عفت بتول :
یہ ان دنوں کی بات ہے جب گریجوایشن کے بعد میرے دِل و دماغ پر صحافت کا بھوت سوار ہوا۔ گھر میں لکھنے پڑھنے کا ماحول تھا لہٰذا قلم میں تھوڑی بہت روانی تھی۔ اُردو بھی آتی تھی اپنی جماعت میں ہمیشہ اُردو میں سب سے زیادہ نمبر لیتی، مقابلوں میں بھی سرفہرست رہتی لہٰذا والد محترم نے صحافت کے شعبے میں جانے کی اجازت دے دی اور اپنے ایک محترم دوست جو میرے پہلے اُستاد اورایک ماہوار جریدے کے ایڈیٹر تھے کے پاس بھیجا۔ وہ میری تحریریں دیکھ کر خوش ہوئے یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر دیا۔
’’اِس نو آموز فری لانس صحافی کو اتنا معاوضہ ملنا چاہئے جتنا کسی کامیاب اخبار نویس کو ملتا ہے‘‘
ان کا یہ جملہ میرے لئے بے حد بڑی کامیابی تھی۔ وہ بے حد محنتی اخبار نویس میرے مضامین کو بغور پڑھتے، ان کی اصلاح کرتے اور انہیں شائع کرتے۔ ایک دِن دوران گفتگو میں نے کِسی مذہبی موضوع پر کوئی بات کر دی وہ خلافِ معمول ذرا تُنک کر بولے:
’’ازراہِ کرم ! کبھی مدہبی موضوع پر مت لکھنا!‘‘
بلکہ انہوں نے ایک شعر بھی سنایا :
کشتیاں بے سبب نہیں ڈوبیں
مسجدوں کے امام بیٹھے تھے
میں حیران ہوئی بلکہ پریشان ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب سوچتی کم اور محسوس زیادہ کرتی تھی۔ اس سے پہلے تو میرے نزدیک مذہبی ہونا ایک اعزاز کی بات تھا۔ ہم تو مسجد اِمام کو جس قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے کسی کو شائد ہی کبھی وہ مقام دیا ہو اور انہوں نے یہ کہہ ڈالا کہ امام کشتیاں ڈبوتے ہیں۔
مختلف واقعات میں مولویوں کے متعلق کوئی منفی خبریں بھی سُن رکھی تھیں لیکن دِل میں یہ خیال راسخ تھا کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ۔ جس طرح کوئی بھی شخص بھٹک سکتا ہے اسی طرح کسی مولوی سے بھی خطا ہو جاتی ہے لیکن جوں جوں عملی زندگی میں قدم رکھتی گئی تو پتہ چلا کہ مذہب سے قریب ہونا یا مذہبی حُلیہ اپنانا ہمارے معاشرے میں جہالت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور مذہب پر یا مذہب کے پیروکاروں پر تنقید جدت پسند (ماڈرن) ہونے کی علامت ہے۔
میں نے لوگوں کو یہ کہتے بھی سُنا ہے کہ ہم اس گھرانے میں شادی نہیں کریں گے وہ بہت مذہبی ہیں بلکہ یہاں تک کہ ایک کرائے دار کو یہ کہتے سنا کہ ہم اپنا گھر اس لئے بدلنا چاہتے ہیں کہ ہمارے مالک مکان بہت مذہبی ہیں۔
میری ایک عزیزہ نے میڈیکل کر لیا ہے، نوکری کے لئے جاتی ہے۔ اس کا سی وی دیکھ کر سب متاثر ہوتے ہیں پھر سوال کرتے ہیں آپ نقاب بھی کریں گی؟ اس کا مثبت جواب سن کر اُسے کہیں سے مثبت جواب نہیں آتا۔
ایک واقعہ تو خود میرے ساتھ پیش آیا۔ ایک بہت بڑے کامیاب سکول میں نوکری کی درخواست دی۔ ٹیسٹ پاس کر لیا۔ انٹرویو کے لئے گئی تو مجھ سے یہی سوال کیا گیا آپ نقاب کر کے پڑھائیں گی؟ میں نے جواب دیا :
” یہ میرا مسئلہ ہے۔ میں پڑھائوں گی، بہت محنت سے نتائج بھی شاندار ہوں گے لیکن نقاب حجاب میرا ذاتی مسئلہ ہے۔ “
بس پھر جواب نہیں آیا۔
یہ سب لکھنے کا خیال کیوں آیا؟ پچھلے دنوں بلی سے زیادتی کے واقعہ پر لوگوں نے جو اظہار خیال کئے ان میں سے ایک میں لکھا تھا کہ اگر کوئی ملا دیکھ لے تو کہے گا : بلی کو برقعہ پہنا دو۔ یہ مذاق ملا کا نہیں برقعے کا ہے جو ہر جگہ اُڑتا ہے۔
بلی کی ہمدردی میں پاگل لوگوں کو اگر یہ کہہ دیا جائے کہ زنا کی سزا سنگسار کرنا ہے تو ان کی انسانیت ایک دفعہ پھر جاگ جائے گی۔ مذہبی طبقے کو کوسنا شروع کر دیں گے حالانکہ یہ خود بھی کلمہ گو ہیں۔ ان کے گھروں میں پیدا ہونے والے بچوں کے کانوں میں ملا ہی اذان دیتے ہیں، نکاح بھی پڑھاتے ہیں۔ کوئی دنیا سے رخصت ہو جائے تو غسل بھی وہی دیتے ہیں۔
اِس جدت پسند طبقے کے دل میں ہیجڑوں کے لئے ہمدردی ہے۔ طوائف کے لئے ہمدردی ہے لیکن ایک مولوی اور برقعہ پوش کے لئے نفرت ہے۔
بھئی ہو سکتا ہے کسی کے ساتھ زندگی میں کوئی بُرا تجربہ ہوا ہو، اس کا یہ مطلب تو ہر گز نہیں ہے کسی کے بارے میں ایک رائے قائم کرے، اس کا استحصال شروع کر دیا جائے۔
اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری ان لوگوں کا فرض اولین ہے۔ لیکن اکثریت کو استحصال شدہ طبقہ بنایا جا رہا ہے۔ سکولوں میں اُستاد کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ بچیوں کو سر ڈھانپنے سے منع کریں۔
میری اپنی بیٹی کے ساتھ ایک بہت بڑے سکول میں یہ واقعہ پیش آیا کہ اُسے سکول کی سطح کا مقابلہ جیتنے کے بعد کسی امریکی سکول جانا تھا۔ اس کی استانی نے اس کے حجاب پر سوال جواب شروع کر دیئے۔
کلام اقبال پڑھنے کے لئے سر ڈھانپنے پر بھی اس کا ٹیبلو موخر کر دیا گیا ۔ اگر مغربی طرز لباس پہننے پر مرضی کا فارمولا لاگو ہے تو حجاب پر ایسی تنقید کیوں؟؟
ہم مدارس کو تو بہت بُرا بھلا کہتے ہیں لیکن اب تو بڑے بڑے آزاد خیال لوگوں کے سکولوں میں بھی زیادتی کے کئی کیس سامنے آئے ہیں اور تو اور بلی سے زیادتی کا مرتکب (ملزم) بھی شکل و صورت سے مدرسے کا نہیں کسی جدّت پسند خاندان کا سپوت لگتا ہے۔
ہمارے کچھ مذہبی رہنمائوں کے رویوں میں ضرور سختی پائی جاتی ہے جو مذہب سے دور جانے کا باعث ہے لیکن ایک سوال ہے کہ ڈاکٹرز بھی اپنے شعبے میں سارے کے سارے اچھی شہرت کے حامل نہیں تو کیا ہم علاج معالجہ ترک کر دیتے ہیں؟ نہیں بلکہ ہم اچھا ڈاکٹر تلاش کرتے ہیں۔
معاملہ بلی کا ہو یا انسان کا اس پر قابو پانے کے لئے دِل میں خوف خدا پیدا کرنا ہو گا۔ جب دل سے خوفِ خدا اور نظر سے حیا اُٹھ جائے تو ایسے ہی واقعات جنم لیتے ہیں۔ جس ملک میں ’بلی‘ فلم کی ہیروئن کو تمغہ امتیاز دیا جائے گا وہاں تو ایسے ہی واقعات جنم لیں گے۔
دِن رات جاگ کر 95 فی صد سے زیادہ نمبر لینے والی طالبہ اگر نقاب حجاب کے باعث بے روزگار رہے گی اور نیم عریاں رقص کرنے والی عورتیں امتیازی حیثیت اختیار کریں گی تو پھر یہ سب دیکھنے کو ملے گا۔
اِس موازنے کی ضرورت ہر گز نہ پیش آتی دِلوں کے بھید اللہ ہی جانتا ہے۔ نقاب اور حجاب میں چھپی لڑکی بھی کبھی غلط کہہ سکتی ہے لیکن درست کو غلط اور غلط کو عام کرنا تو ہر گز انصاف (لبرل ازم) نہیں۔ ننگا ہوجائو تو آزادی سلب ہوتی ہے اور چہرہ ڈھانپ لو تو جہالت کی مہر لگا دی جاتی ہے۔
عورت اور بلی میں فرق ہے۔ بلی برقعہ نہ پہنے آزاد پھرے لیکن عورت اور مرد کو بحیثیت انسان اللہ کے بنائے گئے اصولوں پر چلنا پڑتا ہے۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے، عقل سے نوازا ہے، علم دیا ہے جبکہ اس علم پر عمل نہیں ہو گا تب ہی عورت اور بلی کو حقوق دلوانے والوں کو متحرک ہونا پڑے گا۔
بلی کے ساتھ زیادتی قابل مذمت ہے لیکن اس کی اشتہار بازی کرنے والی طاقتوں سے کوئی پوچھے زینب کو انصاف دلانے کی مہم میں انہوں نے جس قدر اس خاندان کو نشر کیا وہ ابھی تک اس کے اثرات میں ہوں گے اپنی خبروں کو دیگر مقاصد کے حصول کے لئے اس خاندان کے زخم کو بار بار چھیڑا جاتا رہا اور نتیجہ کیا نکلا؟
حفاظت کی جانی چاہئے خواہ وہ بلی ہو کوئی بچہ ہو یا بچی ،
اور محفوظ کیسے رکھا، جا سکتا ہے؟ وہ میرا مذہب بتاتا ہے کہ نظر کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ اخلاق کی حفاظت کیسے کرنی ہے لیکن افسوس کہ مذہب کو سیکھنے، سمجھنے کے بجائے ہم محض اس پر تنقید کر کے پڑھے لکھے ہونے کا اظہار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اللہ ہمارا محافظ ہو۔
ایک تبصرہ برائے “بلی اور عورت”
Is article se itfaq krti hon , bat bilkul durst ha ha ky hmny label, tag laga dia hein yeh koi ik bura yan galat to us sey juri har chz galat . Sb se afzl bat to yh ha agr ap Muslman hony ka dawa krrty hein to urat k prdy pe swal e nahi uthya ja skta agr ap prdy pe, hijab pe sawl krty hei to meri nzr mei Allah se sawl krty hein or us ky jawab sey darein