باحجاب مسلمان خاتون1

حیا اور اس کے تقاضے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قانتہ رابعہ :

اللہ خالق کائنات نے انسان کی تخلیق سے پہلے بے شمار مخلوقات پیدا کی تھیں لیکن حضرت انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اشرف المخلوقات کا تاج اس کے سر پر رکھنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ یہ تاج اس کے علم اور عقل کے علاوہ اطاعت کی وجہ سے اسے نصیب ہوا۔ انسان کو جسم اور روح کا مرکب بنایا گیا۔ جسم کی بہتری کے لیے بھی ہدایات تعلیمات سے مالا مال کیا گیا۔

کائنات کی ساری مشینری ہی اس کی روزی روٹی کے لیے چالو کردی گئی، زمین آسمان درخت پہاڑسمندر، بیابان سب اس کے جسمانی سکھ اور آرام کے لئے مصروف عمل کردیے گیے تو روحانی پہلو کو اس سے بھی بڑھ کر فضیلت دی گئی ۔

الہامی کتب،اور پیغمبروں کی آمد کا پہلے انسان کے ساتھ ہی سلسلہ شروع ہوگیا۔
انسان کے خلق ( زبر کے ساتھ) اس کے خلق( پیش کے ساتھ) کی درستگی کا تا قیامت بندوبست کردیا گیا۔
خلق ( زبر کے ساتھ) سے مراد انسان کی ظاہری شکل و صورت اور خلق( پیش کے ساتھ) سے مراد اس کی باطنی خوبصورتی یا عادات ہیں ۔

اللّٰہ نے انسان میں اپنی کچھ صفات کی جھلک ڈالی ہے۔ صبر،شکر،ایثار،سچائی،ایمان داری کے ساتھ بے شمار اوصاف ہیں جن میں سے نمایاں شرم و حیا ہے۔ شرم و حیا انسان کے اندر پیدائش کے ساتھ ہی نمو پاتی ہے، اس لیے جب بچہ پیدا ہوتا ہے خواہ وہ کسی بھی قوم یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو جب اس کی نیپی بدلی جاتی ہے تو بچہ بے ساختہ اپنی ٹانگیں اکٹھی کرتا ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ ننگا نہیں ہونا چاہتا۔

احادیث مبارکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ۔ بخاری
سیدہ عائشہ صدیقہ نے فرمایا:
وہ مکارم اخلاق دس ہیں ، ورآسھن الحیآء۔۔۔( مشکوۃ المصابیح)
اور ان دس مکارم اخلاق کا سر حیاء ہے۔

ایک اور جگہ پر ابو سعید خدری فرماتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو ناپسند فرماتے تو زبان سے نہ کہتے بلکہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی کیفیت سے پہچان لیتے کہ یہ چیز آپ کو نا پسند ہے۔ بخاری

یہ حیا کیا ہے ؟؟
یہ ہر انسان کے اندر ایک فطری جذبہ ہے جس کے بہت سارے مفہوم ہیں۔ کسی بھی کام کو لوگوں کے سامنے کرتے ہوئے جو جھجھک دل میں پیدا ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، اس جھجھک کو حیا کہتے ہیں۔

حیا کی صفت تمام انبیاء میں موجود تھی۔ پچھلی کتب میں بھی حیا کی واضح تعلیمات موجود تھیں یہاں تک کہ صحیح بخاری کی حدیث 348 میں موجود ہے ۔

جب تو بے حیا بن جائے تو جو جی چاہے کر۔
( اب ہمارا تمام سوشل میڈیا ایک ہی نقطہ کے گرد گھوم رہا ہے ، جیسے چاہو جیو)

جب تک کسی بندے کے اندر حیا والی صفت موجود ہے، وہ عیب دار کام نہیں کر سکتا لیکن جب وہ بے حیائی کی طرف لپکتا ہے تو اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔
( آج یہی آلمیہ درپیش ہے کیا بچے، کیا نوجوان کوئی بھی غلط کام سے روک ٹوک کو پسند نہیں کرتا )

حیا کی اقسام
حیائے فطری

حیائے کسبی

حیائے فطری جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہر انسان میں ہوتی ہے ، وہ پیدائشی جھوٹا،خائن یا بے شرم نہیں ہوتا۔ بس ! ایک مرتبہ کسی بھی غلط کام کے بعد احساس ندامت نہ ہونا اس کو بے حیاء اور بے شرمی کے زینے پر چڑھا دیتا ہے۔

یہ فطری حیاء کا جذبہ۔ محبت کے اظہار کی طرح کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتا ہے ۔

حیائے کسبی سے مراد یہ ہے کہ کوشش کر کر کے اپنے آپ کو زبان، ناک، پیٹ، شرمگاہ وغیرہ کی حفاظت کے لیے آمادہ کرنا۔

قرآن مجید میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
واللہ لا یستحیی من الحق( اور اللہ حق بات کہنے میں حیا نہیں کرتا )

اور ہم ناحق باتیں بے سوچے سمجھے کرتے ہیں، حق بات کہنے میں سو حجت نکال لاتے ہیں ۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں جن دو لڑکیوں کا تذکرہ کیا ہے وہ قیامت تک کے لیے باعث سعادت ہے اور ہمارے ذہنوں میں حیا کا جو محدود اور جزوی مفہوم ہے اس کی تصحیح ہے۔ ہم حیا سے مراد عام طور پر شرما کے چلنا یا نظر جھکانا کو لیتے ہیں۔ قران اور احادیث دونوں میں اس کی نفی ہے ۔ ” وہ حیا سے چلتی ہوئی آئی “سے مراد دوپٹہ کا پلو مروڑتی یا شرماتی ہوئی آئی نہیں بلکہ پورے وقار اور اپنی حفاظت کے ساتھ چلتی ہوئی آئی مراد ہے۔

اگر انسان میں یہی وقار اور نیکی کی حفاظت کا جذبہ ختم ہو جائے تو وہ جانور بن جاتا ہے ۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
”جس کے اندر حیا کم ہو اس کے اندر تقوی بھی کم ہوتا ہے“
( تقوی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے گناہ سے باز رہنے کو کہتے ہیں )

حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا: ” جو شخص بندوں سے حیا نہیں کرتا ،وہ اللہ تعالیٰ سے بھی حیا نہیں کرتا ۔
( بندوں سے حیا ان کو ایذا رسانی، ان پر الزام تہمت یا ان کو مشکلات سے بچانا ہے۔ ان کے حقوق کی درست ادائیگی بھی اسی میں شامل ہے)

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کرتے
” یا معشر المسلمین استحیو من اللہ “
یعنی ” اے مسلمانو کی جماعت ! اللہ تعالیٰ سے حیا کیا کرو“

اللہ سے حیاء کیسے پیدا کی جائے؟
بتانے والوں نے بے شمار طریقے بتائے ہیں مگر بہترین یہی ہے کہ اپنے دل کو اللہ کی یاد کے قابل بنایا جائے،
اپنے گناہوں پر نادم ہوا جائے ،
حیا پاکیزگی اور طہارت کی تمام دعاؤں کا اہتمام کیا جائے ،
حیاء کے لیے باقاعدہ کوشش کر کے ہوم ورک کیا جائے ،

اپنے موبائل فون بلکہ چھوٹی بڑی ہر سکرین کو ایسی تحریر یا تصویر سے داغدار نہ کیا جائے جو اللہ کی نظر میں شرمسار کروائے ۔

اس لیے کہ سیدنا سلمان فارسی نے فرمایا:” جب اللہ کسی بندے کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس سے حیا کو نکال دیتے ہیں“

یہاں ہلاک کرنے سے مراد صرف موت نہیں بلکہ اس کی روحانی زندگی کا خاتمہ بھی ہے۔ اس شخص کے دل سے اللہ تعالیٰ کا خوف اور ڈر نکل جاتا ہے اور جب اللہ تعالٰی کا ڈر نکل جاتا ہے تو انسان اسفل السافلین بن جاتا ہے۔ رشتوں کی پہچان کھو دیتا ہے ( اولڈ ہومز کا قیام، دنیوی مال و متاع کے لیے سگے بھائیوں کا قتل ،بہنوں سے قطع تعلقی کے علاوہ بھی بہت کچھ شامل ہے)۔
پھر انسان حرام حلال اور جائز ناجائز کا فرق بھول جاتا ہے۔
اسے محرم اور غیر محرم رشتوں میں تمیز نہیں رہتی ۔

پڑوس میں غربت سے بلکتے سسکتے وجود فراموش ہوجاتے ہیں، تمام کوششوں کا مرکز و محور صرف اور صرف اپنی خواہش نفس کی تکمیل ہوتی ہے ۔
معیار بندگی نیچے سے نیچے اور معیار زندگی اوپر سے اوپر چلا جاتا ہے ۔
ایک کمرے میں بیٹھ کر سگی اولاد اور والدین موبائل فون کی وجہ سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔
کیا اسے ہلاکت نہیں کہتے ؟؟؟

سورہ النور میں واقعی افک کا تذکرہ کرتے ہوئے حق تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو اس قصے کا ذکر دوسروں سے کر رہے تھے کے لیے ” ان تشیع الفاحشہ “ بے حیائی پھیلانے والے کہہ کر کیا ہے۔

اگر ایک قصے کو جو فی زمانہ زبان زد عام ہے، دوسرا شخص تیسرے کو بتاتا ہے تو حق تعالیٰ نے اس کے لیے کتنے سنگین اور سخت الفاظ استعمال کیے جسے آج کا کوئی انسان پسند نہ کرے،
” فحاشی پھیلانے والے “صرف ڈسکس کرنا فحاشی ہے تو آج جو دن رات ٹی وی ڈرامے فلمیں اور وڈیوز پیش کررہے ہیں وہ کس زمرہ میں آتا ہے!

ثابت یہی ہوا کہ حیا پیدا کرنے کے لیے زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے،
اس لیے کہ ایک طویل حدیث میں ( سنن ترمذی۔2575) حضرت عبداللہ بن مسعود نے روایت کیا ہے۔

ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا
” تم سب اللہ سے حیا کیا کرو جیسا کہ حیا کرنے کا حق ہے“
انہوں نے کہا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم الحمد للّٰہ اللہ سے حیا کرتے ہیں“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” یوں نہیں بلکہ اپنے سراور اس کے قریبی اعضاء کی حفاظت کرو۔ حدیث مبارک میں ” ان تحفظ الراس وما وعی “ کے الفاظ بہت گہرا مفہوم رکھتے ہیں۔ حدیث میں پیٹ ، دل ، منہ کے الفاظ بھی ہیں مگر سر میں سوچیں پیدا ہوتی ہیں۔ خیال آتے ہیں اور جب سوچیں ہی پاکیزہ نہ رہیں، خیالات ہی پر قابو نہ رہے تو انسان،انسان نہیں رہتا۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی ہر چیز ہمارے اخبارات، جرائد سب سوچ کو آلودہ اور منتشر کرنے والی ہے۔

جس کووہ سوشل میڈیا کی آزادی کہتے ہیں وہی بے حیائی اور بربادی ہے ۔
المیہ یہ نہیں کہ لٹ رہے ہیں، المیہ یہ ہے کہ لٹنے کا احساس ختم کردیا گیا ہے۔ بے حیائی کو فیشن اور آرٹ کا خوبصورت نام دے دیا گیا ہے ۔

جس حدیث میں حیا کو ایمان اور ایمان کو جنت سے لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے وہ صرف پڑھنے کی حد تک ہے ۔
اللہ کی ناراضگی کی پرواہ ہے نہ اپنی ہلاکت کا ڈر ۔

ہمارے مال جسم ، صحت گھر بار ہر چیز سے برکت بھی حیا سے جڑی ہوئی تھی۔
آپ خود سوچیے سمجھ میں سارا ربی پیمانہ آجائے گا ۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جس لڑکی سے شادی کی، اس کی قرآن نے واحد وجہ حیا براہ تھی، شکل صورت رنگ قد کاٹھ سب کو ایک طرف کر کے سوچیے کہ کہاں لکھا ہے کہ حیا دار تھی تو ضرور ہی گوری رنگت ، لمبا قد یا سنہرے بال ہوں گے۔ انتخاب کی ایک ہی وجہ حیا براہ تو اس حیا کے انتخاب سے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو گھر بھی مل گیا روزگار بھی اور اہل و عیال بھی ۔

اس سے ثابت ہوتا ہے حیا سب خوبیوں کی سردار ہے تو آئیے دیکھتے ہیں اس حیائے گم گشتہ کو واپس کیسے لایا جائے تاکہ ہماری روٹھی برکتیں لوٹ کے آسکیں:

گھر میں چھوٹے بچوں کے سامنے بچوں کی پیدائش ، حمل یا ازدواجی زندگی کے لیے محتاط الفاظ استعمال کیے جائیں ۔

غارت گر ایمان ڈرامے فلمیں تو ایک طرف کارٹون بھی پہلے بڑے دیکھ کے اندازہ لگائیں کہ دیکھنے کے قابل ہیں یا نہیں۔

خواتین خاص طور پر اپنے لباس کو ساتھ رکھیں، کپڑے یا لباس کے انتخاب میں حیا سب سے پہلے، کہ جو لباس سورہ الاعراف میں انسان کے لیے نازل ہونے کاتذکرہ ہے وہ ساتر تھا مکمل بازو اور بالکل چپکا ہوا نہ ہو۔

اسلام میں لباس کی دو خصوصیات بیان کی گئی ہیں :
1 : وصاف نہ ہو یعنی تنگ نہ ہو ( ہم فٹنگ درست نہ ہو تو ٹیلر کے منہ پر مارتے ہیں)
2: شفاف نہ ہو یعنی باریک ایسا نہ ہو کہ جسم کی رنگت چھلکتی نظر آتے ۔

گھر کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر محرم و نامحرم کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ نامحرم صرف چچازاد،ماموں زاد، پھوپھو زاد یا بہنوئی ہی نہیں ہوتے آپ کے گھر کے ملازمین اور وہ دکاندار جن سے تعلق نکال کے قیمت کم کروایا جائے وہ بھی نامحرم ہیں۔ ان سے بھی نپی تلی گفتگو ہو ، چہرہ حجاب میں ہو، آواز سے کوئی خاص تاثر نہ ابھرے۔

ہماری کچھ اقدار اور روایات ہماری عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے بہت اہم تھیں مثلاً عورت گھر سے نکلتی تو منہ ڈھانپنے کے بعد نکلتی ،جب شادی ہوتی تو دولہن کے اوپر بڑی سی چادر ڈال دی جاتی کہ جس محرم کے لیے زیب و زینت کی گئی ہے بس وہی دیکھے، یہ ہر ایرے غیرے کے دیکھنے کی چیز نہیں مگر آج شرفاء اور دینداروں کے ہاں بھی نکاح مسنونہ کے نام سے حیا کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔

کوشش کریں کہ یہ شادیاں دائمی برکتوں والی ہوں اور برکت کے حصول کے لیے رب کی رضا مندی ضروری ہے۔ دوٹوک فیصلہ کیا جائے تو وقتی طور پر معاملہ نہ بھی سلجھے مگر بالآخر حق کی پیروی کرتے ہوئے ہی سکون ملتا ہے۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ برصغیر میں عورت ننگے منہ نہیں نکلتی تھی، غیر محسوس طریقے سے یہ مکمل پردہ آنکھیں ننگی کر نے پر پھر اس کے بعد چادر اور آخر میں وہ چادر بھی دوپٹہ پر پہنچ گئی ۔

کہنا یہ ہے کہ کم از کم اللہ سے محبت کرنے والی اس کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اطاعت کا دم بھرنے والی دین پر عمل کا جذبہ رکھنے والی اپنے آپ کو گھر سے نکلتے ہوئے دوبارہ سے باپردہ حجاب کی طرف لے آئیں۔ چادر کا استعمال منع نہیں مگر لوگ دین داروں کو عمل کے لیے سامنے رکھتے ہیں ۔

رنگ برنگے حجاب کی بجائے سادہ باوقار طرز زندگی اپنائیے۔ اپنے دل اور موبائل فون کا ان باکس صاف شفاف رکھیے۔ اٹھانے میں پکی چیز میزان عمل میں خسارے کا باعث نہ بنے ۔

حدیث میں ہے: ”کل امتی معافی آلا المجاہرون“ میری امت کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے سوائے ان گناہوں کے جو علی الاسلام کئے جائیں۔ یہ اس لیے ناقابل معافی ہوں گے کہ ایک تو گناہ اور اس پر بے خوفی کہ پکڑ ہوسکتی ہے ۔

یہ کھلم کھلا گناہ ایک فحش میسج ،ایک بےحیائی والی پوسٹ ، وڈیو کو خود دیکھ کے آگے بھیجنا ہے ۔
ایک انگلی ہی تو حرکت میں لانا ہوتی ہے اور انگلیوں کے لیے ہی ” و تکلمنا ایدیھم “ اور ہم سے ان کے ہاتھ باتیں کریں گے ۔

فلاں پوسٹ فلاں ڈرامہ فارورڈ کرنے سے پہلے ستر مرتبہ سوچیے کہ معاملہ رب کے ساتھ ہے جو بہت حیا والا ہے جو بہت بردبار ہے۔
اللھم انی اسئلک الھدیٰ والتقیٰ والعفاف والغنیٰ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

14 پر “حیا اور اس کے تقاضے” جوابات

  1. عافیہ علی Avatar
    عافیہ علی

    قانتہ رابعہ کہ تحریر” حیا اور اس کے تقاضے”قانون فطرت کی بہترین عکاسی ہے ۔اس تحریر سے عمل کے لئے بہترین اصول ملتے ہیں

  2. عائشہ رفعت Avatar
    عائشہ رفعت

    بہت عمدہ طریقے سے حیا کو بیان کیا گیا ۔۔۔مفید ترین تحریر👌

  3. نبیلہ شہزاد Avatar
    نبیلہ شہزاد

    ماشاءاللہ بڑی معلوماتی تحریر ہے

    1. فائزہ Avatar
      فائزہ

      ماشاء اللہ بہت خوب

  4. قانتہ رابعہ Avatar
    قانتہ رابعہ

    جزاک اللہ خیرا کثیرا عافیہ ۔۔اللہ ہم سب کو اس وصف سے مالا مال کرے

    1. راحت عائشہ Avatar
      راحت عائشہ

      بہترین مضمون۔۔۔۔

    2. منزہ شاھین Avatar
      منزہ شاھین

      بہترین تحریر

  5. رشدہ عاکفہ جہانیاں Avatar
    رشدہ عاکفہ جہانیاں

    قانتہ رابعہ جی کی ھر تحریر ھمیشہ پورے خشوع و خضوع ، ذوق وشوق اور انہماک سے پڑھتی ہوں ھر ھر موضوع پر انکی گرفت دسترس عبور بہت جامع ،مظبوط ، جاندار شاندار عمدہ پرمغز اور لاجواب ھے کمااااال کی لکھاری ھیں ماشااللہ ۔۔قدرت نے ان کی تحریر میں پختگی ،روانی،سادگی اور فہم جیسی تمام خوبیاں ودیعت کر رکھی ھیں جو کہ انکے ھر قاری کو اپنی اور کھینچتی ھیں انکی تحریر کی خصوصیت انکا کا ابتدائیہ اچھوتا اسلوب اور بالخصوص اختتام ھے۔۔۔حیا اور اس کے تقاضےپہ ان کی تحریر نے جو کہ بلا تخصیص مرد و زن ،عمر سب کے لیئے سوچنے سمجھنے اپنے اعمال میں ڈھالنے اپنا محاسبہ کرنے کے در سب کے لیے یکساں وا کر دیئے ھیں کہ حیا اور ایمان لازم وملزوم ھیں اپنے گریبان میں جھانکنے کہ حیا اور اس کے تقاضوں میں ھم کہاں کھڑے ھیں ۔۔کیا ھماری زندگیاں اس نہج پہ گزر رھی ھیں کہ روز آخرت اللہ سبحانہ وتعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ھم سرخرو ھو سکیں گے بھی یا نہی اور کیا یہ(فون ) ڈیوائس اور اس کے اندر موجود مواد ھمارے افکار ھمارے دین سے موافقت مطابقت رکھتا ھے یا نہی اور کیا یہ ھمارے حق میں حجت بنے گا یا خلاف ۔۔۔اپنی چلتی سانسوں کے ساتھ آج نہی ابھی سے سوچنا ھے کہ اپنی زندگی گے ھر بگاڑ کو سدھار نے کا کام اسی پل شروع کرنا ھے

    1. قانتہ رابعہ Avatar
      قانتہ رابعہ

      آپ سب کا بے حد شکریہ اللہ کرے ہم بے حیائ کے خلاف پانی کا قطرہ ڈالنے والی ابابیلیں بن جائیں ۔۔جزاک اللہ خیرا کثیرا۔رشدہ

    2. قانتہ رابعہ Avatar
      قانتہ رابعہ

      جزاک اللہ خیرا کثیرا

  6. فائقہ Avatar
    فائقہ

    ما شا اللہ بہت عمدہ۔ سوشل میڈیا پر اچھی توجہ دلائی ہے۔

    1. سید شہاب الدین Avatar
      سید شہاب الدین

      قانتہ بہن کی تحریر بڑی چشم کشا ہے۔ حیا کے عنوان کے تحت زندگی کے ایک اہم پہلو پر بڑی تفصیل اور قرآن و احادیث کی روشنی میں بڑی مدلل تحریر۔۔۔ یہ بڑی تلخ حقیقت ے کہ شیطان نے مسلمان عورتوں کی حیا پر بڑی کامیاب ضرب لگائی ہے۔ذرا تصور کریں مسلمان عورتیں جو لباس زیب تن کررہی ہیں آج سے محض پندرہ سال قبل تک اس کا تصور نہیں تھا۔ پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں مسلمان خواتین کا لباس پیجامہ کبھی بھی نہیں رہا۔ اس پر مزید خرابی تنگ سے تنگ اور باریک پیجامہ۔کل تک جو کپڑے اندر پہننے کے لئے ہوا کرتے تھے آج صرف وہی کپڑے بڑے فخر سے پہنے جارہے ہیں۔ قانتہ بہن نے صحیح نشاندہی کی کہ جس (مسلمان) قوم میں حیا کی چادر تارتار کردی جائے اس قوم کی تباہی مقدر کردہ جاتی ہے۔۔۔ بہر حال بہت عمدہ تحریر ہے جو دعوت فکر بھی دے رہی ہے اور عمل کے لئے احساس بھی بیدار کررہی ہے۔ قانتہ بہن کی تحریر قابل ستائش ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ جزاک اللہ خیرا۔

      1. قانتہ رابعہ Avatar
        قانتہ رابعہ

        آپ کا بہت شکریہ آپ نے بہت اچھے الفاظ میں تحریر کی پسندیدگی کا اظہار کیا۔۔آپ کی تعریف میرے لیے بہت حوصلے کا باعث ہے۔۔زندگی کا آخری دور سہی لکھنے لکھانے میں طفل مکتب ہی یوں

  7. سید شہاب الدین Avatar
    سید شہاب الدین

    قانتہ بہن کی تحریر بڑی چشم کشا ہے۔ حیا کے عنوان کے تحت زندگی کے ایک اہم پہلو پر بڑی تفصیل اور قرآن و احادیث کی روشنی میں بڑی مدلل تحریر۔۔۔ یہ بڑی تلخ حقیقت ے کہ شیطان نے مسلمان عورتوں کی حیا پر بڑی کامیاب ضرب لگائی ہے۔ذرا تصور کریں مسلمان عورتیں جو لباس زیب تن کررہی ہیں آج سے محض پندرہ سال قبل تک اس کا تصور نہیں تھا۔ پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں مسلمان خواتین کا لباس پیجامہ کبھی بھی نہیں رہا۔ اس پر مزید خرابی تنگ سے تنگ اور باریک پیجامہ۔کل تک جو کپڑے اندر پہننے کے لئے ہوا کرتے تھے آج صرف وہی کپڑے بڑے فخر سے پہنے جارہے ہیں۔ قانتہ بہن نے صحیح نشاندہی کی کہ جس (مسلمان) قوم میں حیا کی چادر تارتار کردی جائے اس قوم کی تباہی مقدر کردہ جاتی ہے۔۔۔ بہر حال بہت عمدہ تحریر ہے جو دعوت فکر بھی دے رہی ہے اور عمل کے لئے احساس بھی بیدار کررہی ہے۔ قانتہ بہن کی تحریر قابل ستائش ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ جزاک اللہ خیرا۔