نجمہ ثاقب :
رات اتنی گہری نہیں ہوئی تھی۔ مگر ٹبّے والی نہر کے کچے پر تاریکی یوں بچھی بیٹھی تھی جیسے گاڑھے کے ریشم کی سیاہ بانات ہو۔ فضا میں معمولی سا حبس جسے وقفے وقفے سے چلنے والی ہوا کے اتفاقی جھونکے اچانک چھیڑتے تو کنارے پر ایک ہی سیدھ میں لگے سفیدوں کے پتے تالیاں بجانے لگتے۔ کہیں کہیں کائی کھائے سبزے میں اکا دکا جھینگر بول پڑتا اور پُل سے پرے ’’بڈھے پیر‘‘ کے مزار کے احاطے میں پرانے برگد کی رسیاں لٹکاتی شاخوں پر بوڑھے الو کی آنکھیں گول گول گھومنے لگتیں۔
ایسے میں جب وہ دونوں پل کے پار نشیب میں اترے، تو کلونس کھائے ماحول کا ایک حصہ ہی معلوم ہوتے تھے۔ دونوں نے اپنے چہروں پر کَس کے ڈھاٹے باندھ رکھے تھے۔ چودھری شیر کے داہنے ہاتھ میں لوہے کی ’’کھرپی‘‘ اور لمبا سا خنجر تھا۔ جبکہ ’’ماکھے‘‘ نے جدید طرز کا ریوالور تھام رکھا تھا۔ اس کا جسم کسرتی تھا اور چال میں چودھری کی نسبت پھُرتی اور فطری سا بہاؤ تھا۔ اس نے دانستہ خود کو اس سے دو قدم پیچھے رکھا ہوا تھا۔ نشیبی حصہ کھیتوں کے دائرے میں اُترا، تو چودھری نے رُک کر دائیں بائیں دیکھا۔ پھر دور ’’رانجھوں ‘‘ کے ڈیرے پر ٹمٹماتی لرزتی مدقوق روشنی پر نظریں گاڑ کر بولا:
’’لے ماکھے! یہاں تک تو پہنچ آئے ہیں۔ اب آگے بھی اللہ کا آسرا ہے۔‘‘ کالے ڈھاٹے کے اندر ماکھے کے کالک زدہ ہونٹ آپس میں ملے۔ مگر ان کی ہلکی بڑبڑاہٹ ڈھاٹے کی تہہ بہ تہہ سلوٹوں میں گم ہو کر رہ گئی۔ چودھری نے اپنے منہ سے کپڑا ہٹایا اور چہرہ اُٹھا کر اوپر دیکھا۔ آسمان پر تھوڑی دیر پہلے تک چھائی بدلیوں کی چادر رفتہ رفتہ ہٹ رہی تھی اور ان کے درمیان سے آدھا ادھورا چاند کا مکھڑا نمودار ہو رہا تھا۔
چودھری کی دیکھا دیکھی ماکھے نے بھی چہرہ کھول دیا اور حبس زدہ ماحول میں کھل کے سانس لینے لگا۔ چودھری کی نگاہ چاند سے ہٹ کر ماکھے کے چہرے پر پڑی اور اس کی ہنسی نکل گئی۔
’’ماکھے!‘‘ وہ پیٹ پکڑے ہنسی روکنے کی کوشش میں نیچے بیٹھ گیا۔
’’چاند بھی تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اوئے! تو تو کالی رات ہے۔ ابے کوئلے کے دلال اس وقت تجھے سلطان خان دیکھ لے تو بھوت جان کر یہیں چِت ہو جائے۔‘‘
ماکھا چُپ کھڑا رہا۔ اس کا چہرہ کسی پتھر کی طرح جامد اور سپاٹ تھا۔ چودھری کے لیے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ ماکھے کو اس کے زیرِسایہ آئے پندرہ سال تو ہونے کو تھے۔ اس عرصے میں چودھری نے تو کیا، کسی نے بھی اس کے چہرے پر کبھی جذبات کا مدّوجزر نہ دیکھا تھا۔ وہ بحرِ منجمد کے اُن افتادہ ساحلوں کا سا تھا جن پر برف اپنے اثرات ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتی ہے اور ان کی کٹی پھٹی شورہ زمین پر جلی بھسی کائی بھی نہیں اُگتی۔
حتیٰ کہ آس پاس جھنکتی سرگوشیاں بھی اس پر اثرانداز نہ ہوتیں۔ لوگ کہتے تھے:
’’ماکھا بے حس ہے اور بے حس پر کسی بات کا کیا اثر۔‘‘
کوئی کہتا ’’چودھری نے لونڈا کَس کے رکھا ہوا ہے۔ مجال ہے پٹھّے پر ہاتھ دھرنے دے۔
گاؤں کی سب سے بوڑھی اور تجربہ کار ’’مائی بھاگی‘‘ نے تو یہ تک کہہ دیا ’’ماکھے پر کسی ہوائی چیز کا اثر ہے جس نے بالک عمر میں اسے پتھر کا کر دیا تھا۔
نیا نیا شہر کے سکول میں جا کر پڑھنے والے سلیم احمد نے اسے ’’روبوٹ‘‘ قرار دیا اور پھر سب کو مثالیں دے دے کر جَتنوں سے سمجھایا کہ امریکا کے لوگوں نے کس طرح بجلی کے بندے بنائے ہیں جو بٹن دباتے ہی اُن کی ہدایت کے مطابق حرکت کرتے ہیں تو سب دل ہی دل میں مان گئے کہ ماکھا بھی کوئی ایسی ہی چیز ہے۔ جس کا بٹن ہمیشہ چودھری شیر کے ہاتھ میں رہتا ہے اور مضبوط بدن اُس کی ہدایت پر حرکت کرتا ہے۔
اس وقت بھی چودھری اس کی بے تحاشا سیاہ اور کلونسی رنگت پر چوٹ کرتے ہوئے ہنس رہا تھا اور ماکھا یوں کھڑا تھا جیسے گندم کے کھیتوں میں الٹی سیدھی لکڑیوں سے بنایا پتلا جو چڑیوں کو فصل سے دور رکھنے کو گاڑا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر تک اکیلا ہی ہنستے رہنے کے بعد چودھری ’’ریتی‘‘ کا سہارا لیتے اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنی بھوسلی بھنوؤں کو سکیڑ کر ماتھے کے اوپر ہتھیلی کا چھجا سا بنا کر رانجھوں کے ڈیرے کی طرف بغور دیکھنے لگا۔
’’تیرا کیا خیال ہے ماکھے، سلطان خان آج ڈیرے پر اکیلا ہو گا؟‘‘
’’اطلاع تو ایسی ہے مالک۔‘‘ ماکھے نے اب کی بار لب کھولے۔
’’اسے ہونا بھی اکیلا ہی چاہیے۔ چودھری نے گردن کو آگے پیچھے ہلاتے ہوئے کہا۔ کوئی ایک آدھ بندہ شادی پر جانے سے رہ بھی گیا ہو تو کوئی بات نہیں۔ چودھری شیر کے بازوؤں میں ابھی بہت طاقت ہے اور میری سب سے بڑی طاقت تو تُو ہے ماکھے تُو۔‘‘ چودھری نے اس کی پیٹھ تھپکی۔ اُسے لگا اس کا ہاتھ لکڑی کے بے ڈھب تختے سے ٹکرا کر رہ گیا ہو۔
تھوڑی دور چل کر چودھری دوبارہ رُک گیا۔
’’ہتھیار تیار ہے ناں ماکھے؟‘‘
ماکھے کا سر اثبات میں ہلا۔ ’’جی مالک۔‘‘
’’چل پھر تو بھی تیار رہنا۔ میرے پیروں میں ابھی سے گدگدی ہونے لگ گئی ہے۔ سلطان خان کی اصیل گھوڑی کی رکابیں کتنی چِکنی اور ڈھلواں ہیں۔ واہ بھئی مزہ ہی آ جائے گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے چودھری نے اپنی رفتار تیز کر لی۔
اور اس کے پیچھے ماکھے نے بھی۔ انھیں زیادہ دور نہیں جانا پڑا۔
ڈیرے کے وسیع و عریض کھلے احاطہ میں بیری اور شہتوت کے درختوں کے جھنڈ کے قریب جناتی سائز کے پایوں والی سلطان خان کی مخصوص چارپائی بچھی ہوئی تھی جس پر وہ چادر تانے دنیا و مافیہا سے بے نیاز سو رہا تھا۔ قریب ہی چند فرلانگ کے فاصلہ پر جانور بندھے ہوئے تھے، جن میں بڑے سینگوں والی بھوری بھینسوں، اعلیٰ نسل کی ساہیوالی گایوں اور دیگر چھوٹے موٹے ڈنگروں سے داہنی جانب ذرا سا پرے ہٹ کر سلطان خان کی وہ اصیل گھوڑی بندھی تھی جس کی خاطر وہ دونوں آج یہاں نظر آ رہے تھے۔ فضا میں گوبر کی باس رچی ہوئی تھی اور چاند کی اِکّا دُکّا کرنیں شہتوت کی گھنیری شاخوں سے چھن چھن کر سیدھی گھوڑی کی چکنی سفید کھال پر پڑ رہی تھیں۔
چودھری نے توصیفی نگاہوں سے اُسے دیکھا اور دبے قدموں آگے بڑھتے ہوئے ماکھے کو اشارہ کیا۔ ماکھے نے چودھری کے ہاتھوں سے ریتی پکڑی اور اُسے ہاتھ میں تولتے ہوئے دزدیدہ نظروں سے سلطان خان کی چارپائی کی جانب دیکھ کر بولا: ’’مالک! گھوڑی بول پڑی تو؟‘‘
’’تو میں اس کا علاج کر لوں گا۔‘‘ چودھری نے کندھے پر پڑی زائد چادر اتاری اور گھوڑی کے منہ کے قریب جا کر کھڑا ہو کے اُسے پچکارنے لگا۔ گھوڑی نے اجنبیوں کو اپنے قریب دیکھ کر دائیں بائیں سر ہلانا شروع کر دیا۔
ماکھا گھوڑی کے پیر میں بندھے فولادی تالے پر ریتی آزمانے لگا۔ گھوڑی اب حرکت میں آگئی تھی اور وہ ’’کِلّے‘‘ کے گرد دائرے میں یوں مسلسل چکر لگا رہی تھی گویا طواف کر رہی ہو۔ سنگلوں کی ہلکی کھڑکھڑاہٹ نے سلطان خان کی نیند میں معمولی خلل ڈالا۔ اس نے کسمسا کر کروٹ لی اور اُن کی جانب منہ موڑ لیا۔ چاند کی روشنی اب براہِ راست اُس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔
ماکھے کے ہاتھوں میں بلا کی تیزی تھی۔ گھوڑیوں کے تالے کھولنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور پھر یہ پہلا موقع تھا بھی نہیں۔ اس طرح کی کئی وارداتیں وہ چودھری کی ہمراہی میں اس سے پہلے کر چکا تھا۔ لہٰذا اب بغیر گھبرائے یا سستائے ہاتھوں کو آگے پیچھے مخصوص لَے میں حرکت دے رہا تھا اور جب تالے کا نوکیلا کیل اتنا سا اندر رہ گیا کہ اگر وہ اسے ہاتھ سے بھی پکڑ کے کھینچتا تو بلاتردد وہ اس کے ہاتھ میں آ جاتا۔ گھوڑی پوری آواز سے ہنہنائی اور اس نے اپنی اگلی دونوں ٹانگیں اوپر ہوا میں اُٹھالیں۔ چودھری نے کپڑا اُس کے منہ پر پھینکا اور اسے ہاتھوں سے دبانا چاہا۔
گھوڑی منہ زور اور مالک کی سر چڑھی تھی۔ اس نے چودھری کے ہاتھ سر مار کے دور جھٹک دیے اور پہلے سے زیادہ اونچی آواز میں ہنہنائی۔ سلطان خان ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ ہنہناتی گھوڑی اور اسے قابو میں لانے کی کوشش میں ہلکان ہوتے دو اجنبی۔ اس منظر نے سلطان خان کے بدن میں بجلی بھر دی۔ وہ پارے کی طرح تڑپ کر چارپائی سے اترا اور سینہ تان کر بولا: ’’کون ہو تم اوئے؟‘‘ ماکھے نے جھٹ تہبند کی ڈب سے ریوالور نکال لیا اور اس کا شست باندھ کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔
’’گھوڑی چھوڑ دے چودھری! میں تجھے پہچان گیا ہوں۔‘‘ سلطان خان دیہی دشمنوں کے درمیان پلا بڑھا تھا۔ ریوالور کی نالی اُسے خوفزدہ نہ کرسکی۔ اس کی بات نے چودھری کو گڑبڑا دیا۔ مگر گھاگ چور تھا۔ سلطان خان کے چہرے پر نظریں گاڑ کے بولا:
’’پہچان گیا ہے تو اور بھی اچھا ہے۔ اب تجھے پتا چل جانا چاہیے کہ ہم یاروں کے یار اور دشمنوں کے دشمن ہیں۔ چل ماکھے گھوڑی آگے لگا۔‘‘ ’’گھوڑی یہیں رہے گی چودھری…‘‘ سلطان خان نے زیرِ لب گالی بکی۔
’’سچ تو یہ ہے تجھے چودھری نہیں چور کہنے کو دل کرتا ہے۔ چار بیگھوں سے چل کر چار مربعوں تک پہنچا ہے مگر دماغ اس زمانے پر رُک گیا ہے جب تو لڑکپن میں لوگوں کی مرغیاں اور بکریاں چرایا کرتا تھا۔‘‘ سلطان خان کی بات چودھری کے سر پر لگی اور تلووں پر بجھی۔
اللہ بخشے میری بے بے کہا کرتی تھیں۔ چوری شیرو کے منہ کو لگ گئی ہے۔ جہاں کہیں اچھا جانور دیکھتا ہے رال ٹپک پڑتی ہے۔ شریف ماں باپ کے گھر ایسی اولاد چہ چہ… اِدھر اُدھر سے لپیٹ کر زمین اکٹھی کر کے لوگوں کے بیچ چودھری صاحب بن کے تو بیٹھ گیا۔ مگر چودھری بننا نہ آیا۔ ابے تیری اصلیت تو میں جانتا ہوں۔
” چُپ کر جا سلطانے وگرنہ… “ غضب کی شدت سے چودھری کا چہرہ گویا لہو سے لبالب بھرا گول کٹورا تھا جو چھلکنے کو تیار پڑا تھا۔
سلطان خان نے اس کی کیفیت کا مزہ لیا اور غالباً کسی پرانی دشمنی کا بدلہ لیتے ہوئے بولا۔ اگر تجھے یہ گھوڑی اتنی پسند تھی تو مجھ سے کہتے ، میرا ڈیرہ فقیروں مسکینوں کے لیے چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ ایک تم بھی سہی۔‘‘
’’گولی چلا دے ماکھے۔‘‘ چودھری کی اب بس ہو گئی تھی۔ سلطان خان نے اس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔ اس کے منہ پر اسے چور کہا تھا۔
اگرچہ اس بات کا اعتراف وہ یاروں کی منڈلی میں بیٹھ کر خود کرتا تھا۔ جب وہ یہ کہہ کر آپ اپنا ٹھٹھا اُڑاتا۔ ’’قسم لے لو اللہ پاک کی جو آج تک کوئی جانور پلّے سے خریدا ہو۔ اللہ بخشے میری اماں نے ایک بار بڑی حسرت سے کہا تھا۔ شیرو! ہر خوشی غمی پر دل کھول کے اُڑاتے ہو۔ اچھے سے اچھا جانور چھری تلے رکھتے تمھارا دل تنگ نہیں پڑتا۔ میرا بڑا دل چاہتا ہے کبھی کوئی جانور خانۂ خدا کے نام پر بھی دوں۔ مسجد میں کبھی تو میرے نام کی پکار پڑے۔
’’چودھری شیر کی ماں نے مسجد کے نام بھینس بھیجی ہے یا پھر چھوڑ بکری ہی سہی۔‘‘ میں نے کہا ’’اماں یہ بھی کوئی بڑی بات ہے کیا؟ تو پہلے کہتی پَر یارو! قسم لے لو اللہ پاک کی۔ جانوروں پر نگاہ ڈالی تو کوئی ایک ڈنگر بھی پاک نہ نکلا۔ اب خانۂ خدا کو ناپاک مال کیسے بھجوا دیتا۔ آخر ہوں تو مسلمان ناں ؟‘‘
اور یار لوگ ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے مگر دوسروں کو اس نے یہ جرأت نہ بخشی تھی کہ منہ در منہ اسے چور کہتے۔ پھر یہاں تو سلطان خان تھا۔ اس کا پرانا رقیب اور زمینداری میں اس کا ہم پلّہ۔ فرق اتنا تھا کہ وہ چور نہ تھا اور اس نے لوگوں کے بیچ اونچا شملہ لگا کے چودھراہٹ بھگارنے کا شوق بھی نہ پالا تھا۔
ماکھے کے ہتھیار نے شعلہ اُگلا اور گولی سلطان خان کے سینے کے آر پار ہو گئی۔ پھُرّ کی آواز سے درختوں کی ڈالیوں میں سوئے پرندے یکبارگی اُڑے اور گولی کی آواز سُن کر ڈیرے کے اندر سوئے دو چار لوگ ننگے پاؤں باہر بھاگے۔ کھیل بگڑ چکا تھا۔
سلطان خان سینہ پکڑے نیچے کو دُہرا ہو رہا تھا اور کھڑے کانوں والی گھوڑی پوری آواز سے ہنہنائے جا رہی تھی۔ ماکھے کی سوالیہ نگاہیں چودھری کی طرف اٹھیں جیسے پوچھ رہی ہوں : ’اب کیا حکم ہے مالک؟‘‘ لیکن جواب دینے سننے سے پہلے درختوں کے جھنڈ کی جانب سے اکٹھی دو گولیاں چلیں اور چودھری کی پگڑی سے ٹکراتی دیوار سے جالگیں۔ اس نے ماکھے کو نکلنے کا اشارہ کیا۔
دونوں ہوائی فائر کرتے ہوئے باہر کو بھاگے۔ لینا، پکڑنا، جانے نہ پائے کی آوازوں کے شور میں چند ہیولے اُن کے پیچھے لپکے۔ فضا میں تڑ تڑ آتشیں گولے تیرنے لگے اور وہ آگے پیچھے کھیتوں میں دوڑتے فصلوں کو روندنے لگے۔ ماکھے کی رفتار کی ازلی پھرتی اور جسم کی قدرتی لچک اسے ہوا کے جھونکے پر سوار کیے ہوئے تھی۔
وہ چاہتا تو چیتے کی سی زقند لگاتا اب تک منظر سے غائب ہو جاتا۔ مگر اس نے چودھری کا نمک کھا رکھا تھا۔ اسے پتا تھا کہ اس کا بٹن چودھری کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جب تک اُسے دبائے گا نہیں اسے اس کا سایہ بنے رہنا ہے۔وہ نہر کے کچے میں اترے تو بُری طرح ہانپ رہے تھے۔ پیچھے گولیاں متواتر چل رہی تھیں اور قدموں کی دھمک فضا کے سناٹوں کو بار بار چیرے دیتی تھی۔
’’میں اب اور نہیں دوڑسکتا ماکھے۔ ہائے سلطان کی گھوڑی کی رکابیں۔‘‘ چودھری نے اپنے گھٹنے پکڑ کر سسکاری لی۔
’’مالک!‘‘ ماکھا بولا۔ ’’رفتار کم کی تو پکڑے جائیں گے اور اگر سلطان خان مر چکا ہوا تو کل کا سورج ہمارے لیے کیا لے کر طلوع ہو گا۔ آپ کو تو اچھی طرح پتا ہے جی۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘ چودھری نے نہر کے شرر شرر گرتے پانی کے پریشر کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’ماکھے!‘‘ اس کی آنکھیں اندھیرے میں بلی کے دیدوں کی طرح چمکیں۔
’’چلو مائی تاجی کے گھر چلتے ہیں۔ وہ دیکھو۔ چند قدم پر تو ہے۔‘‘ ماکھے کے اُٹھتے قدم زمین میں گڑ گئے۔ ’’مالک!‘‘ اس کی آواز میں حیرت ڈوب ڈوب کر ابھر رہی تھی۔
’’مائی تاجی سلطان خان کی سگی پھوپھی ہے۔ وہ آپ کو کیسے بچائے گی؟‘‘
’’اوئے مورکھ!‘‘ چودھری بولا ’’مائی کو بھلا واقع کی کہاں خبر ہے۔ اس وقت اس سے اچھی جگہ کوئی نہیں۔ یہاں کھڑے رہے تو لازماً پکڑے جائیں گے۔ مائی کے گھر پر ان لوگوں کو کبھی شک نہیں ہو سکتا۔ بھلا کبھی کسی نے دشمن کے گھر بھی پناہ لی ہے؟ جب تک مائی کو خبر ہو گی ہم کہیں کے کہیں نکل چکے ہوں گے۔ ویسے بھی مائی بڑی اللہ لوک ہے۔ وہ تو اللہ کے نام پر زندگی بھر کی کمائی لٹا بیٹھی ہے۔ گھڑی دو گھڑی کو مہمان بنانا کیا مشکل ہے۔‘‘ چودھری اس مشکل وقت میں بھی ٹھٹھا لگانے سے باز نہ رہا۔
اور یہ بات تو ماکھے نے بھی سن رکھی تھی بلکہ اس بات کا تو گاؤں کے بچے بچے کو علم تھا کہ کس طرح مائی تاجی کا سارا زیور، عمر بھر کی کمائی ’’سروپاسنار‘‘ اٹھا کر لے گیا اور مائی بے وقوف نے کس طرح اُسے اللہ کے نام پر معاف کر دیا۔
سننے میں آیا ہے کہ سلطان خان کی یہ پھوپھی جوانی میں بیوہ ہوئی اور بڑھاپے میں جوان بیٹے سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ بیوگی کے زمانے میں میکے، سسرال سے ملا سارا زیور ایک پوٹلی میں باندھ کر ’’سروپ چند‘‘ کے پاس لے گئی تاکہ وہ اسے پگھلا کر خالص سونا علحٰدہ کر کے اس کی ٹکڑیاں بنا دے۔ خیر سے میرا بیٹا جوان ہو گا، تو اس کے پاس ماں باپ کی کمائی ہو گی۔ زمینیں خریدے گا اور خوشحال جوانیاں مانے گا۔
اُدھر سروپے نے کام شروع کیا اُدھر ملک تقسیم ہونے لگا۔ اس اکھاڑ پچھاڑ اور لپاڈگی میں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر قافلے آنے جانے لگے۔ اب اللہ جانے سروپے نے موقع دیکھ کر ’’مال‘‘ اُدھر منتقل کر دیا۔ یا واقعتا اُسے لوٹ کے ہاتھ لگ گئے۔
جب ملٹری کے ٹرک بچے کھچے ہندوؤں اور سکھوں کو اُٹھانے آئے تو کسی نے مائی کو ’’سروپے‘‘ کی روانگی کے متعلق بتایا۔ وہ روتی پیٹتی ٹرک کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ لوگوں نے سروپے کو نیچے اُتار لیا۔ مائی نے روتے دھوتے اپنا سونا مانگا۔ سروپے کا سر جھکا ہوا تھا اور نگاہیں زمین میں تیر کی طرح گڑی ہوئی تھیں۔ گھڑی بھر بعد بولا تو اتنا :
’’میرے پاس اپنی جان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ چاہو تو مجھے روک لو چاہو تو مجھے جانے دو۔‘‘
مائی نے ایک نظر اُسے دیکھا۔ دوسری ٹرک پر ڈالی جہاں سروپے کا بال بچہ اُچک اُچک کر باہر کو لپکتا تھا اور ملٹری کے جوان انھیں پکڑ پکڑ کر اندر دھکیلتے تھے۔
مائی کی آواز گلے میں گھٹ گئی اور آنکھیں پانیوں سے لبالب بھر گئیں۔ تو سروپا بولا : ’’تمھیں تمھارے اللہ اور رسول کا واسطہ مائی۔ مجھے معاف کر دے۔ آگے تیری مرضی۔‘‘ پھر دیکھنے والوں نے دیکھا اور سنانے والے سناتے ہیں۔ مائی نے دونوں ہاتھوں کی پشت سے آنکھیں رگڑ کر صاف کیں اور کڑک کر بولی:
’’جا میں نے تجھے اللہ کے نام پر معاف کیا۔‘‘
اس کے بعد اس نے بیٹے کو کس طرح پالا، کس طرح جوان کیا، پھر کس طرح اس کی جوانی لُٹتی دیکھی۔ سب کچھ تو سامنے تھا۔ پھر کیسے چودھری اُس پر اعتبار نہ کرتا اور کیسے ماکھا اس کے قدموں کے نشان نہ روندتا۔
مائی نے دروازہ کھولا اور بولی ’’بسم اللہ کروں اس وقت کون اللہ کے بندے آگئے۔‘‘ ’’مسافر ہیں مائی۔‘‘ چودھری کا چہرہ بدستور ڈھکا ہوا تھا اور اس کے پیچھے ماکھا کسی مقتدی کی طرح روپ سروپ میں اس جیسا بنا کھڑا تھا۔ ’’تھوڑی دیر سستانا ہے۔ اجازت دو تو گھڑی دو گھڑی ٹھہر کر چل پڑیں گے۔‘‘
’’اجازت کیسی بیٹا۔ تمھارا اپنا گھر ہے۔ چلو چل کر آرام کرو۔‘‘ وہ انھیں اپنے پیچھے پیچھے لیے اندر آئی۔ ’’اس کمرے میں دو چارپائیاں ہیں۔ کوئی روٹی پانی چاہیے ہو تو بتاؤ۔‘‘ مائی کے جسم پر چھایا رعشہ اس کی آواز میں بھی لرز رہا تھا۔
’’نہیں اماں۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ دونوں کمرے میں آ کر چارپائیوں پر ڈھیر ہو گئے۔
ماکھے نے نگاہ اُٹھا کر دیکھا۔ صاف ستھرے کمرے میں معمولی سامان ساتھ کے کمرے سے نکلتی مدقوق روشنی کے سایوں میں اونگھ رہا تھا۔ دو کمروں کے درمیانی دروازے پر لٹکا پردہ ذرا سا لرزا۔ ماکھے نے سرگوشی نما آواز پر کان دھرنے چاہے۔
’’اماں ! تم بھی کبھی کبھی عجیب ہو جاتی ہو۔ پتا نہیں کون ہیں۔ اتنی تو فائرنگ کی آوازیں آ رہی ہیں۔ کہیں کوئی ڈاکہ پڑ گیا ہو تو؟ کہیں یہ ڈاکو ہی نہ ہوں ؟‘‘ ’
’جھلّی نہ ہو تو۔‘‘ ماکھے نے تصوراتی آنکھ سے دیکھا۔ مائی نے پوتی کو پیار سے گھُرکا ہو گا۔
’’اللہ کے بندے ہیں بے چارے۔ اللہ کے نام پر ٹھہرایا ہے میں نے انھیں۔ ڈاکو ہیں تو ہمیں کیا؟ ہمارا تو رب راکھا ہے۔‘‘
جواب میں لڑکی جو کچھ بھی بڑبڑائی۔ آواز کی کمی اور فاصلے کی دوری کے باعث ماکھا سُن نہ سکا۔ چودھری چارپائی پر لیٹ کر سچ مچ اونگھنے لگا۔ جبکہ ماکھا کان، آنکھیں اور ہاتھ بن کر اُس کا پہرہ دینے لگا۔ رات کے آخری پہر جب فائرنگ مکمل رُک گئی اور شب کے نمناک سناٹے نے معمول کی چادر پہن لی تو چودھری نے نکلنے کی کی۔
’’اب کدھر مالک؟‘‘ ماکھے نے جوتے پہنتے چودھری کو کچھ سوچتے پایا تو بولا: ’’یہ بھی تجھے بتا دوں گا۔ یہاں سے تو نکل۔‘‘
اور دونوں چپکے سے سٹک لیے۔ نہر کے ساتھ ساتھ چلتے دونوں پل کے قریب پہنچے۔ تو نہر کا پانی ابھی بھی شرر شرر گر رہا تھا۔ فضا پر مانوس سیاہ چادر تنی ہوئی تھی۔
کہیں کہیں اکّا دکّا جھینگر بول رہے تھے اور سفیدے کے لمبے لمبے پتے تالیاں بجا رہے تھے۔ پُل کے پار ’’بُڈھے پیر‘‘ کا مزار اندھیرے میں ہیبت ناک منظر پیش کر رہا تھا اور اس کے احاطے میں اُگے پرانے برگد کی رسیاں لٹکتی ٹہنیوں پر بیٹھا الو سحر کے قریب آ لگنے پر آنکھیں بند کیے سونے کی تیاریوں میں تھا جب چودھری رُکا اور اچھل کر پُل کی مینڈھ پر بیٹھ گیا۔
’’ماکھے!‘‘ وہ پُرسوچ لہجے میں بولا۔ ’’گھر سے تو نکل ہی آئے ہیں اور گھٹنے گھٹنے پھنس بھی گئے ہیں۔ اب بچاؤ کا صرف ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ یہ کہ اپنے کیے سے مُکر جائیں۔
سلطان خان کے سوا کسی نے ہمیں پہچانا نہیں اور اگر تو اُس کا مُک مُکا ہو گیا تو کیا فکر بچتی ہے۔ اگر خدا نخواستہ زندہ رہا تو کہہ دیں گے اُسے غلطی لگ گئی ہے۔ بندہ بشر ہے۔ اندھیرے میں دھوکا کھا بیٹھا ہے۔ کیوں ماکھے؟‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو سرکار۔‘‘ ماکھے نے بھلا کب اُس کی بات موڑی تھی۔
’’تو پھر چلیں ؟‘‘ وہ بولا۔ ’’پَو پھٹنے سے پہلے گھر پہنچ جائیں گے۔‘‘
’’نہیں میں کچھ اور سوچ رہا ہوں۔‘‘ چودھری بولا۔ ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا ماکھے۔ گھر سے تو ہم نکل ہی آئے ہیں۔ اب خالی ہاتھ واپس جاتے کیا اچھے لگیں گے؟
ماکھے کو اندازہ ہو گیا۔ چودھری کا ذہن یقینا کسی نئے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ مگر وہ کیا چاہتا ہے یہ وہ نہ جانتا تھا۔ ’’دیکھ ماکھے!چودھری نے ٹوٹی تمھید کا نیا نویکلا سِرا اُٹھایا۔
’’میں نے سُن رکھا ہے مائی اپنی پوتی کے بیاہ کی تیاریوں میں ہے۔ زیور کپڑا تو اس نے کچھ نہ کچھ ضرور بنا رکھا ہو گا۔ میں نے پردے کے پیچھے اُس کی پوتی کی جھلک دیکھی تھی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے۔ جو بُندے اس نے اُس وقت پہنے ہوئے تھے کوئی ڈیڑھ تولے کے تو ضرور ہوں گے۔‘‘
ماکھا سمجھ گیا۔ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ وہ چودھری کے ساتھ پندرہ سال سے تھا۔ پندرہ سال سے وہ دن رات اس کا سایہ بنا ہوا تھا۔ وہ اس کے اَبرو کے اشارے پر حرکت کرتا تھا اور شکار لا کر اُس کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا تھا۔ اس نے کبھی اس کے آگے چوں نہیں کی تھی اور لوگ کہتے تھے وہ روبوٹ ہے۔ جس کا بٹن چودھری کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے نگاہ چودھری پر گاڑ دی۔ جو اپنے انوکھے خیال پر مسرور دکھائی دیتا تھا اور ایک مکارانہ مسکراہٹ اس کے سرخ و سپید چہرے پر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔
پھر ماکھے نے خود پر نظر کی۔ اُس کا آبنوسی وجود اندھیرے کا حصہ معلوم ہوتا تھا اور گٹھا ہوا بدن کسی وحشی درندے کی طرح ویرانے میں ایستادہ تھا۔ یک بارگی اُس کے دماغ میں ایک خیال سر سرایا اور لمحے میں تصویر بدل گئی۔
اُسے لگا چودھری ایک آدم خور بھیڑیا ہے۔ جس کے بدن پر انسان کا چہرہ لگا ہوا ہے اور وہ اُس کا گُرگا ہے۔ محض شکاری کتا۔ اپنے مالک کی فقط ایک ششکار کا منتظر۔ خون ایک دم سے اُس کی رگوں میں اُبلنے لگا۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو میکانکی انداز میں اُٹھتے پایا۔
’’ماکھے!‘‘ چودھری پانی پر نگاہ جمائے بولا۔ اپنے خیال کا مزہ لیتے ہوئے اُس نے ماکھے کے چہرے کی جانب نہیں دیکھا۔ چودھری نے اُس کی نگاہوں کے بدلتے رنگوں کو نہیں دیکھا۔
شرر کی آواز کے ساتھ پانی کا ریلا نیچے گرا اور ماکھے نے دونوں ہاتھوں سے چودھری کی گردن دبوچ لی۔ وہ اس ناگہانی آفت پر لڑکھڑا کر مینڈھ سے نیچے لٹک گیا اور اس کے حیران دیدے باہر کو اُبلنے لگے۔ آواز گلے میں گھُٹ گئی اور وہ اپنے دفاع کے لیے ہوا میں ہاتھ پاؤں چلانے لگا۔
’’ماکھے…ما…ما… کھے۔ یہ کیا؟‘‘ کوئی اس وقت ماکھے کو دیکھ لیتا، تو اُسے معلوم ہوتا کہ اس کی آنکھوں میں ابھرنے والے سورج کی ساری لالی سمٹ آئی ہے اور اس کے بھدے نقوش والے چہرے پر ایستادہ سر پر خون سوار ہو گیا ہے۔ قریب تھا کہ وہ پوری قوت سے اُسے اٹھا کر پانی کے پرہول پریشر میں دھکیل دیتا۔
نہر کی مینڈھ پر چودھری کی گھگھیائی ہوئی کٹی پھٹی آواز رونے لگی۔ ’’تجھے کیا ہو گیا ہے ماکھے… تجھے کیا ہو گیا ہے… مجھے مت مارو… تجھے اللہ رسول کا واسطہ مجھے مت مارو۔‘‘ اور ماکھے کے سخت ہوتے ہاتھ آپوں آپ ڈھیلے ہونے لگے۔ اس نے نگاہیں چودھری پر گاڑ دیں۔ چودھری سکتے کے عالم میں اُس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اس وقت وہ اس خوفزدہ کبوتر کی طرح تھا جسے بلی کو سر پر دیکھ کر آنکھیں بند کرنے کی مہلت بھی نہیں ملتی۔
ماکھے کا چہرہ ساکت تھا۔ معمول کی طرح سپاٹ اور جامد۔ گویا وہ کوئی بے حس پتھر ہو۔ ہاتھوں کو آہستہ آہستہ ڈھیلا چھوڑتے ہوئے اُس نے چودھری کے سر کو پکڑا اور اُٹھا کر زور سے پیچھے دھکیل دیا۔ اس کی پگڑی کھل کر گلے کا ہار بن گئی اور وہ خوفزدہ ہو کر بالکل مینڈھ سے لگ گیا۔
’’ہم جیسے شیطان انسانوں کے منہ سے اللہ کے واسطے اچھے نہیں لگتے مالک۔ پر آج مائی کے گھر سے نکلنے کے بعد مجھے لگا میرے اندر سے کوئی بول پڑے گا اور تیرے ناپاک ارادوں نے مجھے بُلوا چھوڑا ہے۔ جا میں نے تجھے اس نام کی برکت پر چھوڑ دیا چودھری جو میرے اندر بھی آج ہی بولا ہے۔‘‘
ماکھے نے اتنا کہا اور با آواز بلند روتا ہوا سفیدے کے قطار اندر قطار درختوں کے جھنڈ میں گُم ہوتا جانے کدھر نکل گیا۔
٭٭٭
ایک تبصرہ برائے “ماکھے”
بہت اچھی تحریر ہے ۔ لیکن چوہدری مر جاتا تو اچھا تھا ۔