ڈاکٹرجویریہ سعید، اردو کالم نگار، ماہر نفسیات

قناعت کا ایک نیا مفہوم ، جاننا بہت ضروری ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر جویریہ سعید :

آج قناعت کے ایک نئے مفہوم پر بات کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ زندگی میں محبت بہت ضروری ہے۔
اور محبت کیا ہے۔
یہ کہ کسی کو چاہا جائے، یا کوئی ہمیں چاہے، اس چاہت میں بڑی شدت ہو، صرف ایک ہی کے ساتھ ہو، تاابد رہے، جدائی کا تصور بھی سانس روک لے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان باتوں کا اظہار بھی ہوتا رہے۔ ستائش،اور اقرار، آنکھوں سے، باتوں سے، عمل سے یعنی تحفے تحائف دینا، ساتھ وقت بتانا ، یہ نہ ہو سکے تو بے چینی ہو اور اس کا بھی اعتراف و اظہار کیا جائے۔
اس سے سرشاری سی محسوس ہوتی ہے۔


سائنسی زبان میں دماغ اور بدن کے ہارمونز کی سطح بڑھتی ہے تو ایک تھرل ایک سرخوشی سی محسوس ہوتی ہے۔

یہ ایسی ہی کیفیت ہے جو کسی حسین پر فضا مقام پر جانے سے یا کوئی پسندیدہ کھانا کھانے یا شاپنگ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔

اس کیفیت میں ایسا لطف ہوتا ہے کہ ہم اس میں بار بار مبتلا ہونا چاہتے ہیں بلکہ مسلسل اسی کیفیت میں رہنا چاہتے ہیں۔

فلموں اور کہانیوں میں بھی اسی طرح دکھاتے ہیں ، شاعری و ادب بھی یہی کہتا ہے اور
سوشل میڈیا کی رونق بھی یہی پیش کرتی ہے۔

لوگ دلکش ہیں، مہربان ہیں، باصلاحیت ہیں، شوخ ہیں ذہین اور بے باک ہیں، نیک اور پرہیز گار ہیں، داعی دین ہیں۔

یہاں لوگ متاثر ہوتے ہیں، پسند کرتے ہیں اور کبھی کبھی محبت کے گمان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر کو ہونے والی ملاقات میں اظہار تعلق ہوتا ہے ، ہارمونز متحرک ہوتے ہیں۔ اور یہ پسندیدگی محبت کے گمان میں بدل جاتی ہے۔

ایک خوشی سی طاری ہونے لگتی ہے۔ جب ساتھ نہ ہوں تو بھی خیال ہی خوش رکھتا ہے۔

حقیقی زندگی میں بھی ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ کسی بھی لحاظ سے نمایاں افراد سے متاثر افراد کا ایک حلقہ بن جاتا ہے اور یہاں بھی وہی محبت کے گمان والے مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔

ان نمایاں افراد میں سے اکثر کو ابتدا میں اور کچھ خوش فہم افراد کو ساری زندگی یہ خوش فہمی رہتی ہے کہ لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔

حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ متاثرہ افراد کی قوت متخیلہ ان کی کچھ نمایاں خوبیوں کے ادھورے خاکے کو اپنی خواہشات اور جذبات کی مدد سے مکمل کردیتی ہے اور پھر اپنی ہی تخلیق کردہ اس شخصیت سے محبت کا گمان شروع ہوجاتا ہے۔ اور محبت کا معیار بھی وہی جو اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حقیقی زندگی میں ہمارے دوست، گھر والے ، رشتے دار ، رفیق زندگی اس سارے تصور محبت سے مختلف ہوتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں محبت نہیں ملی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے اکثر نوٹ کیا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر باقاعدہ تعریف کی خواہش کرتے ہیں ، اور خفا ہوتے ہیں کہ ہماری تعریف نہ ہوئی، ہمیں کسی نے نہیں کہا کہ آپ بہت اہم ہیں، بہت اچھی ہیں، یہ ہیں وہ ہیں۔۔ ٹیگ نہیں کیا، مینشن نہیں کیا۔

کسی کے اہم دن پر صلاحیتوں کے اعتراف یا کسی سے اپنی پسندیدگی اور دوستی کے اعلانیہ اعتراف یہاں تک کہ کسی کے انتقال پر ہونے والی مدح سرائی تک کے بعد میں نے لوگوں کو پریشان یا خفا ہوتے دیکھا ہے کہ ہمارے بارے میں تو کسی نے ایسا نہ کہا، یا کوئی کہے گا یا نہیں۔

ستائش اور اہمیت کی خواہش بے جا خواہش نہیں مگر غیر حقیقی توقعات رکھنا اور ان کے پورے نہ ہونے کے نتیجے میں احساس تنہائی، ریجیکشن کا احساس، اور لوگوں سے چڑنا اور شکوے کرنا ہمارے اپنے لیے نقصان دہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غرضیکہ چاہت کے اس سارے تصور سے سرخوشی اور نشے کی کیفیت کی ضرورت ، چاہتوں اور تعلقات میں توحید اور شدتوں کی مسلسل تمنا ایک بے اطمینانی، ایک بڑھتی اور نہ مٹنے والی طلب اور حسرت پیدا کرتی ہے۔ ہر وقت ستائش کی تمنا اور مطالبہ شخصیت کو باہر سے بدنما اور اندر سے کمزور اور ناخوش بنادیتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بھی یاد رکھیے!

انسان یکسانیت سے گھبراتا ہے انسانی جسم اور ذہن ایک خود کار نظام کے تحت ایک ہارمون، ایک کیمکل ، ایک سرگرمی ، ایک جذبے، کو ایک مدت کے بعد دوسری سرگرمی ، دوسرے کیمکل، دوسرے جذبے سے تبدیل کر دیتے ہیں۔

ایک حالت تادیر یا مسلسل قائم رہے تو انسان اپنی انفرادی و اجتماعی ذمہ داریاں اور کردار نبھانے کے اور اپنی زندگی ان حق ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔

اس طرح انسانی جسم کا نظام، عمر کے مختلف مراحل، زندگی کے مختلف حالات، شخصیت کے مختلف پہلو ہر چیز کے ساتھ تعلق، جذبات اور محبت کے تصور میں بھی تبدیلی لاتے ہیں۔

لہذا اگر ایسا ہو بھی جائے کہ آپ چاہنے لگیں اور چاہے جانے لگیں، اظہار کی بھی فراوانی ہو، تو بھی ایک مدت بعد آپ کا ذہن اس سے اکتا جائے گا اور یہ اکتاہٹ جھنجھلاہٹ اور نہ سمجھ میں آنے والے غصے میں بدلنے لگے گی اور لڑائی جھگڑوں کی نوبت آئے گی۔

چاہت کی آئیڈیل سرشاری کی یہ لذت چیونگ گم کے ذائقے کی طرح ہے۔ آپ کو پوری طرح میسر بھی ہو تو بھی کچھ عرصے بعد اتنی بدمزہ ہوجاتی ہے کہ آپ جان چھڑانے کی کئی حقیقی اور جائز وجوہات سوچنے لگتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا حل شعر و ادب نے یہ سوچا کہ وصل چونکہ محبت کی موت ہے اس لیے فراق بہتر ہے۔
تیرا تصور تیرے ہونے سے بہتر ہے۔

پھر انہوں نے ہجر کا رومان تخلیق کردیا۔ جو کہ اپنے اندر درد آمیز لذت رکھتا ہے۔ اذیت سے لذت کشید کرنا ۔ تصور تشنگی کی وجہ سے ذائقے کو سوچتا رہے تو ذائقہ لذیذ ہی محسوس ہوتا ہے۔ چکھ لینے میں دو مسائل ہیں، سیر ہونے سے طلب جاتی رہے گی اور دوسرے یہ کہ اگر ذائقہ تصور کے مطابق نہ ہوا تو یہ کتنا بڑا دھچکا ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا زیادہ بہتر حل شاید حقیقت پسندی میں ہے۔
انسان زندگی کے بڑے مقصد پر نظر رکھے۔ اور اس بڑے مقصد کو حاصل کرنے کی فکر میں رہے۔ اپنی شخصیت کی تعمیر اور آخرت کی تیاری سے بہتر مقصد اور کوئی نہیں ۔

اپنی اصل حقیقت سے ہمہ وقت باخبر رہے۔اپنا محاسب بنا رہے
کوئی تعریف کر بھی دے تو اسے سر پر نہ چڑھنے دے۔

۔ توقعات کم رکھے
زندگی امتحان ہے خواہشات پوری کرنے کی جگہ نہیں۔ ہمارا وجود بھی اس طرح نہیں بنایا گیا کہ وہ خواہشات پوری کرنے کے قابل ہو۔
اس لیے چاہتوں کے معاملے میں قناعت اپنے جذبات اور شخصیت کو ٹوٹنے بکھرنے سے بچاتی ہے۔

اس کا مطلب لوگوں سے خفا رہنا اور ان سے مایوسی کا اظہار کرنا نہیں بلکہ خود اپنی شخصیت کو اس کمزوری سے بچانا ہے جو اپنی بقا کے لیے دوسروں پر انحصار کرواتی ہے۔

محبت میرے نزدیک احترام اور بقائے باہمی کے اصولوں کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کا نام ہے۔
یہ ممکن ہو تو محبت ہوتی ہے ورنہ صرف غیر حقیقی توقعات اور خواہشات کا کوئی صنم ہے جسے خود سے الگ کرنے پر ہم تیار نہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں