باحجاب خاتون

حیا اور حجاب

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حمادیہ صفدر :

حیااورحجاب الفاظ ذہن میں آتےہیں توایک شرم وحیا کا لبادہ اوڑھےہوئے ، نظریں جھکائے ہوئے باپردہ سی لڑکی کاتصورذہن میں آتا ہے ۔

تعلیماتِ اسلامیہ محض عورت پرہی حیا کولازم نہیں کرتیں بلکہ شرم وحیا کا لباس مرد اورعورت دونوں پرہی لازم ہے۔ قرآن جب غضِ بصرکا حکم دیتا ہےتومرد کوپہلےمخاطب کیاگیا ہے۔

فرمانِ خداوندی :۔
” اےنبیﷺ مومن مردوں سےفرما دیں کہ وہ اپنی نظریں بچا کررکھیں اوروہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ “

پھراسی سےمتصل حکم عورتوں کودیا گیا۔
” اےنبیﷺمومنہ عورتوں سے فرمادیں کہ وہ اپنی نظریں بچا کررکھیں اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اوراپنی زینت کوظاہرنہ کریں “۔

بدنگاہی بے سکونی کی وجہ کیسےنہ ہو
بدنگاہی جرم ہے تو پھر سزا کیسے نہ ہو

حکمِ حجاب
اسلام پردے کا حکم دے کرعورت کوقید نہیں کرتا بلکہ اسے برائی سےبچانےاوراس کی عزت کی حفاظت کا انتظام کرتا ہے۔ کہاجاتاہے کہ پردہ کرنے سےکیا ہوجاتا ہے، نیت صاف ہونی چاہیے؟
لیکن اس طرح کی باتیں کرنے والے لوگ جان لیں کہ جب حکم حجاب آیا توان مستورات نے بھی اپنے آپ کوچادروں میں چھپایا جن کے حیااورشرم کی گواہی دینے کیلیے قرآن بول اٹھا تھا۔

ارشادِ ربانی :۔
” اےنبیﷺ اپنی ازواج سے اوراپنی بنات سے اور اہلِ ایمان عورتوں سےفرمادیجیے کہ وہ اپنے اوپرچادروں کےپلو لٹکالیاکریں یہ بہترطریقہ ہےکہ وہ پہچان لی جائیں اورنہ ستائی جائیں “۔

لمحہءِ موجود میں بےوزن سوال اٹھانے والا ہرفرد متوجہ ہو!
کہ اس حکمِ حجاب پراولین عمل کرنے والی عورتیں نبیﷺ کی ازواج مطہرہ، آپ ﷺ کی بنات اور آپ ﷺ کی صحابیات تھیں جنھوں نے اس حکم کوسنا اورمکمل رات / رات کوتا دیران کے دیےجلتے رہے اورانھوں نے اپنے گھروں میں موجود چھوٹے چھوٹے کپڑوں کوسلائی کرکے اپنی چادریں بنالی تھیں تاکہ صبح فجرکی نمازمیں بے پردہ نہ جانا پڑے ۔ کہیں حکمِ رب اکبر اورحکمِ نبی ﷺ میں کمی کوئی کوتاہی نہ ہوجائے۔

غیرمحرم سےہم کلام ہونے کاطریقہ
اگرکسی غیرمحرم سے بات کرنا پڑتی ہے تو قرآن یوں رہنمائی کرتا ہے:

” تم دبی ہوئی آوازمیں بات نہ کرو کہ جس کے دل میں مرض ہے وہ لالچ کرلے۔ اوراپنے گھروں میں ٹک کررہو۔اوردورجاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو“۔

گھروں میں ٹکنے سے مراد یہ نہیں کہ گھروں میں مقید ہوجائو بلکہ اس سےمراد یہ ہےکہ تم بلاوجہ بغیرکسی عذرکے گھرسےنہ نکلو۔

اورجاہلیت کی سی سج دھج سےمنع فرمایا۔
جاہلیت کی زینت دوطرح سے ہے:

1۔ایامِ جاہلیت میں عورتیں گلے میں گلوبند پہنتی تھیں اورکانوں میں بالیاں پہنتی تھیں پھران کودکھانے کیلیے دوپٹہ سرکےاوپرلےکرکانوں کے پیچھےسےکمرپرجبکہ سینے پرصرف قمیض ہی ہوتی تھی، اس سےمنع کیاگیاہے ۔

اوردوپٹےکےتین فرائض بتائے گئے ہیں:
سرڈھانپنا
سینہ ڈھانپنا
کمرڈھانپنا

2۔امام رازی ؒفرماتےہیں کہ
جاہلیت کےوقت میں مرداورعورتوں میں نظامِ مخلوط پرکوئی پابندی نہ تھی۔ مرداورعورتیں اکٹھے بازاروں میں چلا کرتے تھے ۔ اس نظام مخلوط سے منع فرمایا گیا ہے۔

لیکن اگرہم جائزہ لیں توہم دیکھتے ہیں ہمارےمعاشرے میں ” کو ایجوکیشن “ ہے۔ اورمختلف پہلوؤں میں اس لعنتی نظامِ مخلوط کا دوردورہ ہے جس میں مرد اورعورتیں ساتھ ساتھ ہوتےہیں۔ یہ سراسرحکمِ شریعہ کی خلاف ورزی ہے۔

جنت پانےکیلیےعورت کیا کرے؟
فرمان نبویﷺ
عورت نمازِ پنجگانہ اداکرے۔
رمضان کےروزےرکھے۔
اپنےخاوند کی اطاعت وفرمانبرداری کرے ۔
اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے۔
ایسی عورت کوحکم ہوگا کہ جنت کے آٹھ دروازوں میں جس سے چاہے داخل ہوجائے۔
(مشکٰوةشریف)

اس حدیث کے مطابق عورت کیلیے جنت پانا مشکل نہیں ہے، بس ! وہ چارافعال احسن طریقے سے انجام دے۔

جن عورتوں کوجنت کی خوشبونہیں ملے گی:

آنحضرت ﷺ نےفرمایا:
” عورتیں لباس پہن کربھی برہنہ ہوتی ہیں۔ خود مائل ہوتی ہیں، دوسروں کواپنے اوپرمائل کرتی اوران کے سربختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ہوتے ہیں ۔ ایسی عورتیں جنت میں داخل نہ ہوسکیں گی اورنہ ہی خوشبوئے جنت کوپاسکیں گی۔ حالانکہ جنتیوں کواس کی خوشبو500 میل کی مسافت سے آنے لگے گی ۔

لباس پہن کربرہنہ ہونےکی محدثین نے دووجوہات بیان کی ہیں:

1۔ لباس بہت باریک ہوگا۔
کہ دیکھنےوالےکواس میں ہرعضونظرآئے گا۔

2۔ لباس تنگ ہی اتنا ہوگا کہ دیکھنے والا بندہ سمجھ جائے گا کہ یہ عورت کا فلاں عضو یہ فلاں عضو ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں باریک لباس بھی موجودہے جس کااستعمال عام ہے۔

اوربختی اونٹوں کی کوہانوں سےسرکوتشبیہ دینےسےمراد سروں کےجوڑے ہیں جوبہت اونچےاوربڑےبڑے کہ دوپٹہ لےکرنمایاں ہوتے ہیں ۔

اسلام میں عورت کےمقامات

اسلام نےعورت کومختلف حیثیتوں سےنوازا ہےاور مختلف طریقے سےدرجات عطا کیے ہیں۔
بیٹی۔ ماں باپ کی نورِ نظر
بہن ۔ بھائیوں کی غیرت
بیوی ۔ شوہرکی عزت
ماں ۔ یہ رتبہ دے کراللہ اپنی جنت بھی عورت کے قدموں میں رکھ دیتے ہیں ۔
لیکن یاد رہے کہ یہی رشتے ہیں جوعورت کی عزت کےمحافظ ہیں ۔اوراگرعورت بے پردہ وبدچلن ہو اور یہ رشتےاس کی محافظت کاحق ادا نہ کریں تویہ ان سب سے جنت کا داخلہ روک لے گی ۔

بےحجابی کےعلاوہ جوچیزیں مردکوکشش کرتی ہیں:

1۔عورت کی چال
اگرعورت زمین پردھیمےطریقے سے چلنےکے بجائے جابجا پاؤں مارتے ہوئے چلے توبھی مرد متوجہ ہوتے ہیں اوراس کے چال چلن کاجائزہ لیتے ہیں ۔ اور اگرکوئی چھنکنے والی چیزیعنی چوڑیاں اورگھنگرو لگے ہوں تواس قسم کی جھنکارسے بھی مرد مائل ہوتےہیں۔

2۔خوشبوکااستعمال:۔
عورت کوبالکل ہی خوشبوکےاستعمال سےمنع نہیں کیاگیا بلکہ گھرسے نکلتے وقت عورت اتنی تیزخوشبواستعمال نہیں کرسکتی کہ بازارمیں موجود تمام مرد حضرات اس کی خوشبومحسوس کریں ۔

نبیﷺنےفرمایا:
” جس وقت کوئی عورت خوشبولگا کربازار میں آجاتی ہےاوراس کی خوشبو مرد حضرات محسوس کررہےہیں تو جتنے لوگ اس کے بدن سے آنے والی خوشبو کو محسوس کرتے ہیں اللہ سب کے ساتھ اس عورت کازنا لکھ دیتے ہیں “۔
(ترمذی کتاب الترجل)

ایک مرتبہ سیدناابوہریرہؓ بازارسے گزر رہے تھے کہ انھوں نے سامنے سے ایک عورت کوآتے دیکھا جب یہ عورت ان کے پاس سے گزری تو انھوں نے اس کے بدن سے آنے والی خوشبو کو محسوس کیا۔
فرمایا: بی بی ٹھہرجا۔
بی بی! کہاں جارہی ہو؟

کہنےلگی: میں مسجد جا رہی ہوں ۔
پوچھا: نماز پڑھنےجارہی ہو؟
بولی : جی ہاں نماز پڑھنےجارہی ہوں ۔

فرمایا: بی بی سن لو
مجھےاس ذات کی قسم جس کےقبضہءِقدرت میں میری جان ہے۔ میں نے اپنے کانوں سےنبیﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔

” جوعورت خوشبولگا کرمسجد میں چلی جائے وہ جب تک واپس پلٹ کرغسلِ جنابت نہ کرے اس وقت تک میراپروردگاراس کی کوئی عبادت قبول ہی نہیں کرتا “۔
(ابوداوٗدشریف)

حیاجن کی حیات کاحصہ تھا:

قرآن ایسےلوگوں کےتذکرے بڑی شان سے بیان کرتا ہے جنھوں نے اپنی زندگیاں حیا کےدائرے میں رہ کر گزاریں۔
ان لوگوں کےنام درج ذیل ہیں:

1۔ سیدنایوسف ؑ
2۔ سیدہ مریم ؑ
3۔ سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ وطاہرہ(جن پرتہمت لگی توگواہی خودذاتِ باری تعالٰی نے دی)
4 ۔ سیدناموسٰی ؑ
اورسیدنا شعیب ؑکی نورِ نظر۔
اورسیدنا عثمان ابن عفان ،حدیث میں ذکرہےکہ فرشتےبھی ان سےحیاکیاکرتے تھے۔

قصہ سیدناموسٰی
مدین کےکنویں پرموجود بھوک کےاحساس میں اللہ کوپکاررہےہیں۔ فرمایا: موسٰی پریشان نہ ہو۔اتنےمیں شعیبؑ کی بیٹی آئی ۔
اب یہ لڑکی اپنے گھرسے چلی تواللہ نے قرآن میں تذکرہ کیاکہ وہ کیسےچلی ۔
ترجمہ۔ پس ان دونوں میں سےایک چلی اورحیاکےساتھ چلی ۔( القصص)

وہ حضرت موسٰی ؑ کے پاس آئی اوربولی کہ میرے بابا آپ کو بلا رہے ہیں۔ حضرت موسٰی ؑنے چلنا شروع کردیا۔لڑکی آگے اورموسٰیؑ پیچھے تھے کہ ہوا آئی اوراس لڑکی کی پنڈلی ننگی ہوگئی ۔ موسٰی ؑنےفرمایا بی بی ! تم پیچھے ہوجاؤ میں تمھارے آگے چلنا چاہتا ہوں اور اپنی جھولی میں پتھررکھ لوجدھرکومڑنا ہو پتھر پھینک دینا میں مڑجائوں گا۔
(ابنِ کثیر)

یہ تقاضا ہے حیا کا موسٰی ؑنبی کا اور شعیب ؑ کی نورِ نظرکا جس کا چلنا بھی قرآن نے بتایا۔
یہی توروشن آبگینے تھے جنھوں نے اس قدرحیا کےساتھ زندگیاں بسرکیں کہ تاریخ اپنے اوراق میں ان کے تذکرےکرنا نہیں بھولتی ۔

اب ہم سیدنا موسٰی ؑ کےطرزِ عمل کودیکھتے ہوئے اپنےمعاشرے کا جائزہ لیں توہم دیکھتےہیں کہ ہمارے نوجوان مکمل رات میں برہنہ مجرے دیکھتے رہتے ہیں اور زبان سےدعوٰی یہی ہے کہ ہم ہی عاشقِ رسول ہیں۔

جن لوگوں پرجنت حرام ہے

خاوند پراپنےاہل پرکڑی نظررکهنا بےحد ضروری ہے اگروہ ایسا نہیں کرتا تو وعیدِ نبویﷺ ہے۔
آپ ﷺ نےفرمایا:۔
تین طرح کےلوگ جنہیں کبھی جنت نہ مل سکے گی ۔
1۔دیوث
2۔عورتوں کاحلیہ اپنانےوالا مرد
3۔شراب پرہمیشگی کرنےوالا۔

دیوث کون ہے؟؟؟؟؟؟
جومرداپنےاہل والوں میں بےحیائی دیکھے اورخاموش رہےاوروہ جواپنے اہل والوں کوبےپردہ بازاروں لیے پھرے۔

قصہ دیوث کی اہلیہ چادرمیں لپٹ گئی:۔
نواب صدیق الحسن صاحب ،محدث ، اپنے دورمیں حدیث کےمشہورومعروف معلم تھے۔
ایک دفعہ اپنےشاگردوں کوحدیث کی تعلیم دیتےہوئے فرمانےلگے۔
” جنت کے دروازے پرلکھا ہوا ہے
” دیوث جنت میں داخل نہیں ہوسکےگا “
توطلباء نے پوچھا کہ استادِ محترم دیوث کسے کہتے ہیں؟
فرمانےلگے: صرف بتادوں یا دکھا بھی دوں ؟
کہنےلگے: اگردونوں کام ہوجائیں تو زیادہ بہترہے۔
فرمایا: شام کوفلاں وقت فلاں پارک میں آجانا۔

مقررہ وقت میں وہ شاگرد آپ کےپاس آئے اور پوچھنےلگے کہ استادِ محترم آپنے دیوث دکھانے کا کہا تھا۔
وہ اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرکےفرمانےلگے:
یہ دیکھو میری بیوی میرے ساتھ بے پردہ ، میں اسے لے کر بازار میں پھر رہا ہوں ۔ میں ہی وہ دیوث ہوں ۔

اورفرمانے لگےکہ میں نماز روزوں کے علاوہ نفلی نمازیں اور روزوں کا بھی مہتمم ہوں، صدقات بھی کرتا ہوں لیکن جنت میں نہیں جاسکتا۔

بیوی پران باتوں کااتنا اثرہوا کہ اپنے دورمیں معروف شخصیت ، احکامِ شریعہ پرعمل پیراہونے والا میراخاوند صرف میری وجہ سےجہنم میں جائے گا؟
جب واپس گھرگئی تو اپنے خاوند سےکہنے لگی: یہ چادراپنے ہاتھوں سےمجھ پراوڑھادیں اب کبھی اتری ہوئی نہ پائیں گے۔

اس لیے دورِ حاضرکےمردحضرات کوچاہیے کہ وہ اپنے اہل والوں کےحیا وحجاب کا خیال رکھیں۔

کہاں کھوچکی ہیں
امت کی بہنیں اورمائیں
اوڑھ لوسب اپنےاوپر
حیاکی ردائیں
رب عطاکرے گا تم کو
اپنی رضائیں

جوچیزظرف سےباہرہو

1۔ حدوداسلامیہ میں حیاعورت کا ظرف حجاب لباس ہے۔ اگرکوئی عورت اس کو پامال کردے تواس کی مثال اس دودھ کی سی ہے جوابل کرباہرنکل آئے اور گھر والی اسے سنک میں نچوڑدے۔ اس کی قدرنہیں ہے۔ حالانکہ ہےتووہ بھی دودھ لیکن ظرف سےباہرآگیا۔
اسی طرح جوعورت ظرف سےباہرآجائے اس کی بھی معاشرہ قدرنہیں کرتا۔

2۔ اوراق جب تک محفوظ جلد کےاندربند ہوں تب ہی ان کوکتاب کہا جاتا ہے ۔
اسی طرح عورت جب تک حیا کے لبادے میں ہو تو اس کی قدرکی جاتی ہے ورنہ بے پردہ عورت کو زمانے میں کوئی عزت نہیں دیتا۔

ہمارےمعاشرے کے کئی لوگ گرمی کا رونا روتے ہیں اور اپنی عورتوں کو پردے سے روکتے ہیں ۔ لیکن جب وہی عورت مرجاتی ہے تو اسی گرمی میں اس کے نرم ونازک بدن پر اتناسخت اور موٹا لباس کیوں ڈالتے ہیں ۔

میں تو دکھ بھری اس داستان کوسمیٹتے ہوئے آخرمیں یہی کہنا چاہوں گی:

احساس کے انداز بدل جاتے ہیں وگرنہ
آنچل بھی اسی تارسے بنتا ہےکفن بھی


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “حیا اور حجاب”

  1. نبیلہ شہزاد Avatar
    نبیلہ شہزاد

    ماشاءاللہ۔ حمادیہ نے بہت اچھی اور معیاری ومعلوماتی تحریر لکھی ہے