ابو محمد مصعب :
ابن سعد اور ابن عَساکِر کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے صاحبزادے قاسمؓ تھے، ان سے چھوٹی حضرت زینب ؓ تھیں، ان سے چھوٹے حضرت عبدؓاللہ تھے، پھر علی الترتیب تین صاحبزادیاں اُمِّ کُلثوم ؓ، فاطمہؓ اور رُقَیَّہ ؓ تھیں۔ ان میں سے پہلے حضرت قاسم کا انتقال ہوا، پھر حضرت عبداللہ نے بھی وفات پائی۔
اس پر عاص بن وائل نے کہا:
”اُن کی نسل ختم ہو گئی۔ اب وہ ابتر ہیں“ (یعنی ان کی جڑ کٹ گئی)۔ بعض روایات میں یہ اضافہ ہے کہ عاص نے کہا ان محمدًا بتر لا ابن لہ یقومُ مقامہ بعد ہ فا ذا مات انقطع ذکرہ و استر حتم منہ ۔” محمدؐ ابتر ہیں، ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے جو ان کا قائم مقام بنے ، جب وہ مر جائیں گے تو ان کا نام دنیا سے مٹ جائے گا اور ان سے تمہارا پیچھا چھوٹ جائے گا“۔
عطاء کہتے ہیں کہ جب حضورؐ کے دوسرے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو حضورؐ کا اپنا چچا ابولہب (جس کا گھر بالکل حضورؐ کے گھر سے متصل تھا) دوڑا ہوا مشرکین کے پاس گیا اور اُن کو یہ ”خوشخبری“ دی کہ بَتِر محمّدٌ اللّیْلۃ۔ ” آج رات محمدؐ لا ولد ہوگئے یا ان کی جڑ کٹ گئی“۔ (بحوالہ تفہیم القرآن)۔
کفار کی انہی طعنہ زنیوں کے جواب میں اللہ پاک نے اپنے پیارے رسولؐ کو ڈھارس بندھاتے ہوئے سورۃ الکوثر نازل فرمائی اور اس کی تیسری و آخری آیات میں فرمایا:
”ان شانئک ھوالابتر (بے شک آپ کا دُشمن ہی جَڑ کٹا ہے“۔
یہ اللہ کی شان ہے کہ آج محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے نام کے کروڑوں لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں مگر ابولہب، ابو جہل وغیرہ نام یا لقب کا کوئی ایک شخص بھی آپ کو پوری دنیا میں نہیں ملے گا۔ پانچ وقت کی آذانیں پوری دنیا میں گونج رہی ہیں جن میں ” اشہد انّ محمدََ رسول اللہ “ دن میں کروڑوں مرتبہ پکار جاتا ہے اور یہ سلسلہ ان شاءاللہ تاقیامت چلتا رہے گا۔
کمیونسٹ انقلاب کے بعد لوگوں نے سمجھا کہ انہوں نے روس سمیت تمام کمیونسٹ ریاستوں سے اسلام کا نام و نشان مٹا دیا مگر ستر سال کے جبر کا شکنجہ جب ڈھیلا پڑا تو اسلام اسی آب و تاب کے ساتھ ابھر کر آسمانوں پر چمکنے لگا۔
اتاترک نے عربی میں آذان پر پابندی لگائی، اسلامی شعائر کو مٹا دیا اور اپنے تئیں مطمئن ہوگیا کہ اس نے ترکی سے اسلام کو دیس نکالا دے دیا ہے مگر آج جب آیا صوفیہ 86برس کی بندش کی بعد دوبارہ کھلی تو لوگوں نے ایک دن پہلے ہی مسجد میں اپنی اپنی جگہ سنبھال لی، ہزاروں لوگ دور دراز سے قافلوں کی صورت آئے اور اندر جگہ نہ ملنے پر آس پاس کی گلیوں میں فجر کے وقت ہی سے مصلے بچھا کر بیٹھ گئے۔
کیا آج کا یہ منظرنامہ دین بیزار لوگوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی نہیں اور کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ حضورؐ کا نامِ نامی تا قیامت رہے گا اور جن ناموں کے مقدر میں مٹنا لکھ دیا گیا ہے وہ آپؐ کے دشمنوں کے نام ہیں!
آپ گوگل پر تلاش کر کے دیکھ لیں، آپ کو درجنوں لنک ملیں گے جن میں بتایا گیا ہے کہ یورپ اور امریکا میں کئی چرچ بیچے گئے جنہیں خرید کر مسلمانوں نے مساجد میں تبدیل کر دیا مگر آپ کو کوئی ایک لنک بھی ایسا نہیں ملے گا جس میں بتایا گیا ہو کہ مسلمانوں نے کوئی مسجد، عیسائیوں یا یہودیوں کو بیچ دی ہو تا کہ وہ اس کو اپنی عبادت گاہ میں بدل دیں۔
اگر ایسی کوئی مثال ملے گی تو اس میں خریدوفروخت کا نہیں بلکہ جبر کا دخل ہوگا۔ لہٰذا آیا صوفیہ کے دوبارہ کھلنے سے عیسائیوں کو کوئی رنج نہیں، ہاں ہمارے نام نہاد سیکیولر طبقے کو ضرور تکلیف پہنچی ہے جو ایک مسجد کو میوزم تو گوارا کر سکتا ہے مگر میوزم کو دوبارہ مسجد بنا دیا جائے، یہ انہیں ہرگز قبول نہیں۔
آیا صوفیہ کی بحالی نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ نظریہ کو کبھی بھی جبر سے ختم نہیں کیا جا سکتا، نظریہ اگر سچا ہو تو ہمیشہ زندہ رہتا ہے، وہ اپنے ماننے والوں کے صرف دل و دماغ ہی میں باقی نہیں رہتا بلکہ برسرِ میدان بھی متحرک، کارگر و کارفرما رہتا ہے۔
دنیا میں کئی انقلابات آئے مگر ایسے مِٹے کہ آج ان کا نام و نشان تک باقی نہیں۔ دوسری طرف حضور ایک انقلاب لائے جس نے انسان کے دل و دماغ سے لے کر سماج تک کو بدل دیا۔ یہ انقلاب ایسا سچا اور پائیدار تھا کہ اسے جتنا مٹانے اور دبانے کی کوشش کی گئی یہ اتنی ہی قوت کے ساتھ ابھرا۔ تاریخ اپنے اپ کو بار بار دہرا رہی ہے۔ اس میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔
اسلام سچ ہے، اسلام حق ہے، اسلام طرزِ زندگی ہے۔ اس کی ہدایات اندھیروں اور ظلمات میں سورج کی روشنی ہیں۔ بھلا سورج کو بھی کبھی مٹھی میں قید کیا جا سکتا ہے؟