ایک تحریر جو غیر شادی شدہ اور نئی شادی شدہ لڑکیوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوگی
راحيلہ ساجد :
لڑکياں ابھی چھوٹی سی ہی ہوتی ہىں تو اماں ، نانی ، دادی کے منہ سے اکثر سنتی ہيں ۔ يہ سيکھ لو، وہ سيکھ لو، اگلے گھر کام آئے گا ۔
نہ بھئی ، يہ چونچلے اگلے گھر ہی جا کر کرنا،
ہمارے گھر تو ايسے ہی چلے گا يہ شوق مياں کے گھر جا کر پورے کر لينا،
اگلے گھر جا کرہماری بےعزتی نہ کروانا کہ اماں باوا نے سکھايا کچھ نہيں ۔۔۔۔ وغيرہ وغيرہ
اب لڑکی اٹھتے بيٹھتے اگلے گھر کے خواب ديکھنے لگتی ہے کہ جب وہ جہاں جائے گی تو بس وہ ہو گی ، اس کا مياں ہو گا، خوشيوں کے ہنڈولے ہوں گے ، يعنی
” ہم تم ہوں گے بادل ہو گا
رقص ميں سارا جنگل ہو گا “
اوپر سے ساری کسر يہ ڈائجسٹوں کی کہانياں اور ڈرامے پوری کر ديتے ہيں ۔ زيادہ ترلڑکياں ايسے خواب آنکھوں ميں سجا ليتی ہيں جو خواب ہی رہتے ہيں اور جن کا حقيقی زندگی سے کوئی تعلق نہيں ہوتا۔ اور جب سسرال ميں ان کی انکھ کھلتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ آٹا دال کس بھاؤ بک رہی ہے ؟
ماں باپ کے گھر ميں اکثر بچيوں پر کوئی خاص ذمہ داری نہيں ہوتی ۔ دل چاہا تو کام کر ليا ، نہ دل چاہا تو نہ کيا۔ دل کيا تو لمبی تان کر سوئی رہی ، دل کيا تو جلدی اٹھ گئی۔ اماں بولتی رہيں ايک کان سے سنی دوسرے سے اڑا دی۔
کچھ بچياں بہت سگھڑ ہوتی ہيں ۔ ماں باپ کے گھر ميں خود ہی ذمہ داری سنبھال ليتی ہيں ۔ کھانا بنانا، روٹی پکانا ، برتن دھونا يا کپڑے تک دھونا بھی سيکھ ليتی ہيں ۔ ان کو سسرال ميں زيادہ دقت نہيں ہوتی وہ بہت جلد رچ بس جاتی ہيں ۔
جب شادی ہوتی ہے تووہ لڑکياں جو اپنے خوابوں ، خيالوں کی دنيا ساتھ لاتی ہيں سب سے زيادہ پستی ہيں ۔ کيونکہ حقيقی زندگی ميں شاذ ہی کوئی ايسا سسرال ہو گا جو آپ کوشہزادی بنا کر بٹھائے گا۔ شہزادی تو آپ اپنے گھر ميں تھيں ۔ يہاں آپ کو بہو بنا کر لايا گيا ہے ۔ اس لیے آپ سے توقعات بھی کافی ہيں ۔
جو لڑکياں اس بات کو سمجھ ليتی ہيں وہ آسانی سے سيٹ ہو جاتی ہيں ۔ وہ يہ مان ليتی ہيں کہ يہاں مجھے اس گھر کے حساب سے چلنا ہے ۔ اس طرح دونوں طرف زندگی نسبتاً آسان ہو جاتی ہے ۔ يہ نہيں کہ ان کو مشکلات پيش نہيں آتيں يا سسرال والے بالکل خوش اور مطمئن ہوتے ہيں ليکن دونوں طرف کمپرومائز والی صورتحال سے حالات قابو ميں رہتے ہيں ۔
يہ بات روز روشن کی طرح عيأں ہے کہ بدلنا لڑکی کو ہی پڑتا ہے ۔ اگر سسرال والے 40 فیصد بدلتے ہيں تو لڑکی کو 60 فیصد بدلنا پڑتا ہے تبھی گھر بنتے ہيں ۔
اب جو لڑکی اپنی عادات کو بدلنے يا نئے لوگوں سے گھل مل کر رہنے کو مسئلہ سمجھے گی اس کے ليے سيٹ ہونا مشکل ہو گا۔ ” ميں تو ايسی ہی ہوں “ کہہ کر يا سوچ کر دوسروں سے کمپرومائز کی توقع رکھنا سراسر بےوقوفی ہے ۔ ايسی لڑکيوں کے سسرال والے بھی پھر ايک حد تک ہی بہو کی آئو بھگت کرتے ہيں اور پھر گھر کا سکون ختم ہو جاتا ہے ۔
سب سے بڑا مسئلہ وہاں بنتا ہے جہاں نہ سسرال والے کمپرومائز کرنے کو تيار ہوں اورنہ ہی لڑکی اپنی عادتوں سے دستبردار ہونے کو تيار ہو۔ سسرال والوں کو جلدی ہو کہ بہو آ گئی ، اب گھر سنبھالے اور بہو صاحبہ اپنے خوابوں اور خيالوں کی دنيا سے باہر نکلنے کو تيار نہ ہوں ۔ ايسے گھروں ميں ہر روز کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے ۔ زيادہ مشکل تو بہوکو ہی ہوتی ہے کہ وہ اقليت ميں ہوتی ہے۔ اگر اس کا مياں اس کا ساتھ دے تو مسائل کسی حد تک حل ہو جاتے ہيں ليکن اگر وہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ ہو تو پھر اس لڑکی کے ليے زندگی کافی مشکل ہوتی ہے ۔
ايسی بچيوں کو يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ اب آپ کی شادی ہو گئی ہے ۔ والدين اپنے فرض سے فارغ ہوگئے ہيں ۔ اب انہيں اپنے دوسرے بچوں کی بھی فکر کرنی ہے ۔ ان کو اپنی پريشانيوں اور مسائل سے ہر وقت تنگ اور پريشان کرنا کسی طور درست عمل نہيں ۔
اس ليے اپنے گھر ميں سيٹ ہونے کی پوری کوشش کريں ۔ اپنی عادات کو بدلنے اور دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کريں ۔ اپنی ’ ميں ‘ کو ذرا پيچھے کر کے ان کو اہميت ديں ۔ اگر آپ نے زندگی اس گھر ميں ان لوگوں کے ساتھ گزارنی ہے تو خود کو تھوڑا بدلنے اور اس گھر کے مطابق چلنے کی کوشش کريں ۔ اگرآپ اپنے مياں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہىں تو اس کے گھر والوں کو اہميت ديں ۔ اس سارے عمل ميں دن يا مہينے نہيں کئی سال لگتے ہيں تب جا کر حالات ميں بہتری آتی ہے ۔
اگر اکٹھے رہنا مشکل ہو تو باہمی صلاح مشورے سے اگر ممکن ہو سکے تو عليحدہ گھر لے ليں ليکن اپنے مياں کو والدين سے دور کرنے کا کبھی نہ سوچيں ۔ يہ نہ ہو کہ کل آپ کا مياں آپ سے آپ کے والدين اور بھائی بہن چھوڑنے کا مطالبہ کر بيٹھے۔ تب آپ کے پاس کوئی دليل نہيں ہو گی۔
شادہ شدہ زندگی کو کامياب بنانے کے ليے جہاں لڑکی کو کوشش کرنا پڑتی ہے وہاں لڑکے پر بھی بہت سے فرائض عائد ہوتے ہيں ۔ ان کا ذکر اگلی تحرير ميں۔