ڈاکٹرجویریہ سعید، اردو کالم نگار، ماہر نفسیات

کتابیں پڑھنے والی لڑکی کے خواب ( دوسرا حصہ )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر جویریہ سعید :

اس پس منظر کے ساتھ اگر ہم آج آپ کو اپنے پسندیدہ ترین کرداروں کے بارے میں کچھ بتائیں تو آپ کو شاید ان سے ہماری وابستگی کا کچھ اندازہ ہو۔

ان میں پہلا کردار ایلس کا ہے۔ شاید چھٹی یا ساتویں جماعت میں اس کی دونوں کہانیاں ” ایلس کا خواب نگر “ اور ” ایلس کا آئینہ گھر“ پڑھ کر ہم اس کے اسیر ہو گئے۔ یہ کہانیاں کئی بار پڑھی گئیں۔ اور اس کے بعد کئی گھنٹوں تک باتھ روم میں بند ہوکر شیشے میں جھانکا گیا کہ کیا واقعی کسی دوسری دنیا میں داخل ہونے کی کوئی سبیل نکل سکتی ہے۔

یہ کہانیاں نان سینس فکشن کی صنف سے تعلق رکھتی ہیں۔

ایلس خود سے باتیں کرنے اور سوچنے والی ایک چھوٹی سی لڑکی ہے جو خواب کی کیفیت میں عجلت میں بھاگتے ایک خرگوش کے پیچھے ایک بل میں گھس جاتی ہے ۔اس خرگوش نے معزز آدمیوں کا سا کوٹ پہنا ہوتا ہے اور اپنے عدسہ سنبھالے بار بار جیبی گھڑی میں وقت دیکھتے عجلت میں بڑبڑاتا چلتا جاتا ہے اور اس کے تعاقب میں ایلس بھی ایک عجیب سی دنیا میں پہنچ جاتی یے۔ وہاں وہ چھوٹی سی لڑکی بچوں کی سطح کے اعتبار سے بڑے منطقی انداز میں چیزوں کو سوچتی ہے اور کرداروں سے باتیں کرتی ہے۔

ایلس کا حیرت کدہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں آپ کو عجیب و غریب واقعات اور کرداروں سے پالا پڑتا ہے۔ کہانی کے ابتدائی حصے میں تو یہ سب نری اوٹ پٹانگ حرکتیں معلوم ہوتی ہیں جن کا کوئی سر ہے نہ پیر اور آخری حصے میں سرخ ملکہ کا کردار بہت سے سیاسی تھیمز بیان کرتا نظر آتا ہے۔ جو بات بے بات لوگوں کا سر قلم کرنے کے احکامات جاری کرتی ہے۔

مگر ذرا توجہ سے پڑھیے تو علم ہوگا کہ یہ کہانی تو دراصل ایک بچے کے لاشعور کی سیر کراتی ہے۔ یہ دکھاتی ہے کہ ایک بچہ اپنے اردگرد پیش آنے والے واقعات، کرداروں اور مدرسے میں پڑھائے جانے والے اسباق کو کس طرح Perceive اور اخذ کرتا ہے۔

مثلا جس طرح ہم میں سے اکثر کسی اجنبی سے داڑھی والے بابا کو جن سے ہمارا صرف ” سلام علیکم بابا “ کا رشتہ تھا۔۔۔ اللہ تعالیٰ سمجھتے تھے یا شیروانی پہنے ٹوپی لگائے نرم لہجے میں بات کرنے والے کسی انجان سے انکل کو قائد اعظم سمجھا کرتے تھے۔

روز کورس میں گائے جانے والے قومی ترانے کے کئی الفاظ ہم نے خود اپنی سمجھ سے کیا سے کیا بنا لیے تھے اور ان مشکل مصرعوں کی کتنی مزیدار مگر عقیدت مندانہ سی تعبیرات ہمارے ذہن میں میں پائی جاتی تھیں۔

ہم سب سوچا کرتے تھے کہ اسکول ہماری استانی کا گھر ہے اور پرنسپل صاحبہ ان کی امی ہیں۔

نعت سنتے تو مدینے کی گلیوں میں جاکر بھٹک جانے اور لوٹ کر نہ آنے اور سر سے کفن لپیٹے راہ حق پر چلے جانے والے مسافر اور قدم قدم پر منزل ہونے کی باتوں سے ہمارے ذہن میں کیا تصور ابھرتا تھا ۔

زمیں گول ہے تو اس کے دوسرے حصے پر لوگ کیا الٹے لٹکے ہوتے ہوں گے اور اگر تباہی آئی تو زمیں کے باسی سیدھا چھلانگ لگا کر خلا میں کیوں نہیں پہنچ سکتے جب زمیں کے گولے کے چاروں طرف تو وہی موجود ہے۔ ایسا تو ہم نے بھی سوچا تھا۔

ایسے ہی کئی خیالات ایلس کے ذہن میں پلتے رہتے ہوں گے اور ایک روز خواب کے عالم میں اس کے کچھ دلچسپ
Perception،
کچھ خواہشات،
کچھ خوف،
کچھ خواب
عجیب و غریب مگر دلچسپ واقعات کی فلم چلا دیتے ہیں۔

فرائڈ کہتا ہے کہ خواب انسانی ذہن کی زبردست قوت متخیلہ کا مظہر ہیں جو اپنی طاقت سے لاشعور میں چھپی بھولی بسری یادوں کو اور ایسے مشاہدات جن پر ہم توجہ نہیں دیتے کے خام مال کو استعمال کرکے بالکل حقیقی معلوم ہوتے مناظر کی پوری ریل چلا دیتے ہیں اور اس طرح وہ خوابوں کو انسانی لاشعور کی طرف لے جانے والی شاہانہ رہگزر قرار دیتا ہے۔

ایلس کا خواب نگر اور آئینہ گھر بھی ایک بچی کے لاشعور اور دنیا کے معاملات کے حوالے سے اس کی تفہیم کی ایک جھلک ہے۔

اس خواب میں پیش آنے والے دلچسپ حادثات ہی نہیں ، بلکہ ان کے دوران اپنے آپ سے کہ جانے والی باتیں بھی بہت دلچسپ ہیں۔

کبھی وہ کیک کھا کر بڑی ہوجاتی ہے، اور کبھی شربت پی کر چھوٹی، اپنے ہی آنسوؤں کے سمندر میں تیرتی ہے اور اس دوران انگریزی زبان کے کئی محاورات کی دلچسپ ترجمانی ہوتی ہے۔

وہ ایک عجیب وغریب مخلوق لم ڈھینگ سے ملتی ہے اور بچے کے ذہن میں غم اور اسکول میں پڑھائی جانے والی یا گھر میں سنی جانے والی غم زدہ شاعری کا کیا تصور ہوسکتا ہے یہ اس عجیب و غریب ملاقات اور لم ڈھینگ کے گائے گیت کے بولوں سے سمجھ آتا ہے۔

میڈ ہیٹر پارٹی ایک اور مزیدار تھیم ہے۔ مگر سرخ ملکہ ، عدالت کی کاروائی اور وہاں موجود مختلف کرداروں کی کیفیات اور حرکتوں کے بیان سے اگرچہ کئی تبصرہ نگاروں نے سیاسی تھیمز بھی اخذ کیے، مگر ہم تو یہی سوچتے ہیں کہ یہ کہانی ایک بچی کے لیے لکھی گئی تھی لہذا ہماری رائے تو یہی ہے کہ اس کا ذہن تاش کے پتوں کے کرداروں اور تاش کے کھیل سے اور عدالتی کاروائی کے واقعات سن کرجو تصور بنتا ہے ، ایلس کا خواب بس وہی کیفیت بیان کرتا ہے۔

اس لیے ان کہانیوں کو پڑھتے ہوئے ہمیں یہی احساس ہوتا ہے کہ ایلس کی تصوراتی دنیا اور اوٹ پٹانگ باتیں بچے کے ذہن کی دنیا کی ایک جھلک ہیں۔ بچے دنیا کو کیسے دیکھتے ہیں اور اس کی ہر شے سے خود ان کا تعلق کیسا براہ راست، سچا اورمخلص ہوتا ہے۔

اگرچہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ہمارے سرہانے پڑی یہ کتاب ہمارے ایک ماموں کے ہاتھ لگ گئی۔ وہ کچھ دیر تو اس کی ورق گردانی کرتے رہے، پھر کتاب رکھتے ہوئے بولے :

”بے چاری جویریہ اپنے جیسی کہانیاں پڑھتی ہے۔۔ایسی عجیب و غریب اوٹ پٹانگ کتاب ہے یہ تو۔۔ ۔ جویریہ کا تو اب تو علاج بھی نہیں ہوسکتا ۔“

مگر ہمیں بہت الجھن ہوئی کہ اس میں اوٹ پٹانگ کیا ہے۔ ہمیشہ تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ خود ہم بھی ایسی باتیں سوچتے ہی رہے ہیں ۔اسی لیے اس کتاب کی باتیں تو ہمیں خوب سمجھ آرہی ہیں۔

دوسرا پسندیدہ کردار گرین گیبل کی این شرلی ہے جو ایلس سے ذرا سی بڑی ایک اور لڑکی ہے۔ یہ یتیم اور بے سہارا لڑکی خواب تو نہیں دیکھتی مگر شاعری پڑھتی ہے اور اپنی دکھ بھری زندگی کے تکلیف دہ بستر کو اپنے حسین خیالات کی چادر سے ڈھانپیں اپنے ہی خیالوں میں مگن اور خوش رہنے کی کوشش کرتی ہے۔

یہ دوسرا کردار تھا جس سے میٹرک کے ایام میں ملاقات ہوئی اور ایسا محسوس ہوا کہ ایلس بڑی ہوکر این شرلی بن گئی ہے۔
جو کہ جویریہ کی ہم زاد ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں