نقاب کرنے والی نوجوان خاتون

میرا اور نقاب کا رشتہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ہالہ ظفر :

آج سے تقریباً بیس سے بائیس سال پہلے کی بات ہے، وہ ننھا سا چہرہ، وہ معصوم سوال اور بڑوں کے نقش قدم پر چلتی پیاری پیاری حرکات آج بھی اس کے ذہن میں تازہ تھیں . اسے یاد تھا کہ کیسے وہ دوپٹے کو دہرا کیے پیچھے سے گرہ لگا کر ایک حصہ سر کی طرف اوپر گرائے اور دوسرے حصے سے منہ کو چھپائے اپنی ننھی آنکھوں سے جھانکتے سب کے پاس جایا کرتی تھی.
کتنا شوق تھا اسے نقاب کا

وہ بچپن کو یاد کرتے لکھ رہی تھی، میرا اور نقاب کا رشتہ بچپن سے چلا آرہا ہے۔ مجھے آج زندگی کے اس موڑ پہ ذرا سا ماضی میں جھانکنے کی ضرورت ہے ۔

ہماری عادات اور محبت کا تعلق ہمارے دل سے کیسے جڑتا ہے، کیسے ایک عمل زندگی کی خوبصورتی بنتا ہے اور کئی اعمال زندگی کی مصروف روٹین کا حصہ بننے سے قاصر رہتے ہیں۔

وہ لمحہ بھر کو رکی .اس کی نظر اس سطر پر تھی جو اس نے ابھی کچھ دیر پہلے تحریر کی تھی.
” میرا اور نقاب کا رشتہ “

کچھ رشتے بڑے عجیب ہوتے ہیں، نہ سمجھ میں آنے والے ،میرا رشتہ نقاب کے ساتھ کچھ ایسا ہی تھا۔
وہ دوبارہ اپنے ماضی میں پلٹی. وہی نقاب پوش ننھا چہرہ سب کے سامنے جا جا کر پوچھ رہا تھا:
” میں کون ہوں؟ “ وہی ننھی آواز اس کے کانوں میں گونجی،
ہلکا سا مسکرائی،

وہ میں تھی مجھے اپنی بہنوں اور کزنوں کو دیکھتے دیکھتے نقاب کا شوق چڑھا کرتا تھا اور دوپٹہ باندھے کتنا وقت اسی کھیل میں لگا دیا کرتی تھی. کچھ عادات دیکھا دیکھی پروان چڑھتی ہیں اور میرا نقاب کرنا ان عادتوں میں سے شاید کوئی ایک عادت بننے جارہا تھا.

زہے نصیب اس عادت کے میں کیسے اپنا کے رکھتی اس عادت کو، میری آوارہ گردیاں میرے گھومتے رہنے کے شوق اور ذرا سی آزاد خیالی نے ہمیشہ مجھے نقاب کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے پہ مجبور رکھا۔
اف اف۔۔۔ کیا ہے نا، بچپن تھا ہی ایسا گاؤں گائوں گلی گلی گھومتے رہنا ۔
اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی شوق جو چڑھا تھا بچپن کی گلیوں میں گم کردیا ۔

ذرا بڑی ہوئی تو سکول بدلا ، پرنسپل کا آرڈر تھا سکول کی بچیاں نقاب کریں یا بڑی چادر لیا کریں. پھر نقاب کا شوق زندہ ہوا اور سکول ٹائم پہ نقاب کا آغاز ہوگیا۔ سکول جانے آنے کے لیے نقاب لے لیتی بقیہ آوارہ گردی دوپٹے میں ہو جاتی۔

گھرانہ مذہبی بھی تھا اور تحریکی بھی لیکن مجبور کبھی کسی نے نہیں کیا نقاب کے لیے ۔
چادر اور دوپٹہ اوڑھ کے باہر جانا ضروری تھا مگر ہائے میری نقاب سے عداوت نہ جانے کیوں اس کی محبت دل کو نہیں لگ پارہی تھی.

پھر وہ وقت آیا جب یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا تھا۔
آپا نے بلا کے کہا پہلے دن جیسے جانا ہے آخر دن تک ویسے رہنا ہے نقاب کو تماشا نہیں بنانا۔

بہت بار خیال آتا کیسے اتنے ریگولر طریقے سے نقاب کرتی ہیں آپا یہ ، میں ایسے نہیں کیوں نہیں کرپاتی ،
نہ کرپانے کے باوجود یونیورسٹی میں پہلا قدم نقاب کے ساتھ ہی رکھا ۔
نہیں معلوم کیوں نہ چھوڑ پائی.

تب تک مجھے اس حساسیت کا اندازہ نہیں تھا ، کئی بار عبایا اور حجاب کرلینے کا دل کیا لیکن نقاب نہیں چھوڑا گیا۔
زندگی کے ان سالوں میں محسوس کیا کہ نقاب ایک مضبوط قلعہ ہے .لوگوں کی نظریں آپ کی طرف بلاوجہ نہیں اٹھتی احترام سے جھک جاتی ہیں ۔

عزت احترام سب ملا صرف نقاب کی وجہ سے لیکن کبھی نقاب میری سرگرمیوں میں حائل نہیں ہوا . میں کلاس کی جی آر تھی اور سب سے زیادہ میں نے ان چار سالوں کو انجوائے کیا۔ کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ نقاب میری روٹین میں ایک لمحے کے لیے بھی رکاوٹ بنا ہو.

مگر وہ لکھتے ہوئے رکی
مگر اس سب کے باوجود میں نقاب سے محبت نہیں کرپائی . اپنی بہنوں اور کزنز کی طرح اس طرح دل نہیں لگا
اس نے قلم کو کچھ دیر کے لیے روکا ۔

” ان کے کہنے پہ یا ان کے لیے شاید کوشش شروع کی“
کہتے ہیں محبت میں انسان اس انسان کے رنگ میں رنگ جاتا ہے جس سے محبت کرتا ہے۔ مجھے اپنے شوہر کا کہنا اچھا لگتا تھا کہ کیا ایسا ممکن ہے تمہیں میرے سوا کوئی نہ دیکھے. اور میں ممکن کرنے کی کوشش میں لگ جاتی تھی۔ پر میرا دل خودبخود اس طرف کیوں نہیں جاتا ،
اس نے پھر سانس لیا قلم روکا اور کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی.

وہ سیدھی ہوئی
قلم اٹھایا اور لکھنے لگی

ویسے دل کیوں نہیں لگتا جیسے میری بہنوں کا۔ وہ اپنے خیالوں کو تحریر کے الفاظ میں بھگونے کی تگ و دو میں تھی. کتنے سالوں سے وہ پڑھ رہی ہیں، پھر پڑھانے بھی لگی ہیں ۔ کئی جگہوں پہ ان کا سامنا ان کے نقاب پر اٹھتے سوالوں سے ہوا۔ ہر بار ان کی نقاب سے محبت جیتی ، ہر بار ان کا جواب لاجواب ہوتا میں ویسی محبت کیوں نہیں کرپاتی۔

وہ اٹھی ، اتنا لکھ کر ڈائری بند کی اور ان کے کمرے کی طرف چل دی. اسے اس سوال کا جواب اپنی بہن سے لینا تھا آج.

اس نے بہت عام انداز میں ان سے بات شروع کی،
سنو آپا ! اگر کبھی ایسا ہو کہ آپ کو کوئی بہت اچھی جاب آفر ہو، اتنی اچھی کہ آپ کا کیریر سیٹ ہو جائے لیکن ان کی شرط یہ ہو کہ آپ نقاب نہیں کرسکتی۔

آپا نے حیران ہو کہ اسے یوں دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں تمہیں نہیں پتہ کیا کہ میں کیا کروں گی.. اور پھر بولیں ظاہر ہے جاب چھوڑ دوں گی ۔

اسے پتہ تھا ان کا جواب لیکن نہ جانے کیوں وہ انھیں کھوجنے نکلی تھی آج.
” کیوں جاب چھوڑیں گی؟ “ اس نے فضول میں سوال کا وار کیا ۔
وہ مودب سی ہو گئیں. پھر ان کے الفاظ نے اس کا گھیرائو کر لیا ۔

انھوں کہا جاب یا کیریر اللہ کی محبت سے بڑھ کر تھوڑی ہے ، اللہ کے لیے کر رہی ہوں۔ جب بھی ایسی کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے تو ایک ہی خیال آتا ہے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کو آزمایا بھی تو جاتا ہے ، اگر میں مان رکھتی ہوں کہ یہ سب میں اللہ کے لیے کرتی ہوں تو وہ میری محبت کو آزماتا بھی ہوگا۔

کتنا خوبصورت احساس ہے کہ جب اس کا کوئی بندہ اس کی آزمائش پہ پورا اترے، اس کے لیے کسی مشکل کو گلے لگائے تو اسے اپنے بندے پہ کتنا پیار آتا ہو گا.
انھوں ایسے کہا جیسے واقعی اس سے خوبصورت احساس کوئی نہ ہو. بس اسی ایک احساس کے لیے ہے ہر مشکل سے ٹکرا جانے کا دل کرتا ہے .

اس نے نے ایک بار پھر انھیں ٹٹولا.
” میں ایسے کیوں نہیں کرپاتی؟“
انھوں میری طرف دیکھا اور مجھ سے سوال کیا

”جب عمر تمہیں کہتا ہے کہ میرا دل کرتا ہے تمہیں میرے علاوہ کوئی نہ دیکھے تو کیا ایسا ہوا ہے کبھی کہ تم نے نقاب سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہو؟ “
اس کا سر نفی میں ہلا … پر کوشش ہی تو نہیں کرنی دل سے کرنا ہے ۔

انھوں نے کہا تو پھر سنو جتنی محبت گہری ہوتی ہے انسان کا اتنا ہی اس محبت میں رنگنے کا دل کرتا ہے تم اللہ سے محبت گہری کرلو ۔
تمہارا خود بخود دل کرے گا کہ تم اس کے رنگ میں رنگ جاؤ سب اسی کے لیے کرو۔

جب ہم انسانوں کی محبت میں اتنا جھک جاتے ہیں ان کے لیے اپنے آپ کو اتنا بدل لیتے ہیں تو ہم اللہ سے بھی محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں اس کے لیے خود کو کیوں نہیں بدل سکتے ۔

وہ چپ تھی
مگر آپا بول رہی تھیں … شاید محبت بہت آگے کا احساس ہو
بہت سے لوگ محبت کے لیے نہیں کام کا معاوضہ لینے کے لیے بھی محنت کرتے ہیں۔
تو چلو یہی مان لو کہ پاسنگ مارکس کے لیے چھوٹی چھوٹی نیکیاں بندہ کرسکتا ہے وہی کرلے …یہ بات بھی ٹھیک ہے لیکن جو اللہ سے بنا کسی بدلے کے محبت کا جو احساس ہے نا وہ ان نمبروں سے بڑھ کر ہے …

وہ اس لمحے بس ساکت تھی
وہ بول رہی تھیں
وہ کیا کہا تھا اقبال نے جنت مبارک رہے زاہدوں کو میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں ، یہ احساس کہ وہ ساتھ ہے یا اس کی محبت … ہر چیز سے بے نیاز کر دیتی ہے

اس نے ایک پل کے لیے سوچا میں محبت کے لیے نہ سہی میں تو اس کا دیا امتحان پاس کرنے کے لیے بھی کبھی ایسے نہیں سوچا تھا۔
پھر اچانک اس کے موبائل کی بیل بجی ۔ اس نے کال اٹھائی ، بہت سی جگہوں پہ جاب کے لیے اپلائی کر رکھا تھا۔ انھی میں سے کسی آفس سے کال تھی.

اچھا سیلری پیکج تھا۔ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی حل تھا اور سب سے بڑھ کر ان کو اس کی سی وی اور اس کے بات کرنے سے اس کا کانفیڈینس اچھا لگا تھا. پھر کال کرنے والے نے اپنے ڈیکورم کے مطابق ڈریس کورڈ کا پوچھا۔

میں حجابی ہوں، نقاب کرتی ہوں
اس نے کہا
اور اسی بات پہ وہ چپ ہوگیا۔ ہمارے آفس کا کچھ ڈیکورم ہے۔ ہم معذرت خواہ ہیں، ہم آپ کو نقاب سے نہیں روک سکتے لیکن اس معاملے کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔

وہ ہلکا سا مسکرائی
محبت میں بدلنے کی لگن کہیں یا پاسنگ مارکس کے لیے کوشش ہی سہی
میں اس جاب کے لیے نقاب نہیں اتار سکتی
اس نے فون بند کردیا اور سکون بھرا گہرا سانس لیا ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “میرا اور نقاب کا رشتہ” جوابات

  1. Ab aala Avatar
    Ab aala

    بہت عمدہ کاوش۔ اندازِبیاں اور اسلوب بہتر ہے۔ ایک دو جگہ پے drag ہوا لیکن بہت عمدہ۔۔۔

    1. Zainab Avatar
      Zainab

      Bht e awla

  2. Samia Hameed Avatar
    Samia Hameed

    An amazing piece of though that of course would het brighter and sharper day by day yet iverall message is strong and of course with impressive way of conveying thoughts.

    1. ہالہ ظفر Avatar
      ہالہ ظفر

      samia baji love u