فاروق عادل :
” اڑے بابا ، پھوٹو (فوٹو)سامنے سے بنائو تو بات بنے نا! “
یہ میر حاصل بزنجو تھے ، اس زمانے میں چھوٹے بڑے سب جنھیں حاصل بلوچ کہا کرتے۔ پہلی بار میں نے انھیں (جامعہ کراچی کی) آرٹس لابی اور کانووکیشن گراونڈ کے درمیان سڑک کے بیچوں بیچ کھڑے دیکھا۔ جسم اس وقت بھی مائل بہ فربہی تھا اور وہ دھیمی آواز میں بات کیا کرتے تھے جسے اپنے غیر سب کان لگا کر سنا کرتے۔
کسی نے بتایا کہ یہ میر غوث بخش بزنجو کے صاحبز ادے ہیں۔ مجھے بچپن کے دن یاد آگئے نیز ایک تصویر۔ وہ دن ان سطور کے لکھنے والے کو خواب کی طرح سے یاد ہیں۔ گھر میں اخبار آیا کرتا تھا جسے بڑے بہت توجہ سے پڑھتے اور جو بات ان کے ذہن میں اٹک جاتی، دیر تک اس پر تبصرے کیا کرتے۔ یہ عین ان ہی دنوں کی بات ہے، اخبار میں ایک تصویر شائع ہوئی ۔شاید یہ اس وقت کی تصویر تھی جب بلوچستان کے گورنر اور وزیر اعلیٰ اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پہلی بار ذرائع ابلاغ کے سامنے آئے۔
تصویر میں کئی چہرے تھے لیکن جانے کیا وجہ تھی کہ بزنجو صاحب کا نام ذہن میں ہمیشہ کے لیے رہ گیا اور اس کے ساتھ ہی تصویر میں شامل شخصیات کی بزرگی کا تاثر۔ ویسے وہ زمانہ بھی عجب تھا جس پر بھی نگاہ پڑتی ، ٹھہر جاتی، تعلق خواہ دائیں بازو سے ہوتا یا بائیں بازو سے ، بلند قامت، قابل احترام اور بزرگ ہی دکھائی دیتا۔ اسی یاد کے ساتھ ایک جلسے کی یاد بھی چلی آئی جس میں پڑھی جانے والی نظم کا ایک مصرع حافظے سے کبھی محو نہ ہوسکا ع
مفتی ، بھٹو اور ولی، تینوں مل بیٹھے اک نائو چلی
اس جلسے میں جانے کس کس نے خطاب کیا، میں تادیر یاد کروں ، تو بھی یاد نہیں آسکتا لیکن کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ بہت سے باریش مقرروں کے درمیان ایک بے ریش مقرر بھی تھا جو خطاب کے لیے کھڑا ہوا تو احترام اور خاموشی کی ایک ایسی فضا قائم ہوئی جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ مقرر کون تھا لیکن گلابی جاڑوں کی ٹھنڈی میٹھی دھوپ میں جامعہ کراچی کی اس پر رونق شاہراہ پر اس شخص پر جیسے ہی میری نگاہ پڑی،مجھے یقین ہو گیا کہ ہو نہ ہو وہ میر غوث بخش بزنجو تھے۔ اس طرح کے گمان اور اندازے دھوکا بھی بہت دیا کرتے ہیں لیکن حاصل بلوچ کے ساتھ اس ملاقات کو میں اپنے بچپن کی اس یاد سے کبھی علیحدہ نہ کر پایا۔
وہ جنرل ضیاالحق کا زمانہ تھا ، طلبہ انجمنوں پر پابندی تھی ۔ یونین کے انتخابات کئی برس پہلے کبھی ہوئے ہوں گے جس کے منتخب عہدے داروں میں سے کئی ایک تعلیم مکمل کر کے جامعہ چھوڑچکے تھے جو باقی رہ گئے تھے، وہی یونین تھی اور مارشل لا سے بیزاری سے باوصف اسے قبولیت عامہ حاصل تھی۔
سید ریحان حسن جامعہ میں ہمارے سینئر تھے اورنام کی حد تک ہی سہی یونین کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بہت پر جوش اور پر عزم تھے۔ بعض وجوہات سے یونین کا ترجمان ” اخبار جامعہ“ کئی برس سے شائع نہیں ہوپایا تھا،انھوں مجھے اس اخبار کی ادارت کی ذمہ داری سونپی اور میں اس کام کو مقدس فریضہ سمجھ کر اس میں جت گیا۔اس جریدے کا ایک حصہ ہائیڈ پارک کے نام سے مخصوص تھا جس میں جامعہ میں متحرک طلبہ تنظیموں کے قائدین کے خیالات شائع کیے جاتے ۔
میرے ایک کلاس فیلو شیخ اشفاق کو فوٹو گرافی سے شغف تھا اور وہ بہت محنت کر کے بڑی خوب صورت تصاویر بنایا کرتا تھا۔ حاصل بلوچ کے بارے میں اُس نے میری باتیں سنیں تو اس کا تخلیقی جوہر کچھ اور نکھر آیا اور اس نے دائیں بائیں سے گھوم پھر کر ان کی تصویریں بنانی شروع کیں تو وہ مسکرائے اور کہا کہ یوں شرما شرما کر کیمرہ کیا چلانا، سامنے سے آکر اپنا کام کرونا بابا ! یہ کہا اور چند قدم پیچھے ہٹ کر آرٹس لابی کی طرف بڑھے اور ایک پرانی سی سنگی بینچ کر بیٹھ کر کہا کہ ہاں، پوچھوکیا پوچھنا ہے؟
بلوچ اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے اتحاد کے سربراہ ، سابق گورنر اور ایک ہمالیائی شخصیت کا بیٹا جب یوں میرے ساتھ دوستوں کی طرح آن بیٹھا تو میں نے سوچا کہ کیا اس شخص کو اپنے مقام اور مرتبے کا ذرا بھی احساس نہیں؟
ٹیلی ویژن کی اسکرین پر اس کے انتقال کی خبر چلی تو میرے سامنے گردن میں لٹکے اُس عجیب سے چشمے والے شخص کی تصویر نہیں ابھری جسے وہ کچھ پڑھتے وقت دو الگ الگ شیشوں کو جوڑ کر آنکھوں پر فٹ کر لیا کرتا تھا بلکہ اُس محبوب ادا کی یاد آئی جو بے تکلف دوستوں کی طرح ہر چھوٹے بڑے کے کاندھے پر بازو رکھ کر آرٹس لابی کی سیڑھیوں پر بیٹھ جایا کرتا تھا۔
وہ ملاقات کسی پرسنالٹی انٹرویو کی طرح تاریخ کے چھپے رازوں کو بے نقاب کرنے کے لیے ہرگز نہ تھی لیکن نہ جانے کیوں میں ان سے پوچھ بیٹھا کہ آپ کی سیاسی زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟ یہ سوال گویا قیامت ڈھا گیا۔ وہ سرک کر چند انچ پیچھے ہٹے اور دائیں جانب پہلو بدل کر اس طرح بیٹھ گئے کہ سوال کرنے والے کا چہرہ ان کے بالکل سامنے آگیا۔
پھر کہا کہ یوں تو پیدا ہوتے ہی سیاست سے میرا تعلق بن گیا تھا لیکن ، اس زمانے میں جب میں میٹرک میں تھا،ایک حادثہ ایسا ہوا جس نے اس تعلق کو مزید مضبوط بنا دیا۔ حاصل بزنجو کے اس واقعے کا تعلق اُس زمانے سے ہے جب اس نائو میں سوراخ ہوگیا جس پربیٹھ کر مفتی، بھٹو اور ولی نے ملک کو ایک نیا سیاسی نظام دینے کا عزم کیا تھا۔
بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت ٹوٹ چکی تھی اور اس کی قیادت کوئے یار سے نکل کر سوئے دار رواں تھی۔ عین ان ہی دنوں میں میٹرک کے اس طالب علم کو اس الزام کے تحت گرفتار کر لیا گیا کہ اس نے کوئٹہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کا دفتر نذر آتش کیا ہے۔
حاصل بزنجونے یہ واقعہ ایک پرانی لیکن خوب صور ت یاد کی طرح دہرایا، بات ختم کرنے ہوئے کوئی شعر پڑھااور مسکرادیے۔ ان کی مسکراہٹ سے میں نے فائدہ اٹھایا اور پوچھ لیا کہ آپ کی کنیت تو بزنجو ہونی چاہیے لیکن آپ بلوچ کہلانا کیوں پسند کرتے ہیں؟
دھیمے لہجے میں پوچھے جانے والے اس سوال پر ان کی مسکراہٹ قہقہے میں بدل گئی اور انھوں نے کہا کہ اسے نوجوانی کی ٹر سمجھ لو یا بلوچ کی غیرت کہ میں نے یہ سوچا کہ اگر نام بنانا ہے تو باپ کے سائے سے نکل کر بنایا جائے، ورنہ دنیا میں کون ایسا ہے جو اپنے ماں باپ کی عظمت پر نازنہیں کرتا یا کرنا نہیں چاہتا۔
اس لمحے مجھے ڈاکٹر جاوید اقبال کی یاد آئی۔ اپنے عظیم والد کے سائے سے نکل کرجو اپنی علیحدہ شناخت بنانے کے لیے ساری عمر جدو جہد کرتے رہے۔ حاصل بزنجو کا تجربہ بھی ان سے مختلف نہیں تھا۔1977ءکے مارشل لا کے بعد بڑے بزنجو صاحب نے کئی سیاسی نظریات بنائے۔
ایک نظریہ یہ تھا کہ وفاقی پارلیمانی نظام ہی اس ملک کے لیے موزوں ترین ہے۔ دوسرا نظریہ یہ تھا کہ اگر اس ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو اس کے نتیجے میں پنجاب کو مطعون کر نا اور اس کے مقابلے میں چھوٹے صوبوں کو یک جا کر کے محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کرنے جمہوریت کچھ خدمت نہیں ہوتی ، لہٰذاکرنے کا کام یہ ہے کہ پنجاب کی شہری اور تجارت سے شغف رکھنے والی قیادت کو ایک عظیم تر قومی محاذ میں شامل کیا جائے جو جمہوریت کے قیام اور استحکام کے لیے کام کرے۔
حاصل بزنجو کی قسمت میں اپنے عظیم والد کے اسی نظریے کو قومی سیاسی ایجنڈے میں تبدیل کرکے جدو جہد کو اگلے مرحلے میں پہنچانا لکھا تھا۔ تاریخ کا فیصلہ آج بھی یہی ہے اور کل بھی یہی ہوگا کہ حاصل بزنجو نے اپنے والد کے ان ہی تصورات کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو یہی علم ان کے ہاتھ میں تھا۔