ڈاکٹر میمونہ حمزہ :
بے جی کی ڈاڑھ میں کئی دنوں سے درد تھا، دن تو جیسے تیسے کر کے گزر جاتا مگر رات گزارنی مشکل ہو جاتی، گھر میں کوئی بھی مرد فارغ نہ ہوتا کہ انہیں ہسپتال لے کر جائے، ایک دن ان کے پوتے کو فرصت ملی تو وہ خوش ہو گئیں، کہنے لگیں: میں آج دو ڈاڑھیں نکلوا آؤں گی تاکہ درد سے نجات مل جائے، اب ان ہلتے دانتوں کا کیا کرنا ہے؟!
ہسپتال جا کر ڈاکٹر کو دکھایا، معمول کی کاروائی ہوئی، انہوں نے ڈاکٹر کو دونوں دانت نکالنے کا کہا، تو اس نے منع کر دیا، بولا:
’’ایک دن میں ایک ہی ڈاڑھ نکالتے ہیں اماں جی ۔۔‘‘۔
بے جی خاموش ہو رہیں، ویسے بھی ڈاکٹروں کے متھے کون لگے، وہ بات مانتے تھوڑی ہیں، بس اپنی ہی کرتے ہیں، ڈاکٹر نے بے جی کے منہ میں اوزار لگا کر درد والی جگہ داڑھ کا معائنہ کیا اور پرچی پر چند آڑھی ترچھی لائنیں لگا کر انتظار گاہ میں بھیج دیا۔
پوتے صاحب نے بے جی کو دوبارہ بتایا کہ آج ایک داڑھ نکالیں گے دوسری دو دن بعد۔ بے جی خاموشی سے سنتی رہیں، شاید انہوں نے اسی رائے کو تسلیم کر لیا تھا، ڈاکٹر نے داڑھ نکالنے کا عمل شروع کیا تو بے جی کچھ بے چین ہو گئیں، ہاتھ منہ کے قریب بھی لے جانے کی کوشش کی، جسے ڈاکٹر کے اسسٹنٹ نے ناکام بنا دیا، جب ڈاڑھ نکالنے کا عمل مکمل ہو گیا تو بے جی نے اپنی رکی ہوئی بات اگل دی،
’’ڈاکٹر صاب ، تساں دوجی داڑھ کڈی چھوڑی ہے‘‘(ڈاکٹر صاحب آپ نے دوسری داڑھ نکال دی ہے، درد تو ساتھ والی ڈاڑھ میں تھا)۔
بے جی نے ڈاکٹر صاحب اور ان کی ڈاکٹری کو بے نقط سنا ڈالیں، ’’اسے طرح کرنے ہو مریضاں نال، دند ہور دکھنا اے، کڈی ہور چھوڑیا‘‘، (اسی طرح آپ مریضوں سے کرتے ہیں، دانت ایک درد کر رہا ہو، نکال دوسرا دیتے ہیں)، ڈاکٹر صاحب نے خاموشی سے اوزار اٹھائے اور دوسرا دانت بھی نکال دیا۔ گھر پہنچ کر بے جی کمال اطمینان سے بولیں:
’’آکھنا سی، اک دہاڑی اکے دند کڈساں‘‘، (کہہ رہا تھا ایک دن میں ایک ہی دانت نکالوں گا)۔
٭۔۔٭
بے جی سے ہمارا تعلق محبت کا تھا، اور محبت کرنے والوں کی زندگی میں جتنے مدّو جزر ہوتے ہیں، وہ ہماری زندگی میں بھی تھے، پھر یوں ہوا کہ متاع ِ حیات کے چھ برس ان کے ساتھ گزارنے کے بعد ہمیں اگلے چار برس کے لئے برطانیہ جانا پڑ گیا، بے جی نے ہمیں سسکیوں میں نہیں، ہچکیوں میں رخصت کیا، جھولی بھر دعاؤں کے ساتھ!!
اور پھر ہمارا رابطہ چٹھیوں اور فون کالز تک محدود ہو گیا، ان دنوں برطانیہ سے کال کرنا بھی ایک طالب علم کے لئے محدود وسائل میں مشکل ہی تھا، مہینے میں دو ایک کالز ہی ہو پاتیں، تشنہ تشنہ سی ۔۔ البتہ خط ہم کھل کھلا کر لکھتے، اور بے جی بھی پڑوس کی لڑکی سے جواب لکھوا کر ارسال کرتیں، جو نامہ محبت سے کم کیا تھے!!
چار سال بعد وطن واپس ہوئے تو بے جی کی محبت کا زمزمہ جاری تھا، ہم انہیں ساتھ لے کر مظفر آباد آگئے، جہاں کے سخت سرد موسم، ملازمہ کی عدم موجودگی اور پانچ بچوں کی پرورش اور نگہداشت اور گھریلو امور نے ہمیں ’’بولا‘‘ کر رکھ دیا، کبھی کوئی کام وقت پر نہ ہو پاتا اور کبھی کوئی ۔۔ اور بے جی کے کئی مطالبات اور ضروریات پر بھی بروقت کان نہ دھرا جاتا، بے جی کچھ دن دیکھتی رہی، اور پھر ایک روز گلہ زبان پر آ ہی گیا:
’’بیٹی، تساں بدلی گئے او ۔۔ ‘‘، (بیٹی آپ بدل گئی ہیں)۔
بے جی کے اس انکشاف نے ہمیں بہت دکھی کیا، اپنے طور پر وضاحت کی بھی کوشش کی، اور انکے گلے دور کرنے کی بھی، معاملات میں کچھ درستی پیدا ہوئی، مگر کب تک ۔۔ کچھ روز بعد بے جی نے پھر یہی گلہ کیا، اب کے ہماری وضاحت میں بھی گلہ تھا، مصروفیات اور تھکاوٹ کا رونا بھی تھا، کچھ دن کے لئے معاملات پھر معمول پر آگئے، لیکن اب یہ گلہ بار بار اور کم وقفے سے اور زیادہ شدت سے ہونے لگا، تو ایک روز ہم نے بھی جوابی کاروائی کا سوچا۔ بے جی نے کسی معاملے پر ہماری نہ مانی تو ہم نے جھٹ سے کہہ دیا:
’’بے جی تسی بدلی گئے او ۔۔ ‘‘، بے جی نے حیرت سے کم اور صدمے سے زیادہ ہماری جانب دیکھا، اور فوراً وضاحتیں کرنے لگیں،
’’بیٹی، ماڑا اللہ جاننا اے، میں نہ بدلی ۔۔ ‘‘ (بیٹی میرا اللہ جانتا ہے میں نہیں بدلی)۔ پھر کام کرتے ہوئے بے جی نے ایک مرتبہ پھر بلا کر ہماری تسلی کروائی کہ ہم ایسے کسی خیال ِ بد کو اپنے دل میں جگہ نہ دیں، ان کی محبت اور اخلاص اسی طرح باقی ہیں، (یعنی ہمالہ کی طرح بلند اور سمندر سے گہرا)، ہم نے اپنی مسکراہٹ دبائی اور تیر نشانے پر لگنے نے ہمیں اندر تک مسرور کر دیا۔
اگلے دن ہم نے پھر یہی کاروائی کی، جونہی ہم نے کہا: ’’بے جی تسی بدلی گئے او‘‘، وہ تلملا کر رہ گئیں، اور پھر وضاحتوں کا لمبا سلسلہ، ہم خوش خوش واپس پلٹے، لیکن جب تیسری مرتبہ ہم نے اسی نسخے کو آزمایا تو بے جی رونے لگیں،
’’ بیٹی ، تساں کے بانے او ۔۔‘‘، (بیٹی آپ کیا کہہ رہی ہیں)، اور بس بے جی کو چپ بھی کروانا پڑا، اور یہ بتانا بھی پڑا کہ جب آپ یہی جملہ کہتی ہیں تو میرا بھی دل اسی طرح دکھتا ہے۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ پھر بے جی نے ما قبل اور ما بعد کی محبتوں کا جائزہ بیان کرنا چھوڑ دیا۔
٭۔۔٭
بہار کا موسم آیا تو بچوں نے اصرار کیا، کہ وہ توتے پالیں گے، اتوار بازار سے سبز بولنے والے توتے کے بچے مل گئے، جو اتنے چھوٹے تھے کہ ابھی ان کے جسم پر پر بھی نہ آئے تھے، دکاندار نے انہیں سنبھالنے کا طریقہ بتایا اور کچھ خاص ہدایات بھی دیں، اور جناب ہم دل و جان سے ان کی خدمت میں جت گئے،
انجیکشن والی سرنج کی سوئی نکال کر، اس میں گھلا ہوا بیسن بھر کر توتے کے حلق میں انڈیلا جاتا، اور ہر دو تین گھنٹے بعد اسی عمل کو دہرایا جاتا، اس کے جسم کو سردی سے بچانے کا اہتمام بھی ہوتا، ایک بچے کی پرورش سے کچھ کم کام تھا اس کا!
بے جی نے کہا بھی کہ بیٹی ایسے نہیں پلتے’’ توتے‘‘، مگر اللہ کا کرم کہ توتے ہمارے ہاتھوں کے عادی ہو گئے اور بڑے ہونے لگے، ان کے جسم کو پہلے سیاہی مائل کیلوں نے ڈھانپ لیا اور پھر ان سے سبز ’’ ریش ‘‘ برامد ہونے لگے، بالکل ایسے جیسے کیسی بیج سے پودے کی ننھی سی کونپل پھوٹتی ہے۔ بیٹے نے نانی جان کو فون پر بڑے اشتیاق سے بتایا:
نانی جان ہمارے پرندے بڑے ہو گئے ہیں، اب تو پر بھی نکل آئے ہیں۔
نانی جان خوش ہوئیں اور کہا، اچھا، تم کہتے ہو تو ایسا ہی ہو گا۔۔
بیٹا جھٹ بولا: نانی جان، آپ کو دکھانے کے لئے لے آؤں، شام کو ہم آ رہے ہیں آپ سے ملنے؟ اور نانی جان کے اقرار سے ہی وہ نہال ہو گیا:
ہم توتے ساتھ لیکر جائیں گے،نانی جان نے منگوائے ہیں۔
دادی جان نے سمجھایا: دیکھو، اس طرح توتے اڑ جائیں گے، کھلا آسمان دیکھ کر، مگر فرزند صاحب کہاں ماننے والے تھے، انہوں نے دادی جان کو بتایا کہ ابھی تو تھوڑے سے پر آئے ہیں، اور تھوڑا سا اڑتے ہیں، ڈبے میں ڈال کر لے جاؤں گا، اور پھر رات کو ہی واپس بھی لے آؤں گا۔
دادی جان کے اندیشے سر ابھار رہے تھے، بلی نہ جھپٹ لے جائے ۔۔
لیکن نانی جان کو دکھانے کا اشتیاق اتنا شدید تھا کہ اسے کچھ اور نہ سوجھ رہا تھا، اور بس پھر کیا تھا، دونوں توتے بخیریت نانی جان کے پاس پہنچ گئے، انہوں نے بڑی خوشی سے انہیں دیکھا، اللہ کی صناعی پر الحمد للہ کہا۔ گھر میں اور مہمان بھی آئے ہوئے تھے، نانی جان کی عیادت کرنے، اور ان کے لئے بھی توتے دلچسپی کا سامان تھے،
بیٹے نے پرشوق انداز میں ماموں کو بتایا:
یہ والا میرا ہے اور یہ اس کا، اشارہ چھوٹے بھائی کی جانب کیا، مزید یقین دہانی کے لئے دونوں نے اپنا اپنا توتا ہاتھ میں پکڑا، اور مٹھی میں قابو کرتے ہوئے ایک کے ہاتھ کی گرفت کچھ زیادہ ہی مضبوط ہو گئی، شاید انگلیوں نے گردن ناپ لی تھی، دیکھنے والے کی چیخ سنائی دی، اور ساتھ ہی ادھ موئے توتے کی چیخ نے فضا کا سکون غارت کیا۔۔ جتنی دیر میں اسے نیچے رکھا ، وہ دم توڑ چکا تھا ۔۔
اب غمگین قافلہ ایک توتے کو ڈبے میں بٹھا کر واپس گھر لوٹ آیا، غم اتنا شدید تھا کہ کسی نے ایک لفظ بھی زبان سے نہ نکالا۔ایک آدھ دن اپنے کمرے ہی میں بچ جانے والے توتے کو رکھا، صبح یونیورسٹی جاتے ہوئے اسے کھلا پلا جاتی، بے جی نے پوچھا بھی، کہ پہلے تو لاؤنج میں چھوڑ کر جاتی تھیں، اور ہم ہوں ہاں کر کے رہ گئے۔ تیسرے دن بے جی نے ہماری غیر موجودگی میں ڈبے پر چھاپہ مار کر جان لیا کہ اس میں تو میں بس ایک ہی توتا ہے، ہم نے گھر پہنچ کر سانس بھی درست نہ کی تھی کہ بے جی نے سوال کیا: ’’بیٹی دوجا توتا کتھے ہے؟‘‘
ہم نے ہولے سے کہا: بے جی ، اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ہے۔
بے جی نے چونک کر پوچھا: ’’کے بانے او؟‘‘ (کیا کہہ رہی ہیں، کچھ پلے نہیں پڑا)
ہم نے پوری سنجیدگی سے سابقہ جواب دہرا دیا۔ بے جی نے عدم فہم کی جانب اشارہ کیا تو ہمارے بھتیجے نے ساتھ والے کمرے سے ہانک لگائی اور ہماری مشکل حل کر دی:
دادی جی، چاچی اس کی جان پرواز یعنی اڑ جانے کا کہہ رہی ہیں۔
بے جی بولیں: میں پہلے ہی کہہ رہی تھی، پر نکل آئے ہیں، اڑ جائے گا، مگر میری کسی نے نہیں سنی۔ پھر خود کلامی کے انداز میں بولیں: ذرا سا پرندہ، کتنا اڑا ہو گا، اس کو تو اب تک بلی کھا چکی ہو گی۔۔
اور اب بے جی کے غم میں کیسے اضافہ کرتے، اگر انہیں بتاتے کہ بلی سے پہلے ہی ایک ہاتھ کی گرفت نے اس کا کام تمام کر دیا تھا۔۔
2 پر “بے جی کی باتیں” جوابات
بہت اچھا تزکرہ ہے بزرگوں کے دم سے گھروں اور دلوں میں رونق ہوتی ہے
بےجی ہمیں بالکل اجنبی نہیں لگیں۔ھم بے جی کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں ۔ فرصت ملے تو ضرور لکھیں ۔