عبیداعوان ………
جوں جوں دن گزر رہے ہیں، سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور فوج کےمابین ڈیل کا تاثر مضبوط ہورہا ہے. یہ تاثر بالخصوص ایک ایسے وقت میں مزید مضبوط ہورہا ہے جب مسلم لیگ نون کے تاحیات قائد نواز شریف نے اچانک چپ کا روزہ رکھ لیا ہے اور ان کی بیٹی مریم نواز کے ٹوئٹر ہینڈل سے بھی ٹویٹس نہیں داغی جا رہی ہیں جنھیں چند عرصے قبل تک حساسیت کی بنیاد پر مقامی ذرائع ابلاغ نشر کرنے سے گریز کرتے تھے۔
اس تناظر میں یہ سوال نہایت اہم ہے کہ کیا واقعی ڈیل ہوچکی ہے کہ نوازشریف ور ان کی بیٹی اپنے گھر میں رہیں گے، مانھیں جیل نہیں بھیجا جائے گا تاہم وہ خاموش رہیں گے؟ غیرملکی خبرساں ادارے بی بی سی سے وابستہ صحافی ذیشان ظفر کہتے ہیں:
ویسے تو جولائی میں الیکشن سے قبل نواز شریف اور مریم نواز لندن سے واپسی پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل چلے گئے تھے اور وہاں سے کسی قسم کے سیاسی بیان دینے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر تھی لیکن ایون فیلڈ ہاؤس اپارٹمنٹس مقدمے میں سزا کے بعد دونوں باپ بیٹی نے کھلے عام اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیان دینا شروع کر دیے تھے جو پہلے صرف ’مجھے کیوں نکلا‘ کے مقبول نعرے تک محدود تھے۔
ستمبر میں میاں نواز شریف اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد ان کی آخری رسومات کے لیے پیرول پر جیل سے رہا ہوئے تو سوگ کی فضا کی وجہ سے سیاست پر کسی نے بات نہیں کی لیکن دوبارہ جیل جاتے ہی دو دن بعد ان کی سزا اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کر دی تو عام خیال یہ تھا کہ اب نواز شریف سیاسی امور پر کھل کی بات کریں گے لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔
اس سوال پر سیاسی امور کے تجزیہ کار اور سینیئر صحافی عارف نظامی نے کہا کہ ان کے علم میں نہیں کہ کوئی غیر اعلانیہ معاہدہ ہوا ہے لیکن فطری طور پر اگر میاں نواز شریف کا خیال ہے کہ سارا کچھ سٹیبلشمنٹ کرا رہی ہے اور کچھ مقتدر قوتیں چاہتی ہیں کہ وہ سامنے نہ آئیں تو اس صورت میں وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خود ہی خاموش ہیں اور مصلحتاً کوئی ایسی بات نہیں کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ اس کے ساتھ وہ یہ بھی نہیں چاہتے ہیں کہ اپنے لیے مزید کوئی نئے محاذ نہ کھولیں۔
میاں نواز شریف کے علاوہ اگر بات کی جائے تو ان کی صاحبزادی مریم نواز اپنے والد سے زیادہ متحرک تھیں اور اپنے تلخ بیانات کی وجہ خبروں میں تھیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انھوں نے لندن سے پاکستان آنے سے پہلے ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ’ ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے۔۔۔‘ تو کیا مریم بھی کسی خاص مصلحت کے تحت خاموش ہیں؟ اس کے جواب میں عارف نظامی نے کہا کہ مریم نواز کا کوئی بھی بیان سامنے نہیں آیا ہے تو اس سے ثابت یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ سب اپنے والد کی آشیر باد سے کر رہی تھیں۔
عارف نظامی نے کہا کہ لگتا ہے کہ نواز شریف کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ان کی جی ٹی روڈ والی پالیسی کا کوئی فائدہ نہیں ملا اور نہ ہی الیکشن سے عین پہلے لندن سے پاکستان آنے سے کوئی خاص فائدہ ہوا تو بہتر ہے کہ چوہدری نثار اور شہباز شریف والی لائن اپنائیں کہ آرام سے گھر بیٹھیں۔
کیا مسلم لیگ نون نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت ایسا کیا؟
سیاسی امور کی تجزیہ کار، صحافی بینظیر شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بظاہر مسلم لیگ نون کی قیادت کا مشترکہ فیصلہ ہے کہ ابھی زیادہ کھل کر سامنے نہ آئیں اور یہ فیصلہ زیادہ نواز شریف کا ہی ہے جس میں اعلیٰ قیادت (نواز شریف، مریم نواز اور شہباز شریف) جارحانہ انداز نہ اپنائیں اور پارٹی میں ان سے نچلے درجے کی قیادت جارحانہ رہے جس میں مشاہد اللہ خان، خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق اور دیگر رہنما شامل ہیں۔ بینظیر شاہ نے اس کی وجہ یہ بھی بتائی کہ تحریک انصاف کو صوبہ پنجاب میں حکومت کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
جیو نیوز سے منسلک صحافی بینظیر شاہ کے مطابق ان کی حال ہی میں ایک سینیئر بیوروکریٹ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ اس وقت صوبے میں پاور سینٹر کیا ہے جس میں ایک طرف پرویز الہی فیصلے کر رہے ہیں تو دوسری جانب گورنر پنجاب چوہدری سرور اپنے طور پر فیصلے لے رہے ہیں لیکن صوبے کے وزیراعلیٰ کوئی فیصلہ نہیں لے پا رہے ہیں تو اس صورتحال میں مسلم لیگ نون سمجھتی ہے کہ وہ سخت موقف اپنائیں اور تحریک انصاف پر سیاسی طور پر حملہ کریں۔
بینظیر شاہ نے مزید کہا کہ ’تحریک انصاف کی صوبے میں طرز حکومت میں مسائل کی وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت نے بظاہر فیصلہ کیا ہے کہ دیکھو اور صحیح وقت کا انتظار کرو کی پالیسی اپنائی جائے۔‘ انھوں نے کہا کہ ابھی مسلم لیگ کی یہی پالیسی رہے گی اور خاص کر جب اعلیٰ قیادت کے خلاف کیسز عدالتوں میں ہیں تو وہ سمجھ رہے ہیں کہ ابھی جارحانہ حکمت عملی کی ضرورت نہیں کیونکہ عام انتخابات ابھی پانچ برس دور ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات قریب آنے پر شاید پالیسی میں بدلاؤ آئے۔
مسلم لیگ نون کا کیا موقف ہے؟
اس حوالے سے مسلم لیگ نون کے کئی رہنماؤں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن جواب نہیں ملا تاہم سابق پارلیمانی سیکریٹری رانا افضل سے بات کرنے میں کامیابی ملی۔ ان سے اپنے قائد میاں نواز شریف کی جیل سے واپسی کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ پارٹی کی حکمت عملی ہے تو اس پر انھوں نے کہا کہ یہ جماعت کی حکمت عملی نہیں بلکہ ان کے خیال میں نواز شریف کی اپنی سوچ ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے حالات ایسے ہیں کہ جب ہم اور حزب اختلاف کوئی بات کرتے ہیں تو حکومت اور اس کے حمایتی اسے سازش سمجھ لیتے ہیں لیکن اس وقت حکومت اور ان کے حامی اتنی غلطیاں خود کر رہے ہیں کہ ان کے خیال میں میاں صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ( تحریک انصاف) کی اصلیت خود ہی سامنے آ جائے اور ہمارے کندھے پر رکھ کی کوئی بات نہ کی جائے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ مسلم لیگ نون کے رہنما رانا مشہود نے بھی نجی ٹی وی کو انٹرویو میں فوج کے ساتھ معاملات کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ ان کے خیال میں اب بہت حد تک معاملات ٹھیک ہو چکے ہیں۔ اس پر صحافی نے سوال کیا کہ یہ معاملات ٹھیک کیسے ہوئے ہیں؟ تو اس پر رانا مشہود نے کہا کہ’معاملہ ٹھیک اس طرح سے ہوا ہے کیونکہ شاید ان کو( فوج) یہ سمجھ آ گئی ہے کہ انھوں نے جسے گھوڑا سمجھا تھا وہ خچر نکلے اور جو خچر ہیں وہ ڈیلیور نہیں کر پا رہے ہیں۔’’ان کے نزدیک یہ ان کا سمجھدار قدم ہے جو کہ ہماری جماعت کے لیے بھی اچھا ثابت ہو رہا ہے اور یہ خود ہی غلطیاں کیے جا رہے ہیں جس میں عمران خان سے منسوب بیان سامنے آیا ہے کہ یو ٹرن لینا جائز ہے جو کہ ان کی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غطی ہے اور میں اور دوسرے رہنما پہلے ہی ان کو گھیرا ہوا ہے اور اس نے ( عمران) نے ہمیں سخت رویہ اپنانے کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔’
یہاں ان سے جب پوچھا کہ وزیراعظم عمران خان این آر او نہ دینے کی بات کر رہے ہیں تو یہ این آر او کیا مسلم لیگ نون کی قیادت مانگ رہی ہے تو اس پر رانا افضل نے کہا کہ’ یہ لوگ این آر او کیا دے سکتے ہیں ۔۔۔ این آر او کے پیچھے فوج بیٹھی ہے، وہ دے سکتی ہے، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ دے سکتی ہے ۔۔۔ نیب دے سکتی ہے مگر اس کا عمران خان سے کیا تعلق ہے۔۔۔۔؟‘
انھوں نے مزید کہا کہ’ موجودہ وقت میں اگر فوج نے بھی این آر او دینا ہو تو کیا میاں صاحب کے خلاف کیس ختم ہو جائیں گے ۔۔۔ تو کیا نیب کھڑی ہو جائے اور فوج لوگوں کو منہ دکھا سکے گی۔۔۔ میرے خیال میں اب اس میں بہت تاخیر ہو چکی ہے۔‘
عارف نظامی نے بھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ’ این آر او ایک علامتی چیز بن گئی ہے، کوئی ڈیل ہو گئی ہے۔ تو کیا فوج سے ڈیل ہوئی ہے یا عمران خان سے تو یہ دونوں چیزیں ابھی قبل از وقت ہیں اور کوئی ڈیل ہوتی تو شہباز شریف کو اس طرح سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اور نواز شریف کے خلاف عدالت میں فاسٹ ٹریک مقدمہ چل رہا ہوتا اور ابھی یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ کتنے دن جیل میں رہتے ہیں۔‘
ویسے یہ سوال بھی کافی اہم ہے کہ اگر نوازشریف کے فوج کے ساتھ معاملات درست ہوچکے ہیں تو پھر آنے والے دنوں میں عمران خان کا کیا ہوگا؟