عمران خان، وزیراعظم پاکستان

خان صاحب کی حکومت خطرے میں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حفصہ جنید :

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کسی دور میں پڑھے ہوئے اس شعر کی حقیقت اب ہم پر کھل رہی ہے۔ بات ذرا تلخ ہے لیکن ہے سچی،جس طرح بھٹو نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کیا،عمران خان انھیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کا نہ صرف نام روشن کررہے ہیں بلکہ عوام الناس میں اپنی مقبولیت میں بھی اضافہ کر رہے ہیں۔ یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر چکر لگا کے دیکھ لیجئے،کیا تاجر،کیا ٹیچرز،کیا بزنس سے منسلک طبقہ غرض ہر قسم کے لوگ صف باندھے خان صاحب کے آگے ہاتھ جوڑ رہے ہیں کہ مزید احسان کی ضرورت نہیں اب گھر جائیے۔

مجھ پر ایک احسان کرنا
کہ مجھ پر کوئی احسان نہ کرنا

گالیوں سے بھی خوب حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، صحافی طبقہ ہر دوسرے دن عمران خان کو الیکشن کیمپین میں کیے ہوئے وعدے یاد دلا کر عمران خان سے گزارش کر رہا ہے کہ براہ مہربانی اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر صرف اپنے اس ایک وعدے کے بارے میں بتادیجیے جو آپ نے پورا کیا ہو لیکن خان صاحب صحافی طبقے کی اس گزارش پہ کان دھرنا پسند نہیں فرماتے۔

ملکی معیشت پہ نظر رکھنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے کہ اس وقت ملکی معیشت تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے، نواز شریف کو ملک کا ناکام وزیر اعظم ثابت کرنے کے لیے اپنا تن من دھن قربان کردیا لیکن نواز شریف کے بھی اقتدار چھوڑتے ملکی جی ڈی پہ 8۔5 فیصد تھی جو کہ عمران خان کے دور حکومت میں منفی تک پہنچ چکی ہے،

نواز دور میں پاکستانی اسٹاک مارکیٹ ایشیا کی سب سے بہترین اسٹاک مارکیٹ بن گئی تھی اور اب (حالات آپ کے سامنے ہیں)برآمدات کا ہدف پورا نہیں ہورہا،8000 ارب کے ٹیکس جمع کر کے دکھانے کے دعویدار گزشتہ مالی سال میں 5000 ارب ٹیکس بھی اکھٹے نہیں کرسکے،

گزشتہ مالی سال ریکارڈ نوٹ چھاپے گئے،افراط زر بے انتہا بڑھ گیا ہے۔ شرح سود 25۔13 فیصد تک پہنچ گئی تھی جو کورونا کی وجہ سے سنگل ریٹ پہ واپس آئی ہے،پاکستان کے جنوبی ایشیا کا دوسرا مہنگا ترین ملک بن جانے کا سانحہ بھی موجودہ دور حکومت میں واقع ہوا ہے۔

یکساں نصاب تعلیم کا نفاذ زبانی کلامی سے آگے نہیں بڑھ سکا، ابھی تک خان صاحب اردو کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکے الٹا ان کے وزیر تعلیم نے انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم قرار دے دیا ہے، کرپشن انڈیکس میں پاکستان کی ترقی ہوئی۔عمران خان اپنی تقریروں میں اکثر سرکاری اداروں میں بدعنوانی،کرپشن پر چیختے گرجتے نظر آتے تھے اور وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سرکاری اداروں میں انقلاب کی کافی نویدیں سناتے تھے لیکن حقیقت آپ سب کے سامنے ہے۔

نواز شریف کے دور میں جاری کئی ترقیاتی کام منہ چڑا رہے ہیں جس میں اورنج ٹرین نمایاں ہے ، پچاس لاکھ گھر دینے کا اعلان خوب جوش و خروش سے کیا تھا لیکن وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد غیر قانونی تجاوزات کے نام پر کئی گھروں کو مسمار کردیا، بے روزگاری اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔غیر ملکیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے خان صاحب کے بیانات کے بارے میں اب عوام بھی یہ کہنا شروع ہوگئی ہے کہ خان صاحب جن غیرملکی سرمایہ کاروں کا ذکر کرتے تھے وہ شاید زلفی بخاری جیسے لوگ ہیں۔

عمران خان کی تمام نااہلی کے باوجود پی ٹی آئی کے درجن بھر وزیر بلاناغہ میڈیا میں تشریف لاتے ہیں اور طنز کے تیر چلانے میں عالمی ایوارڈ حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں ۔کبھی الٹے سیدھے بیان دے کر پاکستان کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی ایک مثال ہوابازی کے وزیر کا پی آئی اے کے متعلق بیان تھا جس کے بعد امریکا اور یورپی یونین نے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگا دی۔

یہ وزرا دو دو گھنٹے کی پریس کانفرنسز کر کے اپنی ناکامی کا ملبہ سابقہ حکومت پہ ڈالتے ہوئے ان کی ناکامیوں کی طویل فہرست عوام کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ خوش خبری سنانے میں بھی میڈیا کا کافی وقت ضائع کردیتے ہیں کہ نیب کو ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں، بس ! اب ن لیگ کا انجام دو ہفتوں نہیں دو دنوں کی کہانی ہے ۔

عمران خان نے غیرملکی دورہ تو دو ہفتے بعد کرنا ہوتا ہے لیکن ان کے قابل مشیر پہلے سے ہی یہ پیشنگوئیاں کرنا شروع کردیتے ہیں کہ اب پاکستان کے دن پھرنے والے ہیں،عمران خان کا یہ دورہ ملک میں انقلاب برپا کردے گا،بڑے بڑے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے آئیں گے۔

پھر یوں ہوا کہ
آنکھ کھلی اور
خواب ختم ہوا۔۔

وفاق اور سندھ میں چپقلش دن بدن بڑھتی جارہی ہے،اتحادی وعدے پورے نہ کرنے پر ناراض ہو کر پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کر رہی ہے،اپوزیشن متحد ہو کر عمران خان کے خلاف تحریک چلانے کا عندیہ دے چکی ہے۔

عمران خان کے ڈی چوک پر دھرنا دینے کے متعلق ماہرین نے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ اب دھرنا پاکستانی سیاست کا حصہ بن سکتا ہے اور عمران خان کی حکومت کو اس سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔اس وقت تو یہ باتیں خان صاحب ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا کرتے تھے لیکن اب انھیں اندازہ ہورہا ہے۔ گزشتہ سال فضل الرحمن کی حکومت کے خلاف تحریک نے ہی خان صاحب کو زمین کا راستہ دکھایا تھا۔اس دفعہ اپوزیشن کی حکومت کے خلاف مشترکہ تحریک خان صاحب کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہے۔کیونکہ اس دفعہ فضل الرحمن اکیلے نہیں بلکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی ان کا ساتھ دینے کا عزم کیا ہے۔

اس دفعہ اپوزیشن کے ہاتھ میں سنہری موقعہ ہے کہ وہ عمران خان سے جان چھڑالے کیونکہ خان صاحب کی حکومت خود ہی بلنڈر کرتی جارہی ہے۔ پورا پاکستان عمران خان سے جان چھڑانا چاہ رہا ہے۔ خان صاحب کی حکومت کے پاس اس وقت کوئی وژن نہیں ہے بجز اس کے کہ تمام سیاسی مخالفین کو نیب کے ذریعےنا اہل قرار دے دیا جائے۔

یہ میں نہیں کہہ رہی خود سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ نیب متعصب فیصلے کررہا ہے۔شہباز شریف کا معاملہ ہو ، رانا ثنا ءاللہ کا ہو، یا سعد رفیق کا ہو،سب پہ سوال اٹھ رہا ہے۔ اپنی ناکامیوں کا سارا ملبہ سابقہ حکومتوں کو ٹہرانے سے حکومتیں نہیں چلا کرتی، حکومتیں اللہ کے بعد لوگوں کی مرضی سے چلا کرتی ہیں۔اچھے کارناموں سے چلا کرتی ہیں۔ایک تبصرہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت الیکشن ہوجائیں تو ن لیگ کی مرکزی حکومت بن جائے گی۔ یہ اچھا اشارہ نہیں ہے خان صاحب کے لئے۔

خان صاحب کو اب ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا پیچھا چھوڑ کر پاکستان پہ توجہ دینی چاہیے،عوام کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے،انھیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب ان کی حکومت خطرے میں ہے،انھیں بغاوت کی بو سونگھ لینی چاہیے۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب اپوزیشن کی حکومت کے خلاف مشترکہ تحریک میں عوام بھی حصہ لیں گے۔

اور عوام جب حکومت کے خلاف کھڑی ہوجائے تو تاریخ کا رخ بدل جاتا ہے اور حکومتیں بھی۔ سوڈان اور عراق میں جب عوام حکومت کے خلاف کھڑے ہوئے تو حکومت کو اپنا اقتدار چھوڑنا ہی پڑا۔عمران خان کو اب سمجھنا ہوگا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “خان صاحب کی حکومت خطرے میں”

  1. نبیلہ شہزاد Avatar
    نبیلہ شہزاد

    بہت اچھا لکھا ہے حفصہ آپ نے۔ ماشاءاللہ۔