رضوان رانا:
پاکستان میں پڑھنے والے زیادہ تر نوجوان یہ سوچتے ہیں کہ ڈگری لے کر نکلوں اور ایسا کام کروں گا کہ دنیا دیکھتی رہ جائے، کوئی بھی کام شروع کروں اور دیکھتے ہی دیکھتے کامیابیوں کی بلندیوں کو چھوُ لوں۔
بچپن کے سوال ’ بڑے ہو کر کیا بنو گے؟‘ کا یہ وہ جواب ہے جو آپ کسی کو دیتے نہیں مگر سوچتے ضرور ہیں.
ہمارے پیارے ملک میں کروڑوں نوجوان ہیں جن میں سے بہت سارے یہ سوچتے ہیں کہ پاکستان کے امیر ترین اور سب سے کامیاب بزنس مین بنیں گے مگر پھر کیا وجہ ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کوئی بڑا کاروباری بننے میں برُی طرح ناکام ہے اور زیادہ تر سی وی ہاتھ میں لیے نوکری ڈھونڈ رہی ہوتی ہے.
میں یہ سمجھتا ہوں یہ ایک انتہائی اہم اور بنیادی مسئلہ ہے جس پر ہماری حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم کو سوچنا ہو گا کیونکہ وہ بلا شبہ نوجوانوں کی بڑی تعداد اور ان کی صلاحیتوں کے صحیح استعمال کو نہ صرف اپنی خوش قسمتی قرار دیتے ہیں بلکہ اپنا سب سے بڑا ٹرمپ کارڈ کہتے ہیں. اور یہ نوجوان ہی تھے جنہوں نے اپنے ووٹ اور امیدوں کے ساتھ کندھوں پر بٹھا کر عمران خان کو ایوان اقتدار میں بھیجا۔
اب یہ ایک نادر موقع ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی نوجوان ٹیم ملک کے دوسرے نوجوانوں کے لیے ایسا سسٹم اور میکنزم ڈویلپ کرے کہ نہ صرف ہمارے باصلاحیت نوجوان اپنے پیروں پر کھڑے ہوں بلکہ ملک کی ترقی میں اپنا شاندار کردار ادا کریں .
اس سلسلے میں میری تحقیق کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی نیا کاروبار یا بزنس شروع کرنے میں تین بڑی رکاوٹیں یا مشکلات درپیش ہیں جو نہ صرف نئے آنے والے نوجوانوں کو بد دل اور ڈس ہارٹ کر دیتی ہیں بلکہ ان کی صلاحیتوں ، پیسے اور وقت کے ضیاع کا سبب بھی بنتی ہیں.
اول: مشکل ترین کاروباری قوانین اور نکما ترین عدالتی سسٹم
دوم: سرمایہ کاری کے حصول میں مشکلات اور سخت ترین بنکنگ سسٹم
سوم: ہنر مند لوگوں کی کمی
جب کوئی نوجوان پاکستان میں کاروبار شروع کرنے کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کے پاس بہت ساری معلومات نہیں ہوتی جیسا کہ (اس کاروبار سے منسلک) حکومتی قوانین کیا ہیں؟ یا پالیسی کیا ہے یا پھر یہ کہ اسے کس محکمہ سے کون سی اجازت درکار ہے؟ اور کہاں سے این او سی لینا ہے؟
بدقسمتی سے اس کے بارے میں ایسا کوئی ایک پورٹل یا ون ونڈو آپریشن نہیں ہے جہاں سے ساری معلومات بہ آسانی مل جائیں اور ایک ہی کاؤنٹر سے نئے کاروبار کرنے والوں کو سارے اجازت نامے اور این او سی ملیں تا کہ بغیر کسی تاخیر کے وہ کاروبار شروع کرے اور پھر آگے چل کر اس کو ضروری اور پیچیدہ پیپر ورک میں بھی لے لیا جائے تا کہ شروع کی مشکلات کو کم سے کم کیا جائے.
افسوس کہ ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ بہت سے ایسے قوانین ہیں جو شاید پاکستان بننے سے پہلے کے ہیں۔ ہمیں تین چار محکموں سے ایک کام کے لیے لائسنس یا این او سی لینے پڑتے ہیں.
اندازہ لگائیں نئے آنے والے بزنس مین نوجوان اپنے آئیڈیے اور نئے عزم کے ساتھ این او سی اور لائسنسوں کے چکر میں ہی پھنس گیا تو وہ کاروبار کیا کرے گا.
اور اگر ان چکروں سے بچ کر وہ نکل بھی گیا تو ہمارے پیارے ملک میں قانون کی عملداری بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو کسی شریف بزنس مین کو تحفظ اور ضمانت فراہم نہیں کرتا کہ وہ ایمانداری اور محنت سے اپنے کاروبار کو چلا سکے.
مثلًا اگر آپ اپنے کسی وینڈر یا کسٹمر کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتے ہیں اور وہ اسے توڑ دیتا ہے تو آپ کے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ آپ قانون کا سہارا لے کر اس پر بروقت عمل کروا سکیں۔ نہ ہی کوئی موثر اور جلد کام کرنے والا محتسب سسٹم ہے کیونکہ عدالتوں میں تو آپ کو کئی کئی سال لگ جاتے ہیں.
اگر خوش قسمتی سے پہلا چیلنج پار کر لیا تو نئے کاروباری نوجوان کو کاروبار شروع کرنے کے لیے پیسے کہاں سے ملیں گے؟
اگر پاکستان میں آپ کو کسی بینک سے رجوع کرنا پڑے تو یہاں شرحِ سود اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ آپ کی کاسٹ آف ڈئونگ بزنس بہت بڑھ جاتی ہے اور پھر قرضہ دینے کا بینک کا معیار یہ ہے کہ جس کے پاس پہلے پیسے ہوں اسی کو قرضہ دو یا کوئی چیز گروی رکھے بغیر کسی نوجوان کو بینک سے کاروبار کے لیے قرضہ نہیں ملتا۔
بنک کو چھوڑ کر اگر آپ کسی سرمایہ کار کے پاس جائیں تو یا تو وہ انکار کر دیتا ہے اور اگر راضی بھی ہوجائے تو وہ یہ کہتا ہے کہ میں آپ کے بزنس کا پچاس سے ساٹھ فیصد حصہ لوں گا بغیر یہ سوچے کہ بزنس کے بانی جس کا آئیڈیا ہے اس کا اگر حصہ زیادہ ہو گا تو وہ زیادہ محنت سے زیادہ دل لگا کر کام کرے گا اور اگر کاروبار کامیاب ہو گیا تو سرمایہ کار کا چھوٹا حصہ بھی بڑا ہو جائے گا۔
چلیں ایک مرتبہ پھر اچھا گمان کرتے ہیں. آپ کے پاس اچھا آئیڈیا بھی ہے، قوانین بھی آپ سمجھ گئے ہیں، اور پیسے بھی اکھٹے کر لیے ہیں. تو پھر کیا آپ کو یہاں ہنر مند افراد ملیں گے کام کرنے کے لیے؟
بدقسمتی سے ہمارے نوے فی صد لوگ حادثاتی طور پر اپنے شعبے میں آتے ہیں جو استاد شاگرد کے چکر میں مار کھا کر کاریگر بنتے ہیں جبکہ پڑھ کر یا باقاعدہ ٹریننگ لے کر کسی ادارے سے بہت کم ہنر مند لوگ فیلڈ یا مارکیٹ میں موجود ہیں.
دوسرے ملکوں میں بزنس ٹورز پر آنے جانے کے بعد اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں ایک اہم اور ضروری بات جو کہ میں سمجھتا ہوں ہمارے ملک پاکستان میں لوگ اتنی تیزی سے کام نہیں کرتے جتنے دوسرے ممالک میں کرتے ہیں۔
باہر تو لوگ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے دفتر میں بیٹھے رہتے ہیں اور جب تک کام ختم نہیں ہوتا تب تک گھر نہیں جاتے. مگر یہاں ابھی بھی نائن ٹو فائیو والی ذہنیت چھائی ہوئی ہے اور لوگ کام پر ہوتے ہوئے بھی توجہ یا پورے فوکس سے اپنے فرائض انجام نہیں دیتے جسے میں ٹریننگ یا تربیت کی کمی سمجھتا ہوں.
اوّل تو ہمارے تعلیمی اداروں یا تربیتی اداروں میں انٹرپنیورشپ یعنی ذاتی کاروبار کرنے کے کورسز پڑھائے ہی نہیں جاتے۔ اگر پھر بھی کہیں کوئی کورس یا نصاب پڑھایا بھی جاتا ہے تو اس کو پڑھانے والے اساتذہ نے خود کبھی کوئی کمپنی نہیں چلائی ہوتی، انھیں کیا پتا کہ ایک کاروبار کرنے کے مسائل کیا ہوتے ہیں؟
اس اہم موضوع پر لکھتے ہوئے میں حکومت وقت کو کچھ تجاویز دینا چاہوں گا جو پاکستان میں کاروباری کلچر کو نہ صرف سازگار اور آسان بنانے میں اہم کردار ادا کریں گی بلکہ ہمارے نوجوانوں کے لیے بھی مشعل راہ ثابت ہوں گی کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائیں اور نوکری کی تلاش کی بجائے اپنے کاروبار کے آغاز پر توجہ مرکوز کریں .
سب سے پہلے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ بزنس قوانین کوسمجھنے میں آسانی پیدا کرے. کوئی ایسا پورٹل یا دفتر ہونا چاہیے جہاں کوئی بھی نوجوان جائے اور اس کو اپنے کام کے حوالے سے تمام تر سوالات کے قانونی جواب مل جائیں.
’دوسرا، حکومت کی سکیموں کا ویژن بہتر ہونا چاہیے جیسے آپ مختلف پیکیج اورسکیموں میں ہزاروں لوگوں کو چھوٹے چھوٹے قرضے دے رہے ہیں. اس کی بجائے آپ کہیں کہ میرٹ کی بنیاد پر ہم ایک ہزار لوگوں کو جدید آئیڈیا کی بنیاد پر بڑا قرضہ دیں گے تاکہ آپ کامیاب کمپنیاں قائم کریں جن کی مالیت وقت کے ساتھ اربوں تک پہنچے. بڑی بزنس کارپوریشن بنیں اور لاکھوں لوگوں کو نوکری بھی مل سکے.
ابھی تو لوگ قرضہ لیتے ہیں، کم شرحِ سود کی وجہ سے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں، کوئی گاڑی لے لیتا ہے تو کوئی سیر سپاٹے پر خرچ کر دیتا ہے.
ایک اور اہم حل ہماری یونیورسٹیوں اور تربیتی اداروں کا صنعت سے بہتر رشتہ قائم کیا جائے . ہمارے پروفیسرز اور طلبہ فیکٹریوں اور مارکیٹوں میں بار بار آئیں جائیں اور کام کی نوعیت کو سمجھیں.
ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو تعلیم مت دیں، ہنر سکھائیں اور انھیں کہیں کہ چھٹیوں میں فیکٹریوں میں کام کریں تا کہ جب تک وہ فارغ التحصیل ہو کر مارکیٹ میں آئیں تو ان کے پاس کوئی ہنر ہو جو ان کے لیے بھی سود مند ہو اور انٹرپنیورز کو بھی فائدہ پہنچے…!!!