شاہ محمود قریشی، وزیرخارجہ، پاکستان

اے آل سعود ! پاکستان کے ساتھ چلتے ہو یا نہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ خان :

میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ جتنا نقصان سعودی عرب کے آل سعود نے فلسطینیوں کو پہنچایا، اسرائیل نے بھی نہیں پہنچایا۔ میں نے اپنی اس رائے پر جتنا بھی غور کیا، بار بار غور کیا لیکن یہ رائے اپنی جگہ پر قائم دائم رہی۔ ہر آنے والے دن نے اسے مضبوط کیا۔

سعودی عرب اور مصر کی قیادت میں عربوں نے اسرائیل کے خلاف جتنی بھی جنگیں لڑیں، اس کا واحد مقصد فلسطینیوں کی مزاحمت کو کچلنا ہی تھا، ہر جنگ کے نتیجے میں پوری عرب دنیا کے عوام پر یہ احساس غالب ہوا کہ ہم اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ حکمران تو مقابلہ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔

دنیا کی سب سے زیادہ عیاش عرب قوم ، ہر اعتبار سے اسرائیل سے طاقت ور عرب قوم اپنے سے کئی گنا چھوٹے ملک اسرائیل کے ہاتھوں ہمیشہ شکست کھاتی رہی۔ اسرائیل اور ان کے پشتی بان امریکا نے ان عربوں کے گھروں میں اپنی لڑکیاں بھیجیں، انھیں پھنسایا جال میں اور پھر کہیں کا نہیں چھوڑا۔

متحدہ عرب امارات، آل سعود کا ہمیشہ سے ساتھی رہا ہے۔ اس پر زانیوں اور شرابیوں کا ٹولہ مسلط ہے، اسی ٹولے نے چند روز پہلے اسرائیل کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کیا جس پر فلسطینی سخت حیران اور پریشان ہوئے ہیں۔ اس معاہدے کو آل سعود کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو فلسطینیوں کو زیادہ سے زیادہ تنہا کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے گزشتہ ہفتے اسرائیلی منصوبے کو آگے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈال دیا۔ دوسری طرف آل سعود چھپ کر اسرائیل سے تعاون کررہے ہیں۔

سوشل میڈیا کے ایک پاکستانی صارف نے پاسپورٹ کے صفحے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے خوب لکھا کہ
” پیارے عربو ! ہم غریب ضرور ہیں لیکن بے شرم نہیں۔
ہمیں اپنا پاسپورٹ عزیز ہے۔
الحمدللہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو ستر سال سے اپنے موقف پر ڈٹا رہا ہے۔
اسرائیل کی ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں۔ “

آل سعود حرمین الشریفین کی تولیت اور دنیا کے بعض ممالک میں مساجد بنانے کے علاوہ ، ہر وہ کام کررہے ہیں جس کے نتیجے میں اسلام اور مسلمانوں کو بدترین نقصان پہنچے۔ وہ دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینے کے بجائے ظالموں کا ساتھ دے رہے ہیں۔

حال ہی میں جب پاکستان نے او آئی سی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بارے میں سوالات اٹھائے تب سعودی عرب نے انھیں واضح طور پر بتایا تھا کہ یہ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر پر انڈیا کے خلاف اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ساتھ نہ دینے پر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا ، تو سو فیصد نے ، ایک ہزار فی صد درست کیا۔

ایک ٹی وی شو کے دوران شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ
’میں ایک بار پھر او آئی سی سے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کی درخواست کر رہا ہوں۔ اگر آپ اس کا انعقاد نہیں کرتے ہیں تو میں وزیراعظم عمران خان سے یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہوں گا کہ وہ ان اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کریں، جو مسئلہ کشمیر پر ہمارے ساتھ ہیں اور مظلوم کشمیریوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ پاکستان سعودی عرب سے بار بار او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کی درخواست کرتا رہا لیکن سعودی عرب نے ایسی کسی بھی درخواست کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے ایک پروگرام میں کہا کہ ’میں آج اسی دوست کو کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کا مسلمان اور پاکستانی جو آپ کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے لڑ مرنے کے لیے تیار ہیں آج وہ آپ سے تقاضا کر رہے ہیں کہ آپ وہ قائدانہ صلاحیت اور کردار ادا کریں جس کی امت مسلمہ آپ سے توقع کر رہی ہے۔‘ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ او آئی سی آنکھ مچولی اور بچ بچاؤ کی پالیسی نہ کھیلے۔

شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک جملے میں لفظ ’ورنہ‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ میرا نکتہ نظر ہے، اگر نا کیا تو میں عمران خان صاحب سے کہوں گا کہ
سفیرِ کشمیر ! اب مزید انتظار نہیں ہو سکتا، ہمیں آگے بڑھنا ہو گا ود اور ود آؤٹ۔

جب میزبان نے سوال پوچھا کہ پاکستان ’وِد اور ودآؤٹ` سعودی عرب کے اس کانفرنس میں شریک ہو گا تو شاہ محمود قریشی نے ایک توقف سے جواب دیا کہ ’ود اور ود آؤٹ‘۔

اس کے بعد پاکستانی رویے کے پیش نظر، سعودی عرب نے پاکستان کو دیا گیا ایک ارب ڈالر کا قرض واپس مانگ لیا، جو پاکستان نے 2018 میں لیا تھا۔ واضح رہے کہ سعودی عرب نے رواں برس مئی سے پاکستان کو ادھار تیل دینا بھی بند کر رکھا ہے ۔

ماہرین اور تجزیہ کار اسے سعودی عرب سے متعلق پاکستان کے رویے میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس کے براہ راست ذمہ دار آل سعود ہیں۔ ان کے رویے سے ترکی، قطع، ملائشیا سمیت عالم اسلام کے بہت سے ممالک بھی شدید نالاں ہیں۔

اب عالم اسلام میں ایک نیا بلاک بننے جارہا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ بن چکا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستان، ترکی اور ملائشیا کے ساتھ جلد ہی کئی ممالک شامل ہوں گے۔

سعودی عرب روایتی طور پر امریکا کا اتحادی رہا ہے اور اسلامی دنیا میں سعودی عرب کا تسلط رہا ہے۔ اب جبکہ امریکا اور چین کے مابین سرد جنگ کی ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے، چین ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کررہا ہے اور اس کے لیے نیا توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایران کے ساتھ چین ایک بڑا معاہدہ کرنے جا رہا ہے۔ وہ پاکستان گوادر پورٹ اور چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میں بھی بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس طرح سے پاکستان اور ایران دونوں چین کے قریب تر آ رہے ہیں خواہ وہ سرمایہ کاری کے بارے میں ہو یا جغرافیائی سیاسی تعلقات کے بارے میں۔

اس سے پہلے پاکستان نے کوشش کی کہ سعودی عرب کو بھی سی پیک کے منصوبے میں شامل کیا جائے لیکن سعودی عرب امریکی باجگزار کے طور پر اس منصوبے میں شریک نہیں ہوسکتا تھا، اسے بہرحال امریکا یا چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ اس نے امریکا کا ساتھ نہ چھوڑنے کی قسم کھالی۔

پاکستان ایک طویل عرصہ تک مظلوم فلسطینیوں اور دیگر مظلوم مسلمان اقوام کو نقصان پہنچانے والے آل سعود کا ساتھ دیتا رہا، مروت اور لحاظ کا مظاہرہ کیا، آل سعود کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے تمام تر تقاضے پورے کئے حتی کہ وہ قرض بھی اتارے جو واجب نہیں تھے۔

اس کے باوجود آل سعود نے پاکستان کا خیال نہ رکھا، کشمیر پر پاکستان کا ساتھ نہ دیا، تجارتی تعلقات میں پاکستان کو بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے سوچنے کا وعدہ کیا بہ الفاظ دیگر اس وعدے پر ٹرخایا دوسری طرف بھارت کے ساتھ سو ارب ڈالر کے معاہدے کئے۔

یہ سب کچھ آخر کب تک پاکستان برداشت کرتا !
اب دنیا میں حالات بھی ایسے پیدا ہوچکے ہیں بالخصوص جیو پالیٹیکل حالات کہ پاکستان آل سعود کو کہنے پر مجبور ہوا کہ ہمارے ساتھ چلتے ہو یا نہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں