ثاقب محمود عباسی :
پہلے یہ پڑھئے:
آئیے خودکشی کرنے والوں کو روکیں
تنائو، اینزائٹی اور ڈپریشن سے نجات کیسے ممکن ہے؟ ( 1 )
تنائو، اینزائٹی اور ڈپریشن سے نجات کیسے ممکن ہے؟ ( دوسرا حصہ )
اگر آپ چاہیں تو ایک لمحے میں ڈپریس ہو سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو ایک لمحے میں خوشی بھی محسوس کرسکتے ہیں ۔ کیسے ؟
فوکس کرنے سے۔ اگر آپ ماضی کے کسی بُرے یا ناخوشگوار واقعے کو پوری شدت سے یاد کریں اور خود کو اس جذباتی رو میں بہنٕے دیں تو لمحوں میں آپ اداس ہوجاٸیں گے اور اگر زیادہ ایکیوریسی سے آپ اس واقعے کو یاد کرسکیں تو ڈپریس بھی ہوجاٸیں گے۔
اسی طرح ماضی کے کسی خوشگوار واقعے کو ذہن کی سکرین پہ فوکس کریں ۔ اپنے جذبات کو شامل کریں ۔ مکمل تصویر آواز ‘ ماحول ‘ موسم کو محسوس کریں آپ لمحوں میں خوشی اور راحت محسوس کریں گے۔
یہ طاقت اللہ نے ہمارے اندر رکھی ہے ۔ ہمارے ذہن کی پروگرامنگ اس انداز میں اللہ نے کی ہے یہ تکلیف اور دکھ سے بچنا اور زیادہ سے زیادہ مزے اور لطف کی کیفیت میں رہنا چاہتا ہے ۔ خوشی کی کیفیت تو عموماً ہینڈل کرنا آسان ہوتی ہے مگر شدید دکھ اور کرب کو ہینڈل کرنا مشکل کام ہوتا ہے ۔ لوگ خودکشی تبھی کرتے ہیں جب ان کے لیے تکلیف ان کی برداشت سے باہر ہوجاتی ہے ۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کرب و اذیت کی لمحوں میں ہم اپنی ذہنی کیفیت کو بدل دیں ۔ کیونکہ اس درد و کرب اور اذیت کا سبب ہمارے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یا حادثہ نہیں ہوتا بلکہ خود ہمارا اپنا ذہن ہوتا ہے اور اس واقعے کی کی جانے والی تشریح اور پہنائے جانے والے معانی ہوتے ہیں ۔
ذہنی حالت کو بدلنے کے زیادہ سے زیادہ طریقے ہمارے پاس ہونے چاہئیں ۔ عموماً لوگ اپنی ذہنی کیفیت کو بدلنے کے لیے بے تحاشا کھاتے، زیادہ سوتے ، سگریٹ ، نسوار ، پان ، شراب کا استعمال کرتے، بغیر ضرورت شاپنگ کرتے وغیرہ۔
یہ سارے طریقے منفی ہیں جو ہماری سیلف اسٹیم کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
اپنی سٹیٹ کو بدلنے کے طریقے جاننا آپ کی زندگی کو آسان بنا دے گا اور آپ دوسرے لوگوں سے مختلف انسان بن جائیں گے۔
ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ ایسی کیفیت و حالت میں رہیں جس میں ہم خود کو Empower محسوس کریں ۔ تمام مثبت حالتوں میں انسان خود کو Empower محسوس کرتا ہے جبکہ تمام منفی حالتوں میں ہم خود کو کمزور، لاچار اور بے بس سمجھتے ہیں ۔
شروع میں خود کو مثبت اور مفید رکھنا مشکل محسوس ہوگا لیکن آہستہ آہستہ ہمیں اس کی عادت ہو جائے گی اور پھر ایک وقت ایسا آئے گا جب کسی منفی اور مفلوج حالت میں رہ ہی نہیں سکیں گے۔ جونہی کوئی منفی کیفیت ہم پہ طاری ہوگی ہم فوراً اپنے فوکس کو بدل کر مثبت اور قابلِ اقدام حالت میں آ جائیں گے۔
بچپن اور ٹین ایج کے سال بے حد حساسیت میں گزارنے کے بعد جب پرسنل ڈویلپمنٹ میرا ہدف بنا تو میں نے اپنی یہ کمزوری فوراً محسوس کرلی ۔ اس وقت کا اکثر حصہ غصے ، فکر ، پریشانی ، ماضی کے ناخوشگوار واقعات اور مستقبل کے کبھی پیش نا آنے والے واقعات پہ کڑھنے میں گزرا۔
سچ تو یہ ہے کہ اللہ پہ کامل یقین کے خودکشی کی سخت سزا کا آخرت میں یقین نہ ہوتا تو شاید ان سالوں میں کبھی خودکشی بھی کرلی ہوتی۔
زندگی کی دوسری دہائی کے ابتدائی سالوں میں ہی نفسیات ‘ مابعد النفسیات ‘ ماٸنڈ ساٸنسسز ‘ ہپناٹزم، این ایل پی جیسے علوم کے مطالعے نے سوچوں پہ کنٹرول ، پیش آنے والے واقعات کی مثبت تشریح ، آزاد آزاد گوئی و آزاد نگاری جیسے طریقوں سے ذاتی تحلیل نفسی کے طریقوں نے ذہن کی واٸرنگ ہی بدل دی۔
اب صورتحال یہ ہے جب کبھی دکھ و تکلیف کی زیادہ شدید حالت ہو تو اس رات مجھے بہت اچھی اور گہری نیند آتی ہے اور پچھلے دن گزر جانے والے دکھ ، درد اور تکلیف دور کہیں لاشعور کے ڈسٹ بن میں جاگرتے ہیں اور میں Healed ہوجاتا ہوں ۔
سچ تو یہ ہے کہ ایسی خوبی کچھ لوگوں کے نزدیک خامی ہوتی ہے، ان کے خیال میں ایسا فرد سنگدل ، بے وفا، احساس و جذبات سے عاری ایک ڈھیٹ انسان ہوتا ہے مگر
میں جانتا ہوں کہ میں کیا ہوں ۔ اور مجھے شاید ہی گزشتہ دس سالوں میں کبھی سوشل اپروول کی ضرورت محسوس ہوئی ہو ۔ اللہ کا شکر ہے کہ زندگی کے تمام لمحات کو ہر طرح کے حالات میں انجوائے کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے ۔ خوش رہنا ایک آرٹ ہے جو سیکھنا پڑتا ہے ۔ رونا تو ہم پیدائش سے ہی سیکھ کرآتے ہیں ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ خود پہ کام کریں ۔ اپنے ذہن، سوچوں اور خیالات کو سمجھیں اور انہیں مسخر کریں۔
اقبال نے شاید اسی موقع کے لیے کہا تھا :
گزرنے والا سورج کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کرنہ سکا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کیے بغیر زندگی کی تاریک شب کو سحر میں بدلنا ممکن نہیں ہے۔
اختتام پہ میں آپ کو ایک سادہ سی ٹیکنیک بتانا چاہتا ہوں ۔ جب بھی آپ خود کو ڈپریس یا Low محسوس کریں، سب سے پہلے ہیجانی حالت کو پہچان کر اسے شعور میں لائیں ۔ اس حالت کو ایکنالج کریں اور خود سے کہیں کہ میں اس ڈپریسیو کیفیت میں ہوں ۔
اگلا قدم یہ ہے کہ فوراً فیصلہ کریں کہ مجھے اس حالت کو بدلنا اور Empowering یا قابلِ اقدام حالت میں آنا ہے۔ فیصلہ کرنے کے ساتھ ہی ماضی کا کوئی خوشگوار واقعہ یاد کریں اور پوری شدت ، اور تفصیلات کے ساتھ اس واقعے کو دیکھیں ۔ اپنے جذبات کو شامل کریں۔ وہاں موجود رنگوں ، آوازوں ، موسم اور ہوا کے نرم سے پریشر کو بھی محسوس کریں ۔ جتنی پرفیکٹ تصویر اپنے تخیل یا ذہن کی سکرین پہ بنا سکتے ہوں، بنائیے۔
آپ فوراً ڈپریسیو سٹیٹ سے نکل آئیں گے ۔ اس حالت سے نکلنے کے بعد خود کو کسی تعمیری کام میں مصروف کرلیں، جیسے کسی کتاب کا مطالعہ ، کوئی اسائنمنٹ ، بزنس پروجیکٹ یا کچھ بھی۔
بس ! کچھ دیر خود کو مصروف رکھیں ۔ ذہن پھر پرانی سٹیٹ میں جانا چاہے تو پھر یہی مشق دوہرائیں۔
اصل کام اپنی منفی ہیجانی طاقت کو پہچاننے اور شعور میں لا کر ایکنالج کرنے کا ہے ۔ آگے کا کام آسان ہے۔