باحجاب مسلمان خاتون

حیا وحجاب ، تحفظ و رحمت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نزہت بھٹی :

عورت کے حقوق میں اس کا بنیادی حق اس کے ستر و حجاب کی حفاظت ہے۔ اس حق کی حفاظت کے باعث اس کا گھر اور خاندانی نظام محفوظ ہے لیکن پچھلے چند سالوں سے عورتوں کے حقوق کے نام پر عورت کو بے حیائی و بے حجابی کی ترغیب دی جارہی ہے۔

عورتوں کے حقوق کا دن منانے کی روایت بھی خوب ہے۔ یہ اہل مغرب کی شاطرانہ پالیسی ہے کہ بے بس اور کمزور اور پسماندہ طبقوں کے دن منائو، ان کے حقوق کا ورد و وظیفہ کرو، پھر ہمدردی کے دو بول سنا دو اور سارا سال وہ مجبور لوگ اپنی جملہ مجبوری و بے بسی کے ساتھ پڑے سسکتے رہیں۔

خواتین کے حقوق کا مطالبہ کس سے کیا جاتا ہے اور کس کے لیے کیا جاتا ہے؟ کیا ان لوگوں سے جنہیں عورت کے مسائل سے کبھی واسطہ نہیں پڑا. خود اپنے گھر میں کام کرنے والی ملازم خواتین سے بھی ان کا رویہ انتہائی مغرور اور جبر پر مبنی ہوتا ہے. کشمیر و فلسطین کی بیوہ یتیم تڑپتی بلکتی عورتیں ان کو کبھی نظر نہیں آتیں، افغانی و عراقی عورت پر جو کچھ بیت گیا وہ ان کا کبھی موضوع نہیں بن پایا،

ہندوستان کے مسلم کش فسادات میں عورتوں اور بچوں کی مظلومیت پر وہ گرفت نہیں کرتیں، غزہ پر ہونے والی دہشت گردی ان کو نظر نہیں آتی، وہاں تڑپنے سسکنے والی چار سو خواتین اور 200بچے حقوق نسواں منانے والی خواتین کے دلوں کو نہیں جھنجوڑ سکے۔

یہ خواتین فاٹا اورسوات کی مظلوم اور اپنے وطن میں مہاجر ہونے والی عورت پر مہر بلب خاموشی کیوں نظر آتی ہے؟

1300 فلسطینیوں کو ہلاک اور سات ہزار سے زائد فلسطینیوں کو زخمی کرنے والے اسرائیلی درندے کی خون آشامی پر کس این جی اوز نے احتجاج کیا؟ مظلوم بے بس پاکستانی عصمت ماب بیٹی عافیہ صدیقی پر کی جانے والی بربریت اور سفاکیت پر کس این جی اوز نے آواز اٹھائی؟

مغربی مساوات مرد و زن کا نعرہ دراصل بربادی نسواں کی مہم ہے۔ یہ عورت بگاڑ تحریک ہے۔ اب عورت اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے کرتے اس حد تک آگے بڑھ گئی ہے کہ مرد اور عورت میں کشمکش شدید ہو چکی ہے۔ کیا یہ کشمکش تمدن کی تباہی کی نقیب نہیں بن رہی؟

خود پاکستان کا معاملہ بہت زیادہ دگرگوں ہو چکا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے خواتین کے پاس اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں نہیں تھیں مگر ان کے پاس اعلیٰ اخلاقی اقدار، شرم و حیا، بچوں سے محبت شفقت موجود تھی۔ ان کی تربیت نےوہ بچےجنم دیے جنہوں نے قیام پاکستان جیسے ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا مگر عالمی یوم خواتین منانے کے بعد مائیں اپنے کردار کو کیوں فراموش کر بیٹھیں؟

اب اگلی نسل جاہ و مال کی محبت سے باہر ہی نہیں نکل رہی۔ دوسری طرف شرم و حیا کا جنازہ نکل چکا ہے۔ بے حیائی اورعریانی خود رو پودوں کی طرح بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔

عورت کو گھر کا مرکز و محور بننا چاہیے اور مرد کو باہر کے سارے کام کرنی چاہئیں، عورت گھر میں رہے گی تو بچوں کی صحیح تربیت اور تعلیم میسر ہو گی ، ان کو اچھے اور دیا جاسکے گا ، حلال و حرام کے ضابطے ان کو بتائے جا سکیں گے۔ ان کو صحیح مسلمان اور ذمہ دار شہری بنایا جا سکے گا۔

ان کے بجائے اگر عورت پل بنائے ، سڑکیں تعمیر کرے ، کسی فیکٹری میں جوتے بنانے کے لیے نکل جائے تو یہ معصوم بچے گھر میں ماں کی دیکھ بھال سے محروم رہیں گے۔ آیا کی نگرانی میں میں پھیلنے والے بچوں میں راہ و رسم شہبازی کیسے پیدا ہوگی وہ مسلمان شاہین کیسے بنیں گے۔

گھروں میں مردوں کو سکون نہیں ملے گا تو وہ اپنے کسب معاش کے فرائض صحیح طرح انجام نہیں دے سکیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ معاشرے میں بگاڑ کرپشن جرائم کا دور دورہ ہوگا ، معاشرہ ابتری اور انارکی کا شکار ہو گا، کسی کی جان و مال عزت و آبرو محفوظ نہیں رہے گی تو انجام کار عورت کو ہر جگہ 50 فیصد یا 33 فیصد نمائندگی دینے سے معاشرہ تنزلی کا شکار ہوگا۔

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا رفیق قرار دیا ہے ۔
ترجمہ :عورت مرد سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ھے۔(التوبہ 61)

اور ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ دنیا ایک متاع ہے اور اس میں سب سے بہترین متاع نیک عورت ہے۔(الحدیث).


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں