھر میں لیتری ہوتی ہے ، پہاڑوں پر مرد گھاس کاٹتے ہیں جبکہ گھروں میں خواتین لیتری کیلئے کھانا تیار کرتی ہیں اور یہ کام بھی تین چار گھروں کی خواتین مل کر کرتی ہیں۔
کشمیر میں گھاس اور مکئی کٹائی کا سیزن انتہائی یادگار ہوتا ہے ، اس سیزن کے اختتام تک کشمیر میں جاڑا شروع ہوجاتا ہے ، کاٹی کی مکئی اور گندم کو تہہ در تہہ جمع کر لیا جاتا ہے ، جو جاڑے کے دنوں میں جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔( جاری ہے )