کیا آپ بھی کریم بخش کی طرح خوشحال بننا چاہتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

گوشت کو برانڈ بنائیے
اگر آپ کے پاس دس لاکھ روپے، گاؤں میں تھوڑی زمین اور لیبر سے کچھ تعلقات ہیں تو پھر کریم بخش کی طرح گوشت کی دوکان بنا کر آپ بھی اپنے لئے خوشحالی کا دروازہ کھول سکتے ہیں ۔ تین چار برس پہلے اس نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ، اور آج اس کی معاشی حالت دیکھ کے لوگ رشک کرتے ہیں ، پیشہ کے اعتبار سے وہ قصاب تھا ، اس نے گوشت کے قدیمی بزنس کو برانڈڈ شکل دی ، عام پھٹہ سے دوکان تک پہنچا اور مہذب ترین طریقہ سے اے سی اور فریزر لگا کر گوشت کی فروخت شروع کی اور آج اس کا سلاٹرنگ ہاؤس شہر بھر کی ہوٹلوں کو گوشت مہیا کر رہا ہے ۔۔ پہلے وہ بھی اپنے دیگر رشتہ داروں کی طرح ایک پھٹہ پہ گوشت بیچا کرتا مگر جب سے اس نے اس پیشہ کو مہذب شکل دی اس کے دن ہی بدل گئے ، اپنے گاؤں کی دو کنال زمین کے گرد باڑ لگائی ، جانوروں کے لئے پانی اور گرمی و سردی سے تحفظ کا انتظام کیا ، دو مزدور رکھے ، گھاس کے لئے ایک ایکڑ زمین وقف کی ، منڈی سے بکریوں اور بھینسوں کے بچے خریدنا شروع کئے ، اور کام پہ لگ گیا ، دو تین ماہ اچھی خوراک دینے کے بعد جب وہ خوب موٹے تازے ہوجاتے تو ” کے بی سلاٹرنگ ہاؤس ” میں انہیں ذبح کرکے گوشت کی پیکنگ کی جاتی اور پھر یہ پیکٹ ہوٹلوں تک پہنچا دئیے جاتے ، کام کی نوعیت بڑھتی گئی اور گاہکوں کی تعداد بھی ، ۔۔۔ شادیوں اور تقریبات کے لئے بھی سروسز دی جانے لگیں ، جیسے جیسے سروسز بڑھتی گئیں وہ جانوروں کی تعداد بھی بڑھاتا گیا ، عام طور پہ وہ کمزور سے جانور خریدتا جو کہ اسے سستے مل جاتے ، تین ماہ کی خوب خاطر مدارت سے جب ان کی کیفیت بہتر ہوجاتی تو ان کو ذبح کردیا جاتا ، اگر آپ اس کام میں دلچسپی رکھتے ہوں تو اس بزنس کے لئے آپ کو قریبی گاؤں میں ایک باڑہ ، شہر میں دوکان اور دو سے تین ملازمین اور بیک وقت چار سے پانچ بڑے جانور اور دس پندرہ بکریوں کے بچے درکار ہوں گے اس کے بعد مارکیٹنگ اور کام شروع۔۔۔ذبح کرنے کاکام خود سیکھ لینا بہتر رہے گا وگرنہ اخراجات بڑھ سکتے ہیں ، تمام ہوٹلز اور ٹینٹ سروسز تک اپنا پیغام پہنچادیا جائے تو حیرت انگیز ابتدا ہوسکتی ہے ، شاپنگ بیگ پرنٹڈ ہوں اور دوکان پہ صفائی اور نفاست کے ساتھ فریزر بھی موجود ہونے چاہئے جہاں پہ گوشت سٹاک کیا جاسکے۔۔

مرغی فارم کے اندر جدت اختیار کیجئے:
اگر آپ کے پاس آٹھ لاکھ روپے ہیں تو پھر رفیع الدین کی طرح جدید مرغی فارم بنا لیجئے محنت اور قسمت کا ملاپ ہوجائے تو رزق ساون بھادوں کی طرح برسنے لگے گا ، رفیع الدین نے پرانے طرز کے فارم کی جگہ ایک جدید سسٹم اپنایا ، ایک ایک ہزار مرغی کے لئے الگ الگ فارم بنائے ، اور مختلف وقتوں میں مرغیاں پالنا شروع کیں ، بجائے مرغی کے فروخت کرنے کے اس نے گوشت کے کھوکھے بنوائے اور مزدور رکھ کے خود ہی شمالا جنوبا 120×28 سائز کا فارم بنانے پہ چار سے پانچ لاکھ روپے خرچ ہوں گے ، ڈیڑھ لاکھ تک کا سامان آئے گا ، یہ فارم 2 ہزار برائیلر مرغی کےلئے کافی ہوگا ، 24 گھنٹوں کے لئے دو مزدوروں کی ضرورت ہوگی ، چالیس دن کی محنت سے مرغی گوشت کے لئے تیار ہوگی چوزے کی قیمت ، فیڈ ، پانی ، میڈیسن ، ویکسی نیشن اور خدمت پہ تقریباً تین لاکھ روپے خرچ ہوجائیں گے اور یہ تیار مرغی فی کلو کے حساب سے فروخت ہوگی، عام طور پہ لوگ چوزہ ، خوراک اور میڈیسن ادھار لیتے ہیں اور مال کی تیاری کے بعد فروخت کے وقت رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے ، تیار شدہ مال کی خریداری عام طور پہ وہی کمپنی کرتی ہے جس سے خوراک ، میڈیسن وغیرہ لی جاتی ہے لیکن اس میں ریٹ زیادہ لگایا جاتا ہے اگر چوزہ ، دوائی اور خوراک کی خریداری نقد ہو تو زیادہ فائدہ ہوتا ہے، رفیع الدین نے بھی ایسا ہی کیا ، چوزہ ، خوراک اور میڈیسن نقد داموں خرید کئے اور جب چوزہ تیار ہوگیا تو اس نے گوشت کی فروخت کے لئے اپنا کھوکھا لگالیا، دھیرے دھیرے وہ لیبر اور کھوکھے بڑھاتا گیا ، فارم کا سائز بھی بڑا ہوتا گیا اور سارے کا سارا مال خود اسی کے پوائنٹس پہ فروخت ہونے لگا ، رفیع الدین کا یہ آئیڈیا کام کرگیا ، آج اس کے پندرہ فارم اور چالیس گوشت کے اڈے ہیں ، سارا گوشت اس کے اپنے پوائنٹس پہ بکتا ہے، ایک فارم پہ مال ختم ہوتا ہے تو دوسرے پہ تیار ہوتا ہے اسی طرح اس کا سلسلہ سارا سال چلتا رہتا ہے۔۔

انڈے بیچئے :
داؤد خان کا سلسلہ دو دوکانوں سے شروع ہوا اور شہر بھر کی بیکریوں تک پھیل گیا ، ہر سویٹ مارٹ پہ انڈوں کی ترسیل داؤد خان کرتا ، دو تین شہروں کے قرب وجوار میں موجود لئیر فارمنگ سے وابستہ لوگوں سے روابط بڑھائے ، خریداری کے معاہدے کئے ، اور شہر بھر کی دوکانوں کا ڈیٹا جمع کرنے لگ گیا ، ایک ماہ کی مسلسل جدوجہد کے بعد ایک MBA لڑکا رکھا اور ٹیلی مارکیٹنگ شروع کردی ” داؤد ایگ سنٹر” سے نعمان بول رہا ہوں کیسے ہیں سر آپ ؟؟” پھر آرڈرز ملنے لگے اور کام پھیلتا گیا ، اگر آپ کے پاس دو لاکھ روپے ہیں تو انڈوں کا بزنس شروع کردیجئے ، گرمیوں میں سٹاک کو کولڈ سٹوریج رینٹ پہ لے کے رکھا جا سکتا ہے ،سردیوں میں انڈے کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور اچھا ریٹ ملتا ہے ، اگر آپ کے پاس انویسٹمنٹ کم ہو تو دس پندرہ ہزار سے مصری اور گولڈن چوزہ بھی پالا جا سکتا ہے اس سے بھی خاطر خواہ نفع ہوگا ۔۔

دودھ کو پروڈکٹ کی شکل دیجئے:
غلام علی کی طرح گاؤں سے دودھ شہر کی طرف لائیے اور کریم نکالے بغیر فروخت کیجئے ، وہ روزانہ چار سے پانچ من دودھ فروخت کرتا ہے اور اس کی بچت سے آہستہ آہستہ بھینسیں اور گائیاں خریدتا جا رہا ہے ، دو چار سال میں دودھ کی پروڈکٹ اس کی اپنی ہوگی ، خریدنا نہیں ہوگا اور جانور بھی محفوظ رہیں گے ، قربانی کے موقع پہ جانوروں کی خرید وفروخت بھی کرسکتا ہے ، اگر وہ چاہے تو کریم نکال کے دہی ، لسی اور مکھن کا پوائنٹ بھی بنا سکتا ہے ، ایک دوکان لے کر وہیں پہ دودھ سے متعلقہ تمام پروڈکٹس فروخت کی جا سکتی ہیں ۔۔اگر آپ کے پاس تین لاکھ روپے ہوں تو تین بھینسیں یا چار گائیاں لے لیجئے اور دودھ کی پروڈکٹس بنا لیجئے ان شاء اللہ یہ آپ کی خوش حالی کا پہلا قدم ثابت ہوگا ۔۔

سائیلیج سنٹر بنائیے:
گاؤں اور دیہات کی زمینیں رزق اگلتی ہیں ، خوشاب کے رہائشی اسلم پنیاں نے زمین سے برآمد ہونے والے باجرہ ، مکئی اور جوار کو جانوروں کے لئےمحفوظ کرنے کا سوچااور اس کو عملی شکل میں ڈھالنے کی ٹھان لی ، چار کنال زمین کے گرد چہاردیواری کھڑی کی اور گھاس خریدنا شروع کردیا ، چار سے پانچ ایکڑ تیار شدہ گھاس خرید کر ٹوکہ مشین پہ کترنا شروع کیا اور ڈھیر لگاتا گیا ، پھر مکئی خریدی ، کھل بنولہ اور دیگر کچھ اشیاء خرید کر مکس کرکے ڈھیر لگادیا ، درکار مشینری خریدی اور ٹریکٹر چلادیا ، حجم رکھنے والے شاپر سے اس گھاس کو ڈھک دیا تاکہ ہوا کا گزر نہ ہوسکے ، زیادہ سے زیادہ ایک ماہ بعد گھٹے تیار تھے اور پھر محفوظ طریقہ سے وہ گھٹے منڈی پہنچا دئیے گئے ، نہ بھوسے کی ضرورت اور نہ خوراک کی ۔۔۔ دونوں ضروریات کفایت کر جاتی ہیں ۔۔اگر آپ کے پاس چھ لاکھ روپے ہوں تو یہ سراسر منافع کا بزنس ہے ، شہر میں بھی سائیلیج فروخت کیا جاسکتا ہے یہ گھاس اور خوراک دونوں کی ضرورت پوری کرتا ہے۔۔

بیوپار کیجئے:
اگر آپ ہوشیار ہیں اور جانوروں کا ذوق رکھتے ہیں تو بشیر خان کی طرح منڈی میں بیوپار کیجئے ، ہفتے کے ساتوں دن مختلف جگہوں پہ جانوروں کی منڈیاں لگتی ہیں ، وہ دو لاکھ روپے جیب میں رکھتا اور منڈی پہنچ جاتا ، وہاں جاکے کوئی جانور خریدتا اور وہیں پہ دو تین ہزار نفع پہ بیچ دیتا ، اس بیوپار سے وہ روزانہ دو تین سودے کرلیتا ، کبھی کبھار نقصان بھی ہوتا مگر اکثر دو تین ہزار لے کر ہی وہ گھر لوٹتا ، جانوروں کا تجربہ ہو ، پرکھ ہو تو اس کام سے بہتر شاید ہی کوئی نقد سودا ہو ۔۔ بشیر خان کی طرح پہلے تجربہ کیجئے پھر منڈی کے بیوپاری بن جائیے مستقبل آپ کا ہے۔۔

ڈیری فارم بنالیجئے:
اس کام کے لئے قاری مقبول کی مثال لیجئے ، وہ ایک دینی ادارہ میں مدرس ہیں ، دیہات میں رہائش ہونے کی وجہ سے جگہ کا مسئلہ نہیں تھا، ابتدا میں ایک بھینس خریدی اور روزانہ دس کلو دودھ فروخت کرتے ، گھر کی ضرورت بھی پوری ہورہی تھی اور ماہانہ اخراجات نکال کر پندرہ ہزار بھی جمع ہو رہے تھے ، چھ ماہ بعد نوے ہزار ادا کرکے ایک اور بھینس لے لی ، دودھ کی مقدار بڑھ گئی اور پھر یوں سلسلہ بڑھتا گیا دو سے چار اور چار سے آٹھ ۔۔۔ ملازمین کی تعداد بھی بڑھتی گئی ، گھاس کے لئے قاری صاحب نے زمین مستاجری لے لی ، وہ خود صرف نگرانی کرتے ، نظام کو سنبھالنے کے لئے انہوں نے اپنے بھائی کو ساتھ ملالیا اور آج آٹھ سال ہونے کو آئے ہیں اور قاری صاحب کے فارم سے چار من دودھ روزانہ کی بنیاد پہ حلیب کمپنی کو جارہا ہے۔۔ اگر ہمت ہے تو پھر یہی کر لیجئے ۔۔

یاد رکھئے :
درج بالا لائیو سٹاک کے کسی بھی بزنس میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے تجربہ ضرور حاصل کیجئے وگرنہ خسارہ ہوسکتا ہے ، صرف ملازمین پہ بھروسہ مت کیجئے ، جس بھی بزنس کو شروع کرنا ہو اس کی مکمل معلومات حاصل کیجئے یہ میں نے سرسری طور پہ اشاروں اور مثالوں سے نشان دہی کی ہے اس کی مزید تحقیق آپ خود کیجئے ، جب تک آپ کو کسی کام کی گہرائی سے آگہی نہ ہو تب تک کسی بھی کام میں ہاتھ مت ڈالئے ، اگر تجربہ کی بھٹی سے گزریں گے تو یقیناً مستقبل کو کندن بنالیں گے شرط اخلاص کے ساتھ محنت کرنے کی ہے ، ہاتھوں میں تیشۂ فرہاد ہو تو یقیناً پتھروں کا سینہ چیرا جاسکتا ہے ۔۔ کھوج میں لگیں گے تو یقیناً ہیرے تلاش لیں گے جو آپ کے ارد گرد کہیں کہیں موجود ہیں ، رزق بکھرا پڑا ہے بس متلاشی چاہئے ۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں