لاہور میونسپل کارپوریشن کی عمارت (1)

بلدیاتی ادارے ، جمہوریت اور ترقی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ثاقب محمود عباسی :

بلدیاتی یا مقامی حکومتیں دراصل جمہوریت کی مضبوطی اور ملکی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر کے تمام جمہوری ملکوں میں مقامی حکومتیں نہایت احسن انداز میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں ۔

جو جماعتیں بلدیاتی انتخابات کروانے سے پہلوتہی کریں یا انتخابات کروا کے بلدیاتی نماٸندوں کو اختیارات منتقل نہ کریں وہ جمہوری سیاسی جماعتیں ہر گز نہیں ہو سکتیں ۔ ایسی جماعتوں کو سویلین آمریت پسند جماعتیں کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔

مقامی یا بلدیاتی حکومتوں سے کیا مراد ہے ؟
اس کو سمجھنے کے لیے ذرا جمہوریت کی تاریخ پہ نظر ڈالتے ہیں ۔ جمہوریت کا آغاز یونان سے ہوا ۔ اس وقت وہاں کی ریاستیں ایک شہر پہ مشتمل ہوتی تھیں ۔ لوگ براہ راست یا ڈاٸریکٹ ووٹس/ رائے کے ذریعے سے اپنے نماٸندے منتخب کرتے تھے۔ پہلے پہل ووٹ دینا اور حکومت کرنا صرف اُمرا کا حق سمجھاجاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عام آدمی کو بھی ووٹ کا حق دیا گیا اور پھر بعد میں عام آدمی حکومت کے لیے بھی منتخب ہونے لگے۔

یہ حکومت کا سب سے بہترین ماڈل تھا جس نے اس وقت میں یونانیوں کو علم و ترقی کے اوجِ کمال پہ پہنچا دیا تھا ۔ آج بھی شہری ، بلدیاتی یا مقامی حکومتیں ترقی و خوشحالی لانے کی بنیادی کلید ہیں۔

دنیا بھر میں امریکا، برطانیہ ، یورپی اور سوشلسٹ ممالک سمیت ہر جگہ مضبوط مقامی حکومتیں موجود ہیں ۔ صدیوں کے تسلسل نے ان کو اب اداروں کی شکل دے دی ہے جس کی وجہ سے مقامی ترقی و نشوونما میں اہم کردار ادا ہو رہا ہے۔

یہ ڈاٸریکٹ جمہوریت بھی کہلاتی ہیں ۔ ان حکومتوں کا کام عوامی مساٸل کو عوام کی دہلیز پہ حل کرنا ہوتا ہے ۔مقامی نماٸندے تقریبا سو فیصد آبادی اور اس کے مساٸل سے واقف ہوتے ہیں ۔ عام آدمی ان مقامی نماٸندوں تک باآسانی رساٸی رکھتا ہے ۔ گلی محلوں اور چوکوں چوراہوں میں اس نماٸندے کی ملاقات روزانہ اپنے حلقہ کے لوگوں سے ہوتی یے ۔ یوں یہ نماٸندہ عوام کے مساٸل حل کیے بغیر وہاں رہ نہیں سکتا۔

مقامی حکومتوں کا بنیادی مقصد ترقیاتی کام کروانا جیسے تعلیم ، صحت ، روزگار ، سڑکیں ، پانی اور صفاٸی کے انتظامات کرنا ہوتا ہے ۔ اسی طرح مقامی عدالتوں ٗ، جرگوں اور پنچایتوں کے ذریعے عوام کے مساٸل کو تھانہ کچہری سے پہلے ہی حل کرنا بھی ممکن ہوتا ہے۔ علاقے میں امن وامان کو یقینی بنانا اور چوری ڈکیتی جیسی وراداتوں کا سدباب بھی ان کے فراٸض میں شامل ہوتا ہے۔

بلدیاتی ادارے اس قابل ہوتے ہیں کہ وہاں زکوۃ و صدقات اور چیریٹی و ڈونیشن کی مدد سے غریبوں ، بیواٶں ، یتیموں بے آسرا و بے سہارا لوگوں کی مدد کرکے ان کو معاشرے کے باقی لوگوں کے برابر لایا جا سکے۔

ترقی یافتہ ممالک میں بلدیاتی حکومتیں اپنی انکم کے ذراٸع خود پیدا کرتی اور اپنے اخراجات کے لیے فنڈز خود جنریٹ کرتی ہیں ۔ یہ ماڈل مقامی حکومتوں میں مسابقت پیدا کرتا ہے۔ پاکستان میں تو ایسے ماڈل کی سوچ وفاقی حکومت کے لیول پہ بھی نہیں ہے ۔ ہمارے ارباب اختیار کی ساری سوچ عالمی خیرات ، امداد اور قرضوں کے گرد ہی گھومتی ہے۔ بہرحال وقت گزرنے کے ساتھ یہ ماڈل ہمیں بھی اپنانا پڑے گا۔

مقامی حکومتیں قیادت کی تیاری میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ گورننس کے بہتر ماڈل اپنانے والے افراد اپنی پرفارمنس کی بنیاد پہ جلدی اوپر آ سکتے ہیں ۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مقامی حکومتوں میں طاقت عام آدمی کے پاس ہوتی ہے ۔ اسی طرح اس لیول پہ دھاندلی کے امکانات بھی نہایت محدود ہوتے ہیں ۔ الیکشن میں دولت کا استعمال بھی خاصا کم ہوتا ہے جو نچلے طبقے کے لیے نماٸندگی کے راستے کھول دیتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے آمدہ بلدیاتی انتخابات میں ملک بھر کا عام آدمی بھرپور شریک ہو۔ پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے مثبت لوگوں کو کمیونٹی کے لوگ مل کر الیکشن لڑاٸیں ۔ الیکشن میں پیسے کے بل پر ووٹس خریدنے کی حوصلہ شکنی ہو ۔ جو لوگ ووٹ خرید کے جیتتے ہیں وہ جیتنے کے بعد پرفارم نہیں کرتے بلکہ مال بناتے ہیں ۔

آٸیے ان بلدیاتی انتخابات میں مثبت اقدار کے حامل ، ترقی پسندانہ سوچ کے مالک ، عوام کا درد رکھنے والے ، متحرک سرگرم عوامی نماٸندوں کو منتخب کرکے پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کریں ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں