خدیجہ گیلانی :
عصر کی نماز پڑھ کر سلام پھیرا اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے :
رب الرحمھما کما ربایانی صغیرا
” اے اللہ !اے رب رحیم میری ماں پر ایسے رحم فرمانا جیسے شفقت سے انہوں نے بچپن میں مجھے پالا “
ایک بھولا بھٹکا منظر ایسے نگاہوں میں تازہ ہوا جیسے ابھی کل کا واقعہ ہے . رات کا پچھلا پہر ، چہار سو مہیب سناٹا ، ہر شخص گہری نیند کے مزے لے رہا ہے۔ ایسے میں تین ، چار برس کی ایک بچی اپنی ماں کو پاوں سے پکڑ کر ہلاتی ہے اور منہ سے کچھ عجیب و غریب آوازیں نکالتی ہے۔
بچی گونگی تو نہیں ہے لیکن کسی تکلیف میں مبتلا ہے، ماں فوراً اٹھ بیٹھتی ہے، بچی کو سینے سے لگاتی ہے اور بچی کی تکلیف کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ بچی کے ہونٹوں پر چھالے نکلے ہیں جن کے باعث کچھ بھی کھانے اور بولنے سے قاصر ہے (ویسے تو شاید پٹر پٹر زبان چلتی ہی ہو )۔ ماں بچی کے ہونٹوں کو ایک کونے سے صاف کرتی ہے، سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں تازے مالٹے کا جوس نکالتی ہے اور اسٹرا کی مدد سے بچی کو پلاتی ہے۔
بچی کے ذہن میں تو یہی دھندلی سی یاد ہے لیکن کیا معلوم بچی نے اس کے بعد بھی کب تک ماں کو جگائے رکھا ہو! کون جانے ننھا بھائی جاگ گیا ہو اور ” ماں “ ساری رات سو ہی نہ پائی ہو۔
یہ بچی کوئی اور نہیں میں خود تھی ۔
انسان سوچنے بیٹھے تو ان گنت واقعات ، قدم قدم پر ماں کی محبت ، لمحے لمحے میں ماں اور بچوں کی محبت کی کہانیاں نقش ہوتی ہیں .
مائیں تو سبھی خاص ہوتی ہیں لیکن میری امی بہت خاص الخاص تھیں ، مہربان اور شفیق، بہت حوصلہ مند ، مضبوط اعصاب کی مالک ، ہر ایک کی ہمدرد اور غم گسار .
زندگی میں بہت سے غم برداشت کئے ، مصائب کا سامنا کیا لیکن میں نے انھیں ہمیشہ اللہ کا شکر گزار پایا . امی کی زندگی پر نظر ڈالوں تو ایک جہد مسلسل ہے ، ہنر مند اور سلیقہ شعار میری امی نے ہمیشہ ہر کام خود کیا اور زندگی کے آخری لمحے تک مصروف عمل رہیں .
اسکول کی سر کھپا دینے والی روٹین ، اس کے بعد گھر اور بچے ، اپنی تمام ذمہ داریوں کو ہمیشہ بحسن و خوبی نبھایا .اپنی مصروف ترین زندگی میں بھی ہم بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت سے کبھی غافل نہ ہوئیں . جب بڑے ہو کر خود کتابیں پڑھیں تو بہت سی احادیث ایسی نظر سے گزریں جو بچپن سے ہم نے سن رکھیں تھیں۔
کتنا خاص تھا وہ علم جو سینہ بہ سینہ مائوں کے ذریعے ہم تک منتقل ہوتا تھا، آج کل کے بچے بہت حد تک اس سے محروم ہی ہیں اور مائیں اسی تگ و دو میں ہوتی ہیں کہ کون سا لیکچر بچے کو سنوانا ہے اور کون سا کورس کروانا ہے . خیر تاریخ کے کتنے ہی واقعات ، سیاسی اور سماجی حوالے سے ہم بچپن سے جانتے ہیں.
عموماً یہ بات والد کے لئے کہی جاتی ہے لیکن چونکہ ہمارے ابو کا انتقال ہمارے بچپن میں ہی ہو گیا تھا لہذا میں یہ امی کے بارے میں کہوں تو کچھ غلط نہ ہو گا کہ امی نے ہمیں کھلایا سونے کا نوالہ لیکن دیکھا شیر کی نگاہ سے.
ہم بہنوں کو کہیں بھی اکیلے جانے کی اجازت نہیں تھی جب تک ہمت رہی اور صحت نے ساتھ دیا تو خود ہمراہ جاتیں اور اس کے بعد بھائیوں کی ذمہ داری رہی کہ وہ ہمیں ہر جگہ لے کر جائیں . عموماً جذباتی باتیں ذرا کم ہی کرتی تھیں لیکن ایک مرتبہ ہم میں سے کسی بہن نے کہہ دیا کہ سب لڑکیاں اکیلے ہر جگہ جاتی ہیں آپ ہمیں نہیں جانے دیتیں تو افسردہ ہو گئیں اور کہا یہ میرے ہیرے ہیں، میں نے ان کو بہت سنبھال سنبھال کر رکھا ہے.
قرینہ اور سلیقہ تو امی پر ختم تھا ، سینا ، پرونا ، کاڑھنا ، بننا ، کھانا پکانا ، صفائی ستھرائی ہر فن میں طاق تھیں . شادی سے پہلے کھانا پکانا نہیں آتا تھا لیکن شادی کے بعد ایسا سیکھا کہ ابو کے دوست فرمائشیں کر کر کے پکواتے تھے کہ گیلانی صاحب کافی دن ہو گئے آپ نے دعوت نہیں کی .
سلائی کی ایسی ماہر تھیں ہم بہنوں کے مختلف نت نئے ڈیزائن کے کپڑے سیتی تھیں ، غرارے اور چوڑی دار پاجامے کی کٹنگ کروانے تو رشتہ دار اور جاننے والے خاص طور پر امی کے پاس آتے تھے . اگر آج کے دور کی ہوتیں تو بلاشبہ ایک بہترین ” ڈریس ڈیزائنر “ ہوتیں .
بہت زیادہ مہمان نواز تھیں ، حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ رہے انہوں نے مہمانوں کے لئے اپنا دسترخوان ہمیشہ وسیع رکھا . وہ بلاشبہ ان لوگوں میں سے تھیں جو چراغ جلا کر خود بھوکے رہ لیتے اور مہمان کو پیٹ بھر کھانا کھلاتے ہیں .
کسی سے لاکھ اختلاف ہوتا لیکن گھر آئے مہمان کی ہمیشہ عزت کرتیں . ایک مرتبہ ہمارے ایک رشتہ دار نے اپنے گھر پر امی کے ساتھ کافی برا اور تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا پھر کچھ عرصے کے بعد وہ صاحب ہمارے گھر آئے تو امی نے پہلے کی مانند ان کی تواضع کی اور عزت دی. میں کافی جزبز ہوئی کہ انہوں نے آپ کے ساتھ اتنا غلط کیا تھا تو کہنے لگیں کہ اب تو وہ ہمارے گھر آئے ہیں اور ساتھ ہی مجھے تلقین کی کہ دشمن بھی گھر آ جائے تو اس کی عزت کرو .
چھوٹی چھوٹی چیزوں سے نیکیاں کماتی تھیں . زندگی کے آخری کچھ سال ہمارے گھر کے ایک کونے میں کاٹھ کباڑ اکٹھا ہوتا تھا جس میں پلاسٹک کی خالی بوتلیں ، گتے کے ڈبے ، ردی کاغذ وغیرہ شامل تھے جو ہمارے گھر آنے والی ایک مددگار خاتون کو دیتی تھیں . میں کہتی امی ہمارے گھر آنے والے مہمان سوچتے ہوں گے کہ ان کا کباڑ کا کاروبار ہے یہ سب آپ کوڑے میں جانے دیں لیکن وہ کہتی تھیں تمہیں کیا معلوم اس (مددگار خاتون ) کے لئے یہ سب کتنا قیمتی ہے .
سب سے بڑی بہن اور سب سے چھوٹے بھائی سے بے پناہ محبت کرتی تھیں . ہم باقی سب جب انہیں کہتے کہ آپ ان دونوں سے زیادہ محبت کرتی ہیں تو کہتیں کہ نہیں، مجھے سب سے محبت ہے . اور یہ تھی بھی حقیقت ان کے دل میں سب کے الگ الگ خانے تھے . سب کی پرواہ ، ہر ایک کا الگ ڈھب سے خیال . انہوں نے زبان سے بھلے شاید کبھی اپنی محبت کا اظہار نہ کیا ہو لیکن ان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اس محبت کا عملی اظہار تھا .
آج ان کو دنیا سے گئے چھ برس بیت گئے لیکن ان کی محبت کی خوشبو ان کی دعائوں کے ثمرات آج بھی محسوس ہوتے ہیں . وہ ایک عظیم ماں اور سعید روح تھیں .
امی مجھے آپ کی بیٹی ہونے پر فخر ہے .
اللہ سے دعا ہے کہ وہ امی کی تمام مساعی کو ان کے حق میں حجت بنا ئے اور ہم بہن بھائیوں کو اپنے والدین کے لئے صدقہ جاریہ . آمین
ایک تبصرہ برائے “امی”
خدیجہ صاحبہ سادگی اور خوبصورتی سے اپنی والدہ صاحبہ کو ھم سےمتعارف کروانے کا شکریہ۔ اللہ تعالیٰ ہر ماڈرن ماں کو پرانی سادہ ماوں کی طرح کر دے تو معاشرہ بہت اچھا ہو جائے ۔