احسان کوہاٹی :
یہ گزشتہ برس اپریل کی ایک بدقسمت رات تھی، جاڑے کی خنکی ابھی نہیں اتری تھی ، رات کے دامن میں اندھیرا تو ہوتا ہی ہے لیکن وہ رات کچھ زیادہ ہی کالی اور سیاہ تھی۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا ۔ گوادر سے چلنے والی مسافربردار بس کی دو پیلی ہیڈلائٹس یہ تاریکی چیر کرڈرائیور کو راستہ دکھا رہی تھیں، بس کا ڈرائیور جانے پہچانے راستوں سے ہوتا ہوا کراچی کی جانب بڑھ رہا تھا ،
بس میں سوار زیادہ تر مسافر سو اور چند ایک اونگھ رہے تھے، وہ منتظر تھے کہ کب ہیبت ناک پہاڑوں کا یہ راستہ ختم ہو اور وہ اطمینان کا سانس لیں۔ ان مسافروں میں پاک بحریہ کا اہلکار شہباز بھی تھا ،شہباز کی آٹھ ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی اور وہ اپنی نویلی دولہن گھر چھوڑ کر گوادرپہنچا تھا ۔ اب وہ چھٹی پر گھر جارہا تھا۔ شہباز اسلام آباد کے قریب ایک چھوٹے سے سرسبز علاقے موہڑہ سرانداز کا رہائشی تھا۔
اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ راستہ سمیٹ کر بس ڈرائیور کی جیب میں رکھ دے۔ گوادر سے کراچی کے طویل سفر کے بعد بھی اسے طویل سفر درپیش تھا جس کے اختتام ماں کی ممتا بھری اور دولہن کی شرمیلی مسکراہٹ پر ہونا تھا۔ شہباز کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی لیکن وہ آنکھیں موندے آنے والے وقت کے تصور سے نہال ہورہاتھا ۔
بس اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی کہ بوزی ٹاپ کے قریب اچانک بس کی رفتار کم ہوگئی۔ انجانے خدشے سے شہباز کے ہی نہیں بہت سے مسافروں کے دل دھڑک اٹھے ،کئی مسافروں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ ڈرائیو ر سے بس روکنے کا سبب پوچھ رہے تھے۔
بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال ویسے ہی تشویش ناک رہتی ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ مسافر بردار بسیں روک کر غیر بلوچی اورسکیورٹی اہلکاروں کو اغواء کرکے لے جاتے ہیں ،
شہباز کا دل بھی انجانے خدشے سے دھڑک اٹھا لیکن ونڈ اسکرین کے پار سکیورٹی اہلکاروں کی وردی میں ملبوس جوانوں کو دیکھ کر اس نے اطمینا ن کا سانس لیا، ڈرائیور نے بس روکی اور بٹن دبا کر خودکار دروازہ کھول دیا ۔ سکیورٹی اہلکار بس میں داخل ہوئے اور یہیں شہباز کو گڑبڑ کا احساس ہوا۔ وہ سکیورٹی اہلکار وں کی وردی میں ضرور تھے لیکن سکیورٹی اہلکار نہیں تھے ۔
تھوڑی دیر میں شہباز کی خدشے کی تصدیق بھی ہوگئی وہ مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر غیر مقامی مسافروں کو بس سے نیچے اتار رہے تھے اور پھر تھوڑی دیر بعد پہاڑوں کا سکوت گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے منتشر ہوگیا ۔
شہباز کی دولہن آٹھ ماہ میں ہی بیوہ ہوگئی،اس کی بیوہ ماں کی عمر بھر کی کمائی لٹ گئی،وہ شہباز جو آٹھ ماہ پہلے دولہا بن کرگھر سے نکلا تھا اب اس کا لاشہ بے گور و کفن سنگلاخ زمین پر پڑا ہوا تھا۔ اس بدقسمت سیاہ رات میں مسلح بلوچ باغیوں نے چودہ افراد کی زندگی کا چراغ گل کیا اور یہ پہلا واقعہ نہ تھا بلوچستان میں بارود اور خون کا یہ وحشت ناک کھیل طویل عرصے سے کھیلا جا رہا تھا،
آواران، خاران، تربت قلات میں خاص کر غیر مقامی افراد کو چن چن کر قتل کیا جاتا رہا ہے ،گوادر اور دیگر علاقوں میں مزدوروی کے لئے پہنچنے والے دوسرے صوبوں کے غریب محنت کشوں کو تابوت میں ڈال کر ان کے گھروں کے لئے روآنہ کرنا پہلی بار نہیں ہوا تھا ، میں آپ کو کفن میں لپٹے شہباز کی لاش کے پاس اس کی بین کرتی ماں اور غش کھاتی ہوئی نوبیاہتا دولہن کے پاس چھوڑ کر تربت کے آبسر روڈ پر ایک کھجوروں کے باغ میں لے آتا ہوں ۔
یہاں گندمی رنگت کا خوش مزاج حیات بلوچ اپنے والد کے ساتھ کام کررہا ہے۔ حیات بلوچ اس پسماندہ علاقے کی امید تھا۔ وہ جامعہ کراچی میں فزیالوجی کا طالب علم اور کسی بھی یونیورسٹی میں پہنچنے والا اپنے خاندان برادری کا پہلا فرد تھا ۔ وہ بہت غریب لیکن خوددار نوجوان تھا ۔ وہ سی ایس ایس کرنا چاہتا تھا۔
ملک کی بیوروکریسی کا حصہ بن کر اپنے علاقے کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے خواب چودہ اگست کی دوپہر اس کے لہو کے ساتھ بہہ گئے ،حیات بلوچ چودہ اگست کی دوپہر کھجووں کے باغ میں اپنے والد کے ساتھ کام کررہا تھا کہ اسے دھماکے کی آواز سنائی دی ،حیات ابھی اس دھماکے کا معمہ حل کرنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ چند مشتعل ایف سی اہلکار باغ میں داخل ہوئے اور حیات بلوچ سے پوچھ گچھ کرنے لگے۔
گشت کے دوران ان کی گاڑی کے راستے میں آئی ای ڈی کا دھماکا ہوا تھااوران کے چند ساتھی گھائل بھی ہوئے تھے۔ ان کا شبہ تھا کہ دھماکا کرنے والا قریب ہی کہیں موجود ہوگا یا انہیں جانتا ہوگا،حیات بلوچ ایف سی اہلکاروں کو مطمئن نہ کرسکا جس پران میں سے ایک اہلکار نائیک شادی اللہ نے غضب ناک ہو کر اپنی رائفل سیدھی کی اور بے گناہ بے خطاء حیات بلوچ کی حیات کا خاتمہ کردیا۔
یہ افسوس ناک واقعہ تھا اک حیات قتل نہ ہوا تھا اس پورے خاندان کی امیدیں قتل ہوگئی تھیں۔ اس واقعے پرایف سی نے دو ٹوک موقف اپنایااور ملز م شادی اللہ کو خود ہی پولیس کے حوالے کردیاجس کے خلاف تربت پولیس نے مقدمہ درج کرکے قانونی کارروائی شروع کردی۔
حیات بلوچ کے قتل کے بعد بلوچستان اور بلوچ حقوق کے نام نہاد ٹھیکے دار متحرک ہوگئے، وہ سردار جن کے پاس کسی حیات بلوچ کی حیات میں اس کے لئے ایک تھپکی ایک جملہ شاباشی تک کا نہیں تھا وہ حیات کا ماتم کرنے لگے۔
سردار اختر بلوچ بلوچستان کی سیاست کا بڑا نام ہیں ان کا بڑا احترام ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں خوب تقریر کی جذباتی انداز میں کہا کہ کشمیر کے لئے کشمیر کمیٹیاں بنائی جارہی ہیں کشمیر تو جب ملے گا تب ملے گایہ جو ہاتھ سے جارہا ہے اس کے لئے تو کوئی کمیٹی بناؤ، اس ایوان میں آٹا چینی ٹماٹر تو زیر بحث آتا ہے مگر بلوچ کا خون زیر بحث نہیں آتا،کیا اس کے خون کا رنگ ٹماٹر سے بھی زیادہ خراب ہے ۔۔۔
سردار صاحب کے لب و لہجے سے افسردگی تھی،غصہ تھا اور فطری بات تھی کہ ان کا ہم زباں نوجوان قتل ہوا تھا لیکن موہڑہ سرانداز کا شہباز بھی تو کسی کا حیات تھا؟ اس کا لہو بھی اتنا ہی سرخ تھا جتنا حیات کا۔۔۔ حیات کی طرح وہ بھی بے گناہ اوراپنی بیوہ ماں کے بڑھاپے کا سہارا تھا۔۔۔
کاش ! شہباز اور شہباز جیسے سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کے قتل پر بھی سردار صاحب تھوڑے سے جذباتی ہوجاتے۔۔۔
کاش ! مجھے اخبارات یا سوشل میڈیا میں وہ کسی شہباز کے جنازے کو کاندھا دیتے ہوئے ان کا فوٹو ملتے۔۔۔
کاش ! مجھے مینگل صاحب کسی سکیورٹی اہلکار کے گھر تعزیت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ،وہ جس بلوچستان کے ہاتھوں سے جانے کی بات کر رہے ہیں پاک بحریہ کے شہباز اور سیکیورٹی اہلکار اسی بلوچستان کے لئے جان دے رہے ہیں ناں پھر انہیں ان کا دکھ قومی اسمبلی میں جذباتی کیوں نہیں کرتا؟
کیا ان کے نزدیک مادر وطن پر قربان ہونے والوں کا لہو ٹماٹروں سے بھی سستا ہے انہیں بتانا تو ہوگا کہ آخر انہوں نے کس بنیاد پر شہباز اور حیات میں فرق کیا!