نجمہ ثاقب :
انسان بنانے والے نے تخیل کے پردے پر ایک اَن چھوا نقش ابھارا، اُسے خواہش کے سانچے میں ڈھال کر آرزو کے رنگ بھر دیئے۔
تیار شدہ مال چاہنے والے کے لیے کتنا ہی انمول کیوں نہ ہو، جب تک اس میں تخلیقی عمل کا خون پسینہ شامل نہ ہو، مزہ نہیں آتا۔ کبھی آپ نے ماں اور بچے کے تعلق پہ غور کیا ہے؟
اگرچہ ماں اسے تخلیق نہیں کرتی مگر محض تخلیقی عمل سے گزرنے پہ جو فخروانبساط اس کے رواں رواں سے پھوٹتا ہے وہی اسے دیگر ہم جنسوں میں ممتاز بنا کر اس کے قدموں تلے جنت تعمیر کرتا ہے۔
فرشتوں کو اللّٰہ نے اس نعمت سے محروم رکھا ہے۔ ’’کن فیکون‘‘ کے اس گورکھ دھندے میں عمل کی کسوٹی پہ آزمانے کے لیے خالق کو انسان جیسی مخلوق چاہیے تھی۔
اور وہ اس لوبھی دنیا کی ایک ادنیٰ اکائی تھیں۔
ساری زندگی کسی مزدور کی سی گزاری۔ حالات کی تپتی ردا اوڑھ کے زندگی کی سنگلاخ شاہراہ پر نکلیں تو پاؤں ننگے تھے۔ منزل تلک پہنچنے تک دل فگار اور بدن شکستہ ہو چکا تھا مگر جھولی اخلاص، محبت اور قربانی جیسے جواہر موتیوں سے مالا مال۔
حقیقت میں وہ دنیا کی امیر ترین عورت تھیں۔
چھوٹوں، بڑو ں میں یکساں مقبول!!
شکیل کو وہ محبت اور چاہت کا ایسا مرکز معلوم ہوتیں جس کے گرد گرویدہ دلوں کا جمگھٹا سا لگا رہتا ہو۔
یہ ساٹھ یا ستر کی دہائی کی بات ہے۔ ملک میں عورتوں کی غالب اکثریت دفتروں کے بجائے اپنے گھروں میں نوکریاں کرتی تھی جہاں معدودے چند کے سوا باقی کو ہٹلر قسم کی ساسوں سے واسطہ رہتا تھا جو اندرونی اور بیرونی ہر دو میدانوں میں اپنے تئیں خود کو اہل تر پاتی تھیں۔ بڑی روشن اور نتھری صبح تھی جب ساس اماں نے جمال پور روانگی کا اعلان کیا۔
دونوں بہوؤں کے لیے یہ غیر متوقع خبر نہ تھی۔ مہینے آدھ کے بعد اپنے میکے کا چکر لگانا ان کا معمول تھا۔ البتہ جب سے چھوٹی بہو کو بیاہ کر لائی تھیں، یہ وقفہ لمبا ہونے لگا تھا۔ وجہ بہو سے محبتانہ لگاؤ نہیں بلکہ بہت حد تک اس کے پیچھے نگرانی کا مقصد کارفرما تھا۔
شروع دنوں سے اس کا اٹھلا پن انھیں کھٹک رہا تھا۔
بڑی جتنی اجلی، متین اور سبھاؤ والی تھی، چھوٹی اتنی ہی اتاؤلی اور بڑبولی تھی۔
ادھر میکے سے عجیب و غریب خبروں کا تانتا بندھا آ رہا تھا۔ خاندان میں قتل ہوا۔ مقتول چچا کا بیٹا تھا اور قاتل سگے ماموں کی اولاد۔
جانا ضروری ٹھہرا تو بڑی بہو صالحہ خاتون کو لمبا چوڑا ہدایت نامہ تھما کر نکل پڑیں۔
بنیادی طور پر وہ کوئی ظالم ساس نہ تھیں نہ اُن کا روّیہ کسی انتہائی قسم کی سنگدلی یا زیادتی پر مبنی تھا۔ مگر عرصہ تلک ہندو سماج کے بیچ رہتے بستے وہ بہوؤں پہ حکمرانی کو اپنا حق سمجھ کر استعمال کرتی تھیں۔
حالانکہ وہ اپنے وقت کی بڑی وضعدار خاتون تھیں۔
اس زمانے کی وضع داریاں بھی عجیب تھیں۔ سناکرتے ہیں کہ ان کے والد بزرگوار جن کا شمار علاقے کے چھوٹے موٹے چوہدریوں میں ہوتا تھا، اگلے چار پانچ دیہہ تک میں وہ واحد شخص تھے جنھیں گلستانِ سعدی حکایات و اشعار سمیت ازبر تھی۔
گرمیوں میں شام ڈھلے جب تھکے ہارے کسانوں کو حقے کی نَے یہ علمی خزانے لوٹنے کا موقع ملتا تو رات گئے تک الاؤ روشن رہتے۔ سعدی سے رومی اور رومی سے سعدی تک فکری گھمن گھیریوں میں رات بھیگنے لگتی اور جب نذر محمد جمائیاں روکتے روکتے بے حال ہو جاتا اور جب پگڈنڈیوں پر آوارہ کتے ایک دوسرے کے مقابلے میں بھونک بھونک کر چپ ہو جاتے، چوہدری صاحب کو محفل سمیٹنے کا خیال آتا۔ وہ نذر محمد کو اٹھنے کا اشارہ کرتے۔ کسی فرمانبردار مؤکل کی طرح وہ باپ کے پیچھے پیچھے چلنے کا عادی ہو گیا تھا۔ اس کی فرمانبرداری کا اعتراف وہ خود کیا کرتے۔
قابلیت کا یہ عالم تھا کہ وکالت کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے پہ انگلستان کا وظیفہ آرام سے لگ گیا تھا اور فرمانبرداری کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ والد صاحب نے بڑی سہولت سے وظیفے کے کاغذات یہ کہہ کر چولھے میں رکھ دیئے:
’’کافروں کے ملک میں کرسٹانوں کے سے اطوار اختیار کر کے میرے سر میں دھول ڈالو گے۔‘‘ تومنہ سے بھاپ تک نہ نکالی۔ حالانکہ یہ معنوی راکھ حقیقی صورت میں ان کے اپنے سر میں ڈالی جا چکی تھی۔
یہ بھی بڑا دلچسپ قصہ ہے۔
نذر محمد جب بھرپور نوجوان تھے۔ ایک روز ننگے سر خانۂ خدا میں داخل ہونے کا اتفاق ہوا۔ صافہ غالباً گھر بھول آئے تھے۔ گلی سے بچے کو لینے دوڑایا اور خود اندر صفوں پہ بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔
بچہ تو واپس نہ آیا، البتہ چوہدری صاحب نماز سے کچھ دیر پہلے مسجد پہنچے تو بیٹے کو ننگے سر دیکھ کر بدکے مگر بولے کچھ نہیں۔ نماز مکمل ہوئی تو اسی بچے کو جو صافہ لے کر آیا تھا، ساتھ کے گھر سے تسلہ بھر راکھ لانے کو کہا اور پھر سب نمازیوں کے سامنے تسلہ بیٹے کے عین سر پر الٹ دیا کہ ننگے سر یہاں بیٹھنے سے بہتر تھا کہ تم سر پہ خاک ڈال لیتے۔
بیٹے پہ کیا گزری اور لوگ کس کس طرح ہنسے ہوں گے۔ یہ ایک الگ قصہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سب پڑھ کر آپ بھی ہنس دیئے ہوں۔
لیکن بہرحال اس زمانے کی وضع داریاں ایسی ہی ہوتی تھیں اور ’’ساس اماں ‘‘ ان کی وہ اولاد تھیں جنھوں نے روایات اور پرانی قدروں کو میکے سے ملے بڑھیا جہیز کی طرح سینے سے لگا کر رکھا تھا جس کی دیکھ ریکھ اور تام جھام سے وہ کبھی غافل نہ رہیں۔
تو بات ہو رہی تھی اس روز کی۔
صبح سویرے جب وہ گھر سے نکل گئیں اور گھر گرہستی کی ذمہ داری مکمل طور پر بڑی بہو کے کندھے پر آگئی تو چھوٹی بہو کا دل کچھ نیا کرنے کو ’’پھڑکنے‘‘ لگا۔ بڑی بہو صالحہ خاتون کی مرنجان مرنج شخصیت سے اسے کوئی آڑ لینے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی۔ ویسے بھی ان دنوں اسے سب ” نیا نیا ‘‘ سوجھتا تھا۔ کئی روز سے دیسی گھی میں تربتر پراٹھا کھانے کو جی چاہ رہا تھا لیکن ساس سے حجاب مانع تھا۔ سب کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتیں اور وہی کھا کر اٹھتیں جو سب کھاتے۔
دوجے جی نے کچھ کھٹا کھانا چاہا تومیاں رات کے اندھیرے میں چھپا کر لے آئے۔ مگر چھپ چھپا کر کھانے میں وہ مزا کہاں۔ اب ساس اماں گھر سے نکلیں اور یہ نعمت خانے میں آ موجود ہوئیں۔ خوب جم کر پراٹھا بنایا۔
ابھی توے سے اتار رہی تھیں کہ حمیدہ بیگم (ساس اماں ) جتنی جلدی میں گئی تھیں، اتنی تیزی سے گھر میں داخل ہوئیں۔ وہ کتنا راستہ طے کر کے واپس لوٹی تھیں اور گھر میں کیا رکھ کر بھول گئی تھیں، جو انھیں واپس لے آیا۔
چھوٹی کو اس بات پہ غور کرنے کا موقع نہ ملا۔ ساس کی آواز سن کر یوں بدحواس ہوئی کہ چمٹا ہاتھ سے چھوٹ کر پاؤں پہ آن رہا۔ وہ سی کر کے رہ گئی۔ دیسی گھی کی خوشبو سارے گھر میں سرسرارہی تھی۔ حمیدہ بیگم تیر کی طرح نعمت خانے پہنچیں۔
’’بڑے نام اور چھوٹے درشن۔‘‘ انھوں نے بہو کے اونچی ناک والے میکے پہ طنز کا تیر دے مارا۔
جواباً بولنے کا زمانہ نہ تھا۔ لہٰذا بہو منہ ہی منہ میں کچھ بدبدا کر رہ گئی۔ بڑی بہو جسے سلطنت کی عارضی راجدھانی سونپ کر گئی تھیں، دروازے پہ کھڑی حیرانیاں سمیٹ رہی تھی۔
ساس نے مڑ کر کڑی نظروں سے انھیں دیکھا۔ وہ ندامت کے پانی میں مصری کی ڈلی کی طرح گھلنے لگیں۔ اس وقت ان کی حیثیت ایسے معزول گورنر کی سی تھی جسے حاکم نے غداری کا الزام لگا کر ملک بدری کا حکم سنا دیا ہو۔
اس دن سے ساس اماں نے یہ طے کر لیا کہ چھوٹی اتاؤلی ہونے کے ساتھ ساتھ ندیدی اور تھڑدلی بھی ہے اور بڑی اپنی ہزار اچھائیوں کے باوجود ان کا راج پاٹ سنبھالنے کے لائق نہیں۔ تب سے انھوں نے اپنے اور بہو کے بیچ ایک بے نام اجنبیت کی ایسی دیوار کھڑی کر لی جس کی نیو بے معنی ضد اور انجانی نفرتوں سے اٹھائی گئی تھی۔ لطف کی بات یہ کہ دونوں کے درمیان جس تیزی سے فاصلے بڑھے، اس سے کئی گنا تیزی سے صالحہ خاتون کی مقبولیت کا سطح لوگوں میں اونچی ہونے لگی۔
صبح منہ اندھیرے مہترانی دروازے پہ آواز لگاتی۔
’’گھر بچوں کی خیر، اس کے صدقے کل عالم کی خیر۔‘‘
جتنی دیر میں وہ کوڑا کرکٹ سمیٹتی، ساس اماں رات کا بچا سالن روٹیوں میں رکھ کے باندھ دیتیں جسے مہترانی کی جھولی میں ڈالتے ہوئے صالحہ خاتون کے نچلے ہاتھ سے کوئی نہ کوئی موسمی پھل، کبھی تازہ پراٹھے خودبخود پوٹلی کے ساتھ سرک جاتے۔
سردیوں کے شروع میں رحمتے میراثن چلی آتی۔ ساس اماں دھڑادھڑ رضائیوں کے ٹانکے ادھیڑ دیتیں۔ روئی نئے سرے سے دھنوائی جاتی۔ لحاف، رضائیاں نگندنے کا کام آنگن کی کھلی دھوپ میں کئی دنوں تک جاری رہتا۔
مٹھی بھر پیسوں اور گندم، چاول کی گٹھڑی سر پر رکھے، میراثن جاتے ہوئے صالحہ بیگم کے کمرے کے دروازے پہ ضرور حاضری دیتی۔ سیما کی قمیص پار سال پھٹ گئی تھی، سی سی کر کام چلاتی رہی۔ اس سال ’’اوپرا‘‘ جاڑا آیا ہے، دلائیوں میں دانت بجتے ہیں بی بی اور وہ مصنوعی طور پر دانت بجانے لگتی۔
صالحہ بیگم ’’بہشتی زیور‘‘ میں گھریلو طبی ٹوٹکے والے باب کا صفحہ موڑ کر سرھانے رکھتیں اور صندوق میں سے نئی نکور کوٹی اور شال نکالتیں۔ کبھی کھونٹی سے گرم سوٹ کھینچ کر اتارتیں اور بے نیازی سے کتاب اٹھا کر دوبارہ بیٹھ جاتیں۔
میراثن جھٹ پٹ سویٹر، شال بغل میں داب، سوٹ الٹا سیدھا لپیٹ قمیص کے نیچے لاچے کی ڈب میں اُڑس کر یوں کمرے سے نکلتی جیسے برسات کے سخت حبس میں سانپ اپنے بل سے تڑپ کر نکلتا ہے۔ حکیم بیگم سے تعلقات کی نوعیت سب سے جدا تھی۔ دیوار سے دیوار ملی تھی اور چھتوں سے چھت۔ جب وہ نئی نئی بیاہ کر آئیں تو انھوں نے علی الاعلان انھیں اپنی تیسری بیٹی کا درجہ دیا تھا۔
کسی زمانے میں ان کا صالحہ خاتون کی والدہ سے خوب گاڑھا بہناپا رہا تھا جس کی وقعت والدہ صالحہ کی وفات کے بعد کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اب نئے سرے سے اس کی تجدید کا موقعہ آیا۔ تو ’’صالحہ خاتون‘‘ نے اسے نبھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ روزانہ بلا ناغہ وہ خالہ کی خیریت دریافت کرنے ہمسایہ میں ضرور جاتیں۔ یہ ایک ایسا معمول تھا جس کی راہ میں آندھی، طوفان، بارش، دھوپ کی گرمی حتیٰ کہ ساس کا کڑا روّیہ بھی رکاوٹ نہ بن سکا۔
خالہ کی آئے روز کی بیماریاں، ان کی بہو کی جملہ زچگیاں، بیٹیوں کے رشتوں کے موقع پر مہمانوں کی آمد سے لے کر جہیز کی تیاری اور شادی کے ہنگاموں تک کے سارے مرحلے انھی کی نگرانی اور ذاتی دلچسپی سے طے پاتے رہے۔
تعلقات میں پہلے سے بھی بڑھ کر گرم جوشی تب آئی جب خالہ کا اکلوتا چشم و چراغ ایک حادثے میں زمین کا رزق بن گیا۔ اب ’’صالحہ خاتون‘‘ نے چپکے سے ایک اور ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ مہینے میں ایک آدھ مرتبہ ’’میاں جی‘‘ گھر کا چکر لگاتے تو چند روپلی فرض کی طرح ہاتھوں میں ضرور تھما جاتے۔ ’’صالحہ خاتون‘‘ ممنون ہوتی نظروں کی پروا کیے بغیر وہ نقدی خالہ کی مٹھی میں دبا دیتیں۔ اپنے حصے کے پھل، میوے، کبھی برتن بھر اناج، کبھی گرمی سردی کے ملبوسات دیوار سے اس طرف منتقل ہوتے رہے۔
شدید جاڑے کے دن تھے۔ دھند کے بادل قطرہ قطرہ ٹپک کر در و دیوار پر منجمد ہوئے جاتے تھے۔ کائنات پہ نیم تاریکی کی ملگجی سی چادر تنی ہوئی تھی۔ جب خالہ کے پوتے نے صالحہ بیگم کو میاں جی کی آمد کا سندیسہ سنایا۔ وہ اس وقت موسم کی شدت کی پروا کیے بغیر خالہ کے برآمدے میں بیٹھی مشین پر گھرر گھرر خالہ کے بڑے پوتے کی شلوار سی رہی تھیں جسے ماسٹر صاحب نے یہ کہہ کر سکول سے نکال دیا تھا کہ کل بھی بغیر وردی سکول آئے تو بیٹھنے نہیں دوں گا۔
اب صورت حال یہ تھی کہ نہ تو گھر میں کوئی سفید کپڑا میسر تھا اور نہ ہی جیب میں اتنی نقدی کہ کم از کم کوئی سستا سا سفید کپڑا شلوار کے لیے خرید لیا جائے۔ اس کا بڑا آسان سا حل ’’صالحہ خاتون‘‘ نے یہ نکالا کہ اپنا ’’شٹل کاک‘‘ سفید برقعہ جو عرصے سے متروک الاستعمال پڑا تھا، کتر بیونت کر سینے بیٹھ گئیں۔
میاں کی آمد کی اطلاع پا کر ہڑبڑا کر اٹھیں۔ آج پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ وہ اُن کی آمد پر گھر سے باہر تھیں۔ چند قدم کا فاصلہ طے کر کے گھر پہنچیں تو میاں اماں کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ ان کے سلام کے جواب میں منہ پھلا لیا۔
’’کیسے ہیں ؟‘‘
’’اچھا ہوں۔‘‘ منہ بدستور پھولا ہوا تھا۔
’’کھانا کھائیے گا؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔
’’کھا چکا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کے منہ پھیر اماں کے گھٹنے سے لگ گئے۔
’’ہیں …؟تو گویا بہت دیر سے آئے بیٹھے ہیں۔‘‘ مجھے بلوا لیا ہوتا۔‘‘
’’بی بی! ساس اماں چہک کر بولیں ’’تمھیں گھر، میاں کی اتنی فکر ہے تو گھر پر ٹک کے رہو۔ یہ تیرے میرے دروازے پر نہ جھانکتی پھرو۔‘‘
’’چھوڑو اماں ! اسے اپنی من مانی کرنیاں کرنے دو۔ اب ہم بھی وہی کریں گے جس پہ ہمارا دل چاہے گا۔‘‘
اور اماں نے بھی رخ پھیر لیا۔ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے باہر نکل آئیں۔ چھوٹی اپنے منے کو اٹھائے سامنے سے چلی آرہی تھی۔
’’آج اندر کیا کھچڑی پک رہی ہے؟ کچھ سن گن ملی؟‘‘ اس نے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’معلوم نہیں اور مجھے کوئی تجسس بھی نہیں۔‘‘ وہ نعمت خانے کی طرف بڑھنے لگیں۔
’’اتنی بے خبر نہ رہا کریں آپا، کہیں کوئی نقصان نہ اٹھا لیجیے گا۔‘‘
اور اس سے بڑا نقصان کیا ہوتا کہ اگلی مرتبہ کے پھیرے میں ’’میاں جی‘‘ آئے تو ’’مرمروں کا تھیلا‘‘ سی صغریٰ خاتون ان کے ہمراہ تھیں۔ اماں صدقے واری ہونے لگیں۔
مرد کو گھر کا سکون نہ ملے۔ تو اسے ایسا قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ حکیم بیگم جو اطلاع ملنے پہ بھاگی بھاگی آئی تھیں، یہ سن کر حیرت کی زیادتی سے گُنگ ہو گئیں۔ صالحہ خاتون جوں کمرے میں گھسیں لوٹ کر باہر نہیں نکلیں۔ سوچ سوچ کر دماغ ماؤف ہوا جا رہا تھا، قصور کہاں نکلتا ہے؟ غلطی کہاں سے شروع ہوئی۔ کوئی سرا ہاتھ نہ آتا تھا۔ صدمے کی ایسی کیفیت تھی کہ ذہن کام کرنا چھوڑ گیا تھا۔ اماں کی زیادتیوں، دل آزار رویوں پہ انھوں نے مدت پہلے مٹی ڈال دی تھی، وہ ان سے کسی بھی قسم کے گلے کی خوگر نہ تھیں، دل تو میاں کے روّیے پہ ٹوٹا تھا۔
جملہ خدمت گزاریوں، وفا شعاریوں کو یک لخت بھول کر اتنا بڑا قدم اٹھا لینا آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ گزری سات آٹھ سال پہ محیط رفاقت بھری زندگی پہ بار بار نظر ڈالتی تھیں اور آنسو پونچھتی جاتی تھیں۔ کہیں پہ کوئی قابل گرفت بات ہاتھ نہ لگتی تھی سوائے اس کے کہ وہ انھیں وارث کے نام پہ کوئی اولاد دینے کی متحمل نہ ہو پائی تھیں، جس کے متعلق وہ ہمیشہ بڑے وثوق سے کہا کرتے۔
’’اولاد مرد کا نصیب ہوا کرتی ہے۔ عورت کے نصیب سے رزق ملتا ہے اور وہ الحمد للّٰہ بہت ہے‘‘۔
پھر اب کیا ان کی رائے بدل گئی تھی یا اماں کا کوئی پرانا داؤ چل گیا تھا۔
اماں حقیقت میں بڑی خوش خوش پھرا کرتیں۔ آئے گئے کے سامنے بڑے چاؤ سے نئی دلہن کی رونمائی ہوتی۔ اس کے ظاہری (جس میں بے تحاشا گوری رنگت کے سوا اور کچھ قابل ذکر نہ تھا) اور باطنی محاسن پہ سیر حاصل روشنی ڈالے جانے کے بعد نتیجہ یہ قرار پاتا کہ’’میاں صاحب‘‘ بے حد خوش قسمت واقع ہوئے ہیں جو اس نعمت غیر مترقبہ کو پا کر دنیا میں جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں اور چڑھتے سورج کی پجاری دنیا تائید میں سر ہلاتی تو دیر تک ہلتا ہی رہتا۔
اٹھانے کو تو ’’میاں جی‘‘ نے بھی اتنا بڑا قدم اٹھا تو لیا تھا مگر اب بیگم کا سامنا کرنے کا یارا نہ تھا۔ منہ اندھیرے گھر سے نکلتے اور اپنے ڈھیروں نادیدہ کاموں سے فارغ ہو کر شام ڈھلے لوٹتے۔
ہر آنے والے دن کے ساتھ صالحہ بیگم سمجھوتا کرتی گئیں۔ جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔ انھوں نے سارے آنسو ایک ہی مرتبہ اپنی اوڑھنی میں بہا کر پونچھ ڈالے اور جس روز ’میاں جی‘‘ نئی بیگم کو ہمراہ لے کر واپس نوکری پہ سدھارے، تب سے کسی نے صالحہ خاتون کو پھر روتے نہیں دیکھا۔ کسی مفتوحہ فوج کی طرح انھوں نے ساس اماں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور روزمرّہ کے کاموں میں یوں جت گئیں گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
’’میاں جی‘‘ پھر لوٹ کر نہیں آئے۔ شاید احساس جرم کا کوئی آدھا ادھورا کانٹا ان کے ضمیر میں اٹکا رہ گیا تھا جس کی پھانس انھیں کبھی کبھار چبھتی تھی۔
انھوں نے شہر میں اپنا ذاتی گھر خرید لیا اور وہیں کے ہو رہے۔ نئی بیگم البتہ چھ مہینے سال کے بعد بچوں کے ہمراہ چکر لگاتیں۔ ’’صالحہ خاتون‘‘ کھلے بازوؤں ان کا سواگت کرتیں، پتیلے بھر بھر پکاتیں، بچے سیر ہو ہو کھاتے اور دلوں میں پرانی امی کی محبتیں برسات کی خودرو گھاس کی طرح اگنے لگتیں۔ بڑا لڑکا شکیل جو ہو بہو باپ کی تصویر تھا، دادی کی گود سے زبردستی اتر کر ان کی طرف لپکتا، جدھر جدھر وہ جاتیں، چادر کا کونا ہاتھ میں لیے پیچھے پیچھے چلتا رہتا۔
’’سودائی ہو گیا ہے تو؟‘‘ دادی اسے کھینچ کھینچ کر گود میں بھرنے کی کوشش کرتیں۔ وہ دیوار پر چڑھتے کیکڑے کی طرح نیچے پھسلتا۔ پھر دادی پوتے میں دیر تک بے نتیجہ جدوجہد ہوتی رہتی۔
نئی امی آلکسی سے پلنگ پر پڑی نظارہ کیے جاتی۔ ’’بہت تھک جاتی ہوں۔ گھر بھر کا ڈنڈوت اٹھائے رکھنا آسان نہیں۔ کیا ہے جو آپا ہمارے ساتھ چلی جائیں۔‘‘ وہ دبی زبان میں ساس کے کان میں پھونکتی،
اماں ہڑبڑا کر ادھر ادھر دیکھتیں ’’ایسا ممکن نہیں صغریٰ۔ یہاں بھی تو گھر بار ہے۔‘‘
’’تو آپ کی چھوٹی بہو کس مرض کی دوا ہے۔‘‘ نئی دلہن چمک کر کہتیں۔
’’اس کا مرض لاعلاج ہے۔ آیندہ ایسی خواہش نہ کرنا۔‘‘ انہی دنوں بڑے میاں بیمار پڑگئے اور مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
چھوٹی پھر امید سے تھی۔ اس نے میاں سمیت گھر گرہستی علیحدہ کر لی۔
اماں نے اعتراض کیا تو بیٹے نے گویا تختے پہ آخری کیل ٹھونک دی۔
’’آخر بھائی جان بھی تو کبھی کے علیحدہ رہ رہے ہیں۔‘‘
اماں میں اب وہ پہلا سا دم خم باقی نہ رہا تھا۔ بیمار شوہر سمیت دونوں صالحہ خاتون کے رحم و کرم پہ آن رہے جنھوں نے انھیں یوں اپنے دامن میں سمیٹ لیا جیسے روتے بچے کے لوٹ آنے پہ ماں اسے گود میں بھر لیتی ہے۔
وقت کب رکا ہے۔ امتدادِ زمانہ نے اگر صالحہ خاتون کے بالوں میں چاندی بھر دی تو ساس سسر بھی بوسیدہ سے بوسیدہ تر ہوتے چلے گئے۔ دونوں کا دل پسند مشغلہ دھوپ میں لیٹ کے بلغم تھوکنا اور بچھڑی اولاد کی یاد میں جی بھر کے آہیں بھرنا تھا۔
سُسر دمے کا مستقل مریض، چارپائی پہ پڑا استخوانی ڈھانچہ معلوم ہوتا تھا۔ ساس اٹھ کر بیٹھ جاتیں مگر سہارے کے بغیر چلنے پھرنے سے معذور تھیں۔ پرانا طنطنہ کب کا رخصت ہو چکا تھا۔ اس کی جگہ احساسِ ندامت نے لے لی تھی جو صالحہ بیگم کو پھرکی کی طرح اپنے اردگرد گھومتے، اپنا گھر موت سمیٹتے دیکھ کر روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔
’’صالحہ خاتون‘‘ اس طرح بے نیاز رہتیں جیسے سب کچھ ایسا ہی ہونا مطلوب تھا۔
دونوں بڈھے اُن کا وہ نیوکلیس تھے جس کے اردگرد ان کی گردش دن رات کا حساب رکھے بغیر جاری و ساری رہتی تھی۔ جس روز بڑے میاں کی اوپر کی سانس نے نیچے جانے سے انکار کر دیا وہ پھپھک پھپھک کر روئیں۔
فاتحہ پہ منہ موڑے رنگ برنگے موضوعات چھیڑتی عورتوں نے اندر باہر جاتی صالحہ خاتون کو بارہا گفتگو کا موضوع بنایا۔ ’’کیسی خدمت کی دیوی ہے۔ اس عالم میں تو اپنی اولاد بھی منہ موڑ لیتی ہے۔ کسی دل موہ لینے والی مٹی سے خمیر اٹھا ہے۔ سب قسمت کے کھیل ہیں بی بی۔ روپ کی روئے کرم کی کھائے‘‘۔ حکیم بیگم نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔
اُدھر گول کمرے میں دادا کے پوتے پوتیوں کا موضوعِ سخن بھی یہی ٹھہرا۔ صبا، چھوٹی بہو کی چلبلی صاحبزادی یونیورسٹی میں نئی نئی داخل ہوئی تھی۔
٭٭٭