سہیل وڑائچ
سب کو نوید ہو کہ پہلی بار کچھ مثبت اشارے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ کرنٹ اکائونٹ میں خسارہ کم ہونے کی باتیں تو بڑی دیر سے کی جا رہی تھیں مگر اصل فرق کرنسی کو ڈی ویلیو کرنے، شرح سود کم کرنے اور کاٹن و ٹیکسٹائل کے لئے بجلی کی رعایتی قیمت مقرر کرنے سے پڑا ہے۔ کئی برسوں کے بعد پہلی بار کاٹن کے شعبے کو بیرون ملک سے دھڑا دھڑ آرڈر مل رہے ہیں۔
دھاگہ اور دوسری پروڈکٹس کے حوالے سے ایسا عروج بہت برسوں بعد آیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور بجلی کے حوالے سے رعایات دینے کے بعد سے کاٹن انڈسٹری میں بہت تیزی آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعمیراتی شعبے میں بھی یکایک بہتری کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ ڈیفنس میں پراپرٹی کی قیمتیں کافی عرصے سے انجماد کا شکار تھیں اب اچانک یہ قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئی ہیں۔ تعمیرات کے شعبے کے بارے میں مراعات کے بعد مختلف شعبے پچھلے ایک ماہ میں غیرمعمولی طور پر متحرک ہوگئے ہیں۔
ڈیفنس میں جائیداد کےٹرانسفر کے دفاتر میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ گویا یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کنسٹرکشن کے شعبوں کو حال ہی میں دی گئی مراعات کا فوری اور مثبت اثر پڑا ہے اور کئی برسوں سے رُکی ہوئی معیشت ایک بار پھر سے چلنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ اگر کاٹن انڈسٹری کو بیرون ملک سے اسی طرح آرڈرز ملتے ہیں تو پاکستان کی معاشی مشین کا زیادہ تر حصہ کک اسٹارٹ ہو جائے گا کیونکہ ہماری صنعتوں اور زراعت کے زیادہ تر حصے کی آمدن کا انحصار پہلے بھی کپاس اور اس کی مختلف ذیلی شاخوں پر رہا ہے۔
یہ مثبت معاشی اشارے بڑے حوصلہ افزاہیں جبکہ دوسری طرف ان منفی سہاروں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جن کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت اپنا سیاسی رنگ جمانے میں ناکام ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد فنڈنگ اور ڈیلیوری کے زیادہ تر اختیارات صوبائی حکومتوں کے پاس آ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں تو خود اپنے ہی تفویض کردہ فنڈز کو استعمال کرنے کی مہارت سے بھی عاری ہیں پنجاب نے پچھلے مالی سال میں اپنے ترقیاتی بجٹ کا 44فیصد اور پختونخوا نے صرف 35فیصد استعمال کیا یوں بالترتیب پنجاب کا 56فیصد اور پختونخواکا 65فیصد ترقیاتی بجٹ استعمال ہوئے بغیر ہی واپس چلا گیا، تحریک انصاف کو صوبوں سے سیاسی سپورٹ کا جو سہارا ملنا چاہئے وہ صفر ہے۔
تضادستان کے دارالحکومت سے آنے والی اطلاعات کے مطابق پنجاب میں متبادل کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا البتہ ایک ڈارک ہارس نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے کہا گیا ہے کہ دو تین ماہ خاموش رہو تمہارا نام فائنل ہے جبکہ یہ حقیقت مانے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ خانِ اعظم کے سامنے اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی شکایتیں کریں تو وہ مسکرا کر ان کو رد کر دیتے ہیں جبکہ بزدار کے خلاف الزام لگایا جائے تو ان کے چہرے پر سختی آ جاتی ہے اور وہ ان الزامات کا خودجواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
تبدیلی البتہ یہ آئی ہے کہ اب وہ بزدار اور ان کی حکومت کی کمزوریوں اور خامیوں سے آگاہ ہیں مگر اب بھی ان سے ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کی سپورٹ کرتے ہیں۔ بعض لوگ اس سرپرستی کی سیاسی اور روحانی تشریحات کرتے ہیں۔
سیاسی تشریح تو یہ ہے کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ بدلنے سے اتحادی اور ساتھی دونوں تتر بتر ہو سکتے ہیں، ماضی میں جس بھی وزیراعظم نے پنجاب میں تبدیلی کی اس کے وفاق کو بھی آگ کی تپش ضرور پہنچی۔ روحانی حوالے سے بھی کہا جاتا ہے دو عین (عمران اور عثمان بزدار) ایک کشتی میں سوار ہیں، ہوا تیز ہے، جتنی دیر تک دونوں کشتی میں ہیں کشتی طوفانوں کا مقابلہ کرتی رہے گی جونہی ایک عین یعنی عثمان بزدار کشتی سے گرے گا، کشتی طوفانوں میں گھر کر بالآخر ڈوب جائے گی۔
ان سیاسی اور روحانی تعبیرات کی وجہ سے پنجاب میں تبدیلی رکی ہوئی ہے لیکن یہ تبدیلی بالآخر ہونی ہے اور اسی تبدیلی ہی سے گڈگورننس اور ڈیلیوری ممکن ہو گی۔
حکومت کے لئے تو مثبت اشارے موجود ہیں مگر اپوزیشن کے لئے صرف اور صرف منفی سہاروں کی کہانی ہے۔ معذوراپوزیشن بیساکھیوں کی تلاش میں ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ سہارا اسی کو ملتا ہے جو خود چلنے کی کوشش کرتا ہے جو حوصلہ ہار کر بیٹھا رہے اسے گھر جا کر سہارا کوئی نہیں دیتا۔
(ن)لیگ ہو یا پیپلز پارٹی دونوں جراتمندی اور بہادری سے مزاحمت کے لئے تیار نہیں ہیں دونوں جماعتیں سہاروں کی تلاش میں ہیں۔ یہ درست ہےکہ شہباز شریف ہوں یا بلاول بھٹو زرداری دونوں ریاستی اداروں کی بیڈ بکس میں نہیں بلکہ گڈبکس میں ہیں اور ان دونوں سے ریاست کا کسی نہ کسی حوالے سے نامہ و پیام جاری رہتا ہے اور جاری رہنا بھی چاہئے۔
لیکن فی الحال ریاستی ادارے خاموشی سے صورتحال کا جائزہ لیتے نظر آتے ہیں وہ سیاسی منظر نامے سے کافی پیچھے ہٹ کر بیٹھے ہیں حکومت کو مکمل سپورٹ بھی کر رہے ہیں لیکن متنازعہ سیاسی امور سے بچ کر رہتے ہیں۔
انصافی حکومت کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح شہباز شریف گرفتار ہو جائیں تاکہ اپوزیشن کا حوصلہ بالکل ہی ٹوٹ جائے اور وہ کسی تحریک کی بجائے اپنے لیڈروں کی رہائی اور ان کے مقدمات لڑنے تک محدود رہ جائے۔ دوسری طرف اپوزیشن چاہتی ہے کہ وہ تحریک چلائے بغیر، گرفتاریاں دیے بغیر، حکومت کو صرف اس کی غلطیوں کے نام پر ہی گروا دے۔
حکومت کی غلطیاں اپنی جگہ مگر اپوزیشن بھی اپنا کام صحیح نہیں کر رہی اگر اپوزیشن نے سبقت نہ لی، جراتمندی نہ دکھائی تو پھر یہ نظام اسی طرح پسنجر ٹرین کی طرح ہچکولے اور جھٹکے کھاتا چلتا رہے گا۔