رضوان رانا، اردوکالم نگار

نقشوں کا کھیل اور جنت نظیر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رضوان رانا :

کہنے والے کیا خوب کہتے ہیں کہ تقدیر بدلے نہ بدلے، ہاتھ کی لکیر، سرحد کی لکیر اور دریا کا راستہ ہمیشہ تبدیل ہوتا رہتا ہے اور کوئی بھی ان تینوں تبدیلیوں کو نہیں روک سکتا.

ایک وقت تھا جب برطانیہ کے نقشے میں آدھی دنیا شامل تھی اور آج برطانیہ یورپ کے نقشے سے باہر کودنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے. دوسری طرف الجیریا، فرانس کے نقشے میں اور مشرقی تیمور، انڈونیشیا کے نقشے میں ہوتا تھا اور برما، بنگلہ دیش اور پاکستان تینوں ہندوستان کے نقشے میں تھے مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ ایک ایک کرکے سب نے اپنے نقشے جاری کر دئیے.

پچھلے سال انڈیا نے کشمیر کا نیا نقشہ جاری کیا تھا جس میں پاکستان کے زیرانتظام علاقے گلگت اور بلتستان کو لداخ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد اور میرپور کو نئی متنازع یونین یا وفاقی علاقے جموں و کشمیر کے ایک حصے کے طور پر دکھایا گیا تھا.

اسی طرح انڈیا کے پرانے نقشے میں بھی گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کو ہندوستان کا حصہ دکھایا گیا ہے اور اس پر متنازع علاقہ بھی نہیں لکھا گیا.

جبکہ بین الاقوامی سطح پر شائع ہونے والے نقشوں میں جموں و کشمیر کا جو حصہ جس ملک کے کنٹرول میں ہے اسے اسی طرح دکھایا گیا ہے. سوائے چین کے جو لداخ کے کچھ حصے پر اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے.

اب حکومت پاکستان نے پاکستانی اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ایک نیا نقشہ جاری کیا ہے جس میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر، آزاد کشمیر، گلگت و بلتستان، سرکریک، جونا گڑھ اور مناودار کو سرکاری طور پر پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے، لیکن پاکستان سے مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ ظاہر کرنے کے ساتھ اس بات کی توضیح بھی کردی ہے کہ اس متنازع علاقے کے بارے میں آخری فیصلہ کشمیری عوام ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کریں گے. اس نئے نقشے کی کابینہ نے بھی منظوری دی اور یہی نقشہ اب پاکستان کے تمام اداروں اور کالجوں، سکولوں میں بھی استعمال ہوگا.

جب گزشتہ سال بھارتی بی جے پی کی انتہا پسند اور مسلم کُش حکومت نے جس طرح خود اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اور 35A کو تبدیل کیا اور پھر بعد ازاں بھارت کا نیا نقشہ جاری کیا، جس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ردی کی حیثیت دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر، گلگت اور بلتستان کو بغیر کسی قانونی جواز کے بھارت کا حصہ ظاہر کرنے کی کوشش کی لیکن مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارت کی اس چال کو مکمل طور پر مسترد کردیا تھا. جس کے جواب میں بھارت نے وادی کا مکمل لاک ڈاؤن کر دیا اور کرفیو لگا دیا.

اب اس جبری لاک ڈاؤن کا پورا ایک سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ وہاں بھارت کی دس لاکھ فوج ہر قسم کے مظالم ڈھا رہی ہے، ہزاروں افراد کو صرف اپنا حق آزادی طلب کرنے کے جرم میں شہید کیا جاچکا ہے، کرفیو میں توسیع کے لئے اب کورونا وائرس کو جواز بنایا جا رہا ہے مگر اب پاکستان نے پوری دنیا کے سامنے بھارت کے نقشے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اپنے اس دعوے کو دوبارہ پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق ایک اکثریتی مسلم ریاست ہونے کے باعث کشمیر واضح طور پر پاکستان کا حصہ ہے، جس کے تمام قدرتی راستے اور دریا پاکستان آتے ہیں.

یہ ایک تاریخی حقیقت بھی ہے کہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے بھی مہاراجہ کشمیر کی طرف سے الحاق کی درخواست صرف اسی شکل میں منظور کی تھی کہ حالات معمول پر آتے ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کریں گے لیکن بھارت نے اپنی شکست کو یقینی سمجھتے ہوئے ہمیشہ رائے شماری کی مخالفت کی اور اب 370 اور 35A کو ختم کرکے وہ کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کررہا ہے تاکہ کشمیریوں کو بھی فلسطینیوں کی طرح وطن بدر کردیا جائے.

بھارت نے کشمیریوں پر ستر سال سے زیادہ کے عرصے تک ہر قسم کے مظالم کرکے دیکھ لیا ہے لیکن اس کے ہر ظلم پر تحریک آزادی کم ہونے کے بجائے تیزی اختیار کرتی گئی اور نوے کی دہائ میں اور اسکے بعد تو اس نے نہتے کشمیری عوام پر تاریخ کے بدترین مظالم ڈھائے ہیں.

ابھی چار سال پہلے 2016 میں برہان الدین وانی کی شہادت سے جو نئی تحریک شروع ہوئی ہے اس نے بھارت کے اوسان خطا کردیئے ہیں اور اسے یہ تحریک ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی. پانچ اگست 2019 کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کو روکنے کے لئے ہزاروں افراد کو شہید کیا جاچکا ہے، ایسے تمام سیاسی رہنمائوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے جو ماضی میں بھارتی حکومت کے ساتھی تھے اور ان میں تین سابق وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں اور وہ بھارتی حکومت کا ساتھ دینے کی غلطی پر پچھتا رہے ہیں.

یورپی یونین، امریکا اور دیگر اقوام بھی اب بھارت میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں پر تنقید کررہے ہیں، اب اگر بھارت علاقے میں امن کا خواہشمند ہے اور یہ امن خود اس کے اپنے مفاد میں زیادہ ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر فوری عمل کرتے ہوئے وہاں رائے شماری کرائے.

پاکستان میں عمران خان کی حکومت نے ہر سیاسی اور سفارتی محاذ پر کشمیریوں کے حق خود ارادی کا ساتھ دینے کا تہیہ کیا ہوا ہے. عمران خان اپنے آپ کو کشمیر کا سفارتکار اور ترجمان کہتے ہیں اور اسی سلسلے میں یہ ان کا بہترین سٹروک قرار دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کا نیا نقشہ جاری کرنے سے کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر اجاگر ہوگا اور ان کی آواز تمام دنیا کے دارالحکومتوں تک پہنچے گی، بلا شبہ سفارتی طور پریہ ایک اچھا اور کامیاب قدم لگ رہا ہے.

دنیا میں ہونے والے عارضی لاک ڈاؤن نے ہمیں اور پوری دنیا کو صحیح طرح سے سمجھا دیا ہے کہ لاک ڈاؤن ہوتا کیا ہے اور کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے.

میری انڈیا اور اقوام متحدہ کے ذمہ داران سے ہاتھ جوڑتے ہوئے گزارش ہے کہ
جنت نظیر کشمیر کے عوام پر ترس کھائیں. وہ بھی انسان ہیں اور ان کا بھی پورا حق ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنی زندگی گزار سکیں. زمین اور خطے پر تسلط اور قبضے کی ہوس میں یہ مت بھولیں کہ جب تم پیدا نہیں ہوئے تھے، تب بھی یہ زمین ہی تھی اور جب تم اور ہم نہیں رہیں گے تو بھی یہ زمین باقی رہے گی اور کوئی دوسرا اس پر آباد ہو جاۓ گا. نہ یہ زمین کوئی سکندر اعظم اپنے ساتھ لے جا سکا اور نہ دنیا کا بڑے سے بڑا فرعون اس کا کچھ بگاڑ سکا.

خدارا ! لوگوں اور انسانوں پر ظلم کرنا چھوڑ دو. اور ڈرو اس خدائے واحد سے ….
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں …!!!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں