فریدہ یوسفی :
پہلے یہ پڑھیے:
خود ترحمی: خود کو یرغمال ہونے سے بچائیں ( قسط اول )
یہ تو بہت کہا جاتا ہے جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کو بچالیا،
کسی کو ناحق قتل کرنے والے کے بارے بھی قانونی و اصلاحی بیانات جابجا ملیں گے۔
یہ بھی کہا جائے گا کہ خودترحمی کا شکار ڈیپرسڈ اور سٹریسڈ لوگوں کا کندھا بنیں،ان کی سنیں وغیرہ۔
لیکن خودترحمی کے شکار لوگوں کو اپنی زندگی ختم کرلینے کا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کردینے والوں کا گریبان کوئی نہیں پکڑے گا۔
یا جو خودکشی نہ کرسکے لیکن معاشرے کے لئے،آس پاس کے لوگوں کے لئے، خود اپنے لئے باعث آزار بن جانے والوں کو اس حال میں پہنچانے والوں کے لئے کوئی کٹہرا نہیں ہے۔
کسی ذہنی و نفیساتی دباؤ کے شکار افراد کے احساسات و جذبات کو استعمال کرنے والے اصل قصور وار اور مجرم ہیں۔
یہ کون لوگ ہوتے ہیں ۔
یہ معاشرے کے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا، فراغت جزوی بھی ہوسکتی ہے اور مستقل بھی۔
اپنے فارغ وقت کے دوران معمول کی تفریح اور آرام سے اکتا جاتے ہیں تو کسی نئے ایڈوینچر کا شوق انہیں ایسے نفسیاتی و جذباتی دباؤ سے گزرنے والے افراد تک لےجاتا ہے۔
خودترحمی کا شکار فرد کسی کو اپنی طرف متوجہ پا کر اسے سہارا بنالیتا ہے۔
انسانی احساسات و جذبات جب کسی شدید کمزور لمحے کی زد میں ہوتے ہیں تو کسی مہربان کندھے کی تلاش میں وہ یہ دیکھنا بھول جاتے ہیں کہ سہارا دینے والا کہیں خود غرض اور مطلب پرست تو نہیں۔
یہ خود غرض اور مطلب پرست لوگ صرف اپنا فارغ وقت گزارنے ایک مسکین کو استعمال کرتے ہیں،
ہر وقت رابطے میں رہتے ہیں،
ہر مشکل کا حل پیش کرتے ہیں،
اپنی ایسی خواہشات جو جائز طریقے سے پوری نہیں کرسکتے ہوں گے وہ اس مسکین سے ایموشنل بلیک میلنگ کرکے پوری کروائیں گے۔
بے جا تعریفیں، وقت بےوقت ناجائز خواہشات ، خود کو مسیحا تصور کروانا ایسے لوگوں کے لئے چنداں مشکل نہیں۔
خودترحمی میں مبتلا فرد ان کو اپنا ملجا و ماویٰ سمجھ لیتا ہے، اس کی خوشی اس کا دھیان گیان اس کا ہر دن اور رات سب اسی خودغرض مہربان سہارے کے گرد گھومتا ہے۔
اب رقم نکلوانی ہو یا کوئی اور ناجائز خواہش پوری کروانی ہو ، یہ خودغرض سہارے کے دائیں ہاتھ کا کام ہے۔
پھر وہ وقت آتا ہے کہ دل بھر جاتا ہے کسی نئے ایڈوینچر کی جانب لپکنے لگتا ہے ۔
کہتے ہیں کہ شیطنت کے لئے مواقع ملنا کچھ مشکل نہیں ،
اسی طرح ایسے لوگوں کو کوئی نیا شکار باآسانی مل جاتا ہے تو پہلے والے کی زندگی سے نکلنے لگتے ہیں،
پہلے مصروفیات بڑھنے کے بہانے، صحت کی ناسازی کے بہانے، مشکلات مسائل کے رونے، وقت کی کمی کے رونے اور بھی کئی قسم کے رونے۔
وہ خودترحمی کا شکار فرد اس روئیے کو سمجھ نہیں پاتا، شکایت کرنے لگتا۔ شکوے بڑھنے لگتے، لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے، اس کی حیرت پریشانی میں بدلنے لگتی ہے یہاں تک کہ اسے خودغرض انسان کا اصل چہرہ نظر آنے لگتا ہے.
کسی کو موت کی گھاٹ اتار دینا تو قرار واقعی جرم ہے
کسی کو موت کے دہانے تک لے جانا کہ وہ اپنی زندگی ختم کرلے
یا
کسی کو اتنی اذیت دینا کہ وہ ساری عمر روز جئے، روز مرے۔
خود اپنے آپ کو آئینہ دکھائیے،
اللہ کی مخلوق پر دیدہ و نادیدہ ظلم کرنے سے ڈریں۔
اللہ سریع الحساب،
بے شک۔
کسی انسان کو اپنی وقت گزاری کا شکار نہ بنائیں۔۔۔۔ اس سے جھوٹے عہد و پیمان باندھ کر پھر ہوا میں معلق نہ چھوڑ دیں کہ وہ زندہ رہ سکے نہ ہی مر سکے۔
خود کشی کرنے والے بیشتر انسان ایسے ہی لوگوں کے رویوں اور سلوک کی وجہ سے مایوس ہوکر اپنی زندگی خود ختم کرلیتے ہیں۔
پہلے ساس بہو کے جھگڑے، روزگار کے مسائل، بھوک ، افلاس ، عشق محبت میں ناکامی کی وجہ سے لوگ حرام موت جیسا انتہائی قدم اٹھا لیتے تھے اور یہ شرح بہت کم تھی۔
آج ڈیجیٹل دور میں بہت ساری سوشل ایپس نے انسان کو انسان کے جذبات و احساسات سے کھل کر کھیلنے کے مواقع دے دئیے ہیں جس کی بدولت بہت سے انسان جانے انجانے میں شاطر اور خودغرض لوگوں کے ہاتھ استعمال ہوجاتے ہیں۔ آنکھ تب کھلتی ہے جب شکاری شکار کرکے اگلی منزلوں کو چل پڑتا ہے اور استعمال ہوجانے والا انسان خالی ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے نہ آگے بڑھ سکتا ہے نہ واپس پلٹ سکتا ہے ۔
خود کشی نہ کرے تو پھر وہ انتقامی جذبوِں کا شکار ہوکر معاشرے سے اس کا بدلہ لینے لگتا ہے۔
جہاں ہوگا وہاں انتشار پھیلائے گا، جہاں رہے گا دوسروں کو تکلیف پہنچائے گا۔ اپنی اذیتوں کو بیٹھ کر پہروں روئے گا، خود کو سکون نہیں دے گا نہ آس پاس کسی کو چین سے رہنے دے گا۔
خدارا ان سوشل ایپس اور سائٹس کو ایک حد تک استعمال کرنا سیکھیں۔
یہ گیجٹس استعمال کے لئے ہیں اس کے ذریعے انسانوں کو استعمال کرنا چھوڑ دیں۔
انسان قیمتی ہیں ان کا یقین اور اعتماد قیمتی ہے ۔
ایسا نہ ہو ان گیجٹس اور سوشل ایپس سے آپ کا فارغ وقت تو گزر جائے ، کسی انسان کی ہنستی بستی دنیا اجڑ جائے اور آپ کو اس کا جواب روز محشر دینا مشکل ہوجائے۔