مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک بھر سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نصف اراکین اسمبلی ان کی پارٹی سے رابطے میں ہیں تاکہ ان کی جماعت اگلے الیکشن میں انہیں ٹکٹ دے سکے۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نے کہا کہ ہر رکن قومی اسمبلی کو نظر آ رہا ہے کہ اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کی ٹکٹ جنت کی نہیں، جہنم کی ٹکٹ ہو گی تو اس لیے وہ سب اس کشتی سے چھلانگ لگانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ آدھی تحریک انصاف اب کسی نہ کسی طرح رابطے کرتی ہے کہ ہمارے لیے کوئی جگہ بنائیں اگلے الیکشن میں اگر ہم شامل ہوں، ہمیں ٹکٹ کی گارنٹی دیں لیکن ہم ابھی کسی کو ہاتھ نہیں پکڑا رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اتنی قربانی دینے کے بعد اگر ہم دوبارہ لوٹوں کو پاک صاف کر کے اپنی جماعت میں شامل کریں گے، ان کے سر پر ہاتھ رکھیں گے تو یہ بہت غیرمناسب بات ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سے رابطہ کرنے والے تحریک انصاف کے رہنما جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا، وسطی پنجاب سمیت پورے ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ آزادی مارچ ہوا تھا تو اس وقت اپوزیشن جماعتوں میں وقت پر اختلاف ہوا تھا لیکن اب اپوزیشن کی تمام جماعتیں وقت کے لحاظ سے متفق ہیں کہ اب اس حکومت کو جلد از جلد رخصت کرنا ہی ملک اور عوام کے مفاد میں ہے۔
جب سابق وزیر داخلہ سے سوال کیا گیا کہ کیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں مولانا فضل الرحمٰن گارنٹی ہیں تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی کسی کے لیے گارنٹی نہیں، ہر جماعت خود اپنے لیے ایک گارنٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں متفق ہیں کہ ہم اس وقت شدید بحرانی صورتحال سے دوچار ہیں اور کوشش کریں گے کہ اپوزیشن کے مشترکہ دباؤ کے نتیجے میں کوئی ایسی صورت پیدا ہو جس سے ہم انتخابات کی طرف جا سکیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ اگر کورونا نہ آتا تو مجھے یقین تھا کہ بجٹ کے بعد حالات تیزی سے بدلتے اور ہم اس سال ستمبر سے دسمبر کے درمیان انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنا سکتے تھے لیکن جوں ہی ہم کورونا سے نکلیں گے تو مجھے یقین ہے کہ اس سال کے اختتام تک نہیں تو اگلے سال کے شروع میں ضرور کوئی بہتری کے حالات پیدا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ مشرف دور کی ابتدا میں مجھ پر دباؤ تھا، مجھے اغوا بھی کیا گیا، جیسے مطیع اللہ جان اغوا ہوئے بالکل ویسے میں بھی اغوا ہوا تھا اور اس وقت اور بھی دباؤ تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے تو اس وقت پیشکش کی گئی تھی کہ آپ مسلم لیگ (ق) میں آ جائیں، حکومت میں جو عہدہ لینا چاہتے ہیں لے لیں بلکہ اس وقت میرے پاس ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کا عہدہ تھا جو ایک سال تک خالی رکھا گیا تھا اور مجھے مسلسل پیشکش تھی کہ آپ سیدھے جا کر اپنے عہدے کو سنبھالیں۔
واضح رہے کہ چند روز قبل احسن اقبال نے کہا تھا کہ ان کی جماعت پنجاب بچاؤ تحریک کا آغاز کرے گی جسے پی ٹی آئی حکومت نے 2 سال میں تباہ کردیا ہے تاہم انہوں نے اس تحریک کی کوئی ٹائم لائن نہیں بتائی تھی۔
یاد رہے کہ اپوزیشن کی جانب سے حکمران جماعت تحریک انصاف کی پالیسیوں کو مستقل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان کو لانے کا مقصد نئے پاکستان میں 90 روز کے اندر کرپشن سے ملک کو پاک کرنا تھا اور اب عوام سے پوچھیں کہ نئے پاکستان میں کرپشن کا گراف کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل کے مطابق سلیکٹڈ دور میں جو کرپشن ہورہی ہے، پاکستان کی تاریخ میں اتنی کرپشن نہیں ہوئی، یہ حکومت رہی تو جمہوریت، معیشت اور معاشرے کو نقصان ہوگا اور کسی کو این آر او نہ دینے کی بات کرنے والے عمران خان نے سب سے زیادہ ایمنسٹی دی ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت کے خلاف اتحاد تشکیل دینے کی کوششیں اس وقت زور پکڑتی ہوئی نظر آئیں جب کئی ہفتوں کی خاموشی کے بعد چند دن قبل اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا رابطہ ہوا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ٹیلیفون پر گفتگو کی تھی جس میں ملکی سیاسی صورتحال خصوصاً تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی پر گفتگو کی گئی تھی۔