ونود مہتا کی Editor Unplugged

خوشونت سنگھ کی جرات مندی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمود الحسن :

محترم شمیم حنفی صاحب نے گریش کرناڈ پر اپنے مضمون میں، ان کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ ٹیگور کو دوسرے درجے کا ڈراما نگار سمجھتے تھے۔اس پر میرا دھیان نامور ہندوستانی صحافی ونود مہتا کی کتاب Editor Unplugged کی طرف گیا جس میں خوشونت سنگھ کی جرات مندی کو سلام پیش کیا گیا ہے ۔ان کی دلاوری کے بارے میں جو دو مثالیں انھوں نے دی ہیں، ان میں سے ایک کا تعلق ٹیگور سے ہے۔

ونود مہتا نے لکھا ہے کہ خوشونت نے ایک دفعہ شلونگ میں ٹیگور پر تنقید کی۔مشرقی ہندوستان میں یہ ایسے ہی ہے جیسے نازی جرمنی میں ہٹلر کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا۔

خوشونت سنگھ نے ایک لیکچر میں کہا کہ وہ ٹیگور کو عظیم رائٹر نہیں سمجھتے۔ ونود مہتا کے بقول، مقامی طور پراس نقطہ نظر کی اجازت نہیں تھی گو کہ غیر ملکی سکالر یہ بات کرتے رہتے۔ ٹیگور کے بارے میں خوشونت سنگھ کے خیالات کی اخبارات میں اشاعت سے طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔

کیمونسٹ، کانگریس اور بنگالی بھدرا لوک جن کی آپس میں نہیں بنتی تھی لیکن اس معاملے میں وہ ایک ہوگئے اور مشتعل ہوکر احتجاج کی دھمکی دی۔ اس صورت حال میں خوشونت کو کلکتہ چھوڑنا پڑا ۔ ائیرپورٹ پران سے بدسلوکی بھی ہوئی ۔اس سب کچھ کے باوجود خوشونت سنگھ نے اپنی رائے نہیں بدلی بلکہ وہ اسے اپنے کالموں میں دہراتے رہے۔

خوشونت سنگھ کی جرات مندی کی دوسری اور بڑی مثال جو ونود مہتا نے دی ہے، وہ ان کی خالصتان تحریک کے عروج پر جرنیل سنگھ بھنڈرا والا کی خم ٹھونک کر مخالفت ہے جس پرجرنیل سنگھ بھنڈرا والا نے بھنا کر خوشونت سنگھ اور اس کے خاندان کو ختم کرنے کی دھمکی دی ،اس کے نتیجے میں خوشونت کو پندرہ برس پولیس کے سخت حفاظتی حصار میں رہنا پڑا لیکن وہ جرنیل سنگھ کو آڑے ہاتھوں لینے سے باز نہ آئے۔

خوشونت سنگھ کی آزادیٔ رائےسے کمٹمنٹ کے بارے میں پڑھ کر ذہن محمد کاظم کے ایک تبصرے کی طرف منتقل ہوا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ آزادیٔ رائے کے لیے بڑا بلیدان دینا پڑتا ہے۔ان کے بقول ’’ رجعت پسند اور روایت پسند معاشروں میں آزاد خیالی تو کسی طور پنپ لیتی ہے کہ یہ عموماً شخصی اور انفرادی دائرے میں رہتی ہے لیکن آزادیٔ رائے اپنی سزا بھگتے بغیر نہیں رہتی اور بہت کم ایسا ہوا ہے کہ وہ اپنے انجام سے بچ کر نکل گئی ہو۔‘‘

ونود مہتا نے لکھا ہے کہ خوشونت نے جو جرات دکھائی وہ نہ صرف ایڈیٹروں کے لیے ایک مثال ہے بلکہ آزادی سے محبت کرنے والے شہریوں کے لیے بھی۔ وہ جرنیل سنگھ بھنڈرا والا کے مقابلے میں خوشونت کی جرات مندی کو چیزے دیگری قرار دیتے ہیں۔

جرنیل سنگھ کی مخالفت اپنی جگہ لیکن 1984 میں اندرا گاندھی نے آپریشن بلیو سٹار میں گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا تو خوشونت سنگھ نے اس کی شدید مخالفت کی اور احتجاجاً پدم بھوشن ایوارڈ حکومت کو لوٹا دیا۔ایوارڈ کی اس واپسی پر ونود مہتا نے تنقید کی اور کہا کہ ایک انڈین یا پھر ایک سکھ ؟دونوں میں انتخاب کا معاملہ درپیش ہونے پر خوشونت سکھ ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔

خوشونت نے اس پر پلٹ کر جواب دیا کہ ہندوﺅں کو اپنی قوم پرستی ثابت نہیں کرنی پڑتی۔ یہ صرف مسلمان ، سکھ اور عیسائی ہیں جنھیں اپنی حب الوطنی کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔

خوشونت جو اس وقت ونود مہتا کے زیر ادارت ’ سنڈے آبزرور‘ کے اہم ترین قلم کار تھے انھوں نے اس جریدے میں لکھنا چھوڑ دیا۔

ونود مہتا کا کہنا ہے کہ ہیمنگوے کے نزدیک دبائو میں Grace سے کام لینا جرات مندی ہے۔ ان کے خیال میں خوشونت کےنزدیک Grace کی تو زیادہ اہمیت نہیں لیکن جہاں تک اس کی جسمانی اور اخلاقی جرات کی بات ہے تو وہ ہیمنگوے کی جرات مندی کی محدود تعریف سے آگے کی چیز ہے۔

آخر میں ہم یہ بتا دیں کہ ونود مہتا نے کتاب میں اپنی پسندیدہ ان چھ شخصیات کا خاص طور پر ذکر کیا ہے:
٭خواجہ احمد عباس
٭رسکن بونڈ
٭سچن تینڈولکر
٭جونی واکر
٭خوشونت سنگھ
٭ارون دھتی رائے

ونود مہتہ کی یہ کتاب بہت اچھی ہے لیکن مجھے ان کی یادداشتوں کی پہلی کتاب lucknow boy زیادہ پسند ہے جو مدتوں سے ایک ملتانی دوست کے قبضے میں ہے۔ ونود مہتا کی دونوں کتابیں پڑھ کو میرے ذہن میں یہ بات آئی تھی کہ آخر ہمارے بڑے صحافی اس طرح سے اپنی یادداشتیں کیوں نہیں لکھتے؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں