عمرفاروق :
میاں اعجاز شریف روزنامہ ”عوامی تبصرہ “ کے چیف ایڈیٹر ہیں ، میاں صاحب نہایت نفیس اور نرم خو انسان ہیں۔ یہ آج سے چار ماہ پہلے کی بات ہے میں نے میاں صاحب کو فون کیا۔ فون لگتے ہی دوسری طرف سے آواز آئی :” جی وعلیکم السلام“۔
یہ آواز اس قدر شاندار تھی کہ میں اس کی مٹھاس اور ملائمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا۔
میری جب بھی میاں صاحب سے بات ہوئی، میں میاں صاحب کی آواز کے سحر میں مبتلا ہوگیا ۔ میں نے ایک دن مجبور ہوکر میاں صاحب سے اس ” میٹھے پن “ کا راز پوچھ لیا۔
میں نے عرض کیا : ” سر ! کیا آپ کو معلوم ہیں آپ بہت میٹھا بولتے ہیں۔ آپ کے لفظوں سے شہد بہہ رہا ہوتا ہے، آپ کا لہجہ بے حد مشفقانہ اور نرم ہے۔“
انہوں نے میری بات سنی اور پھولوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے فرمانے لگے:
بیٹا ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نرم لہجہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، ہمیں بہترین انداز میں ہم کلام ہونے کی تلقین کی ہے، لہذا میں اپنے لہجے، اپنے کلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں“
میں نے میاں صاحب کا اس راز سے پردہ ٹھانے پر شکریہ ادا کیا اور دوبارہ زحمت دینے کا عندیہ دے کر کال بند کردی۔
میں آج بھی میاں صاحب کو فون کرتا ہوں، ان کی آواز سنتا ہوں، حال چال پوچھنے کے بعد ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور فون بند کردیتا ہوں۔
میں نے جب بھی کسی کو میٹھے لہجے خوبصورت انداز میں بات کرتے دیکھا ایک بزرگ کثرت سے یاد آئے ۔میں آج بھی ان کی گفتار کے سحر میں مبتلا ہوجاتا ہوں، وہ جب بھی کسی سے مخاطب ہوں، اپنے الفاظ کے چناؤ کا خصوصی خیال رکھتے ہیں کہ کہیں ان کے سخت الفاظ کسی کو زخمی نہ کردیں۔
میں نے انھیں جب بھی بات کرتے دیکھا وہ مجھے ہر کسی کے ساتھ بڑی محبت کے ساتھ پیش آتے دکھائے دیے۔
میں نے ایک دن ان سے عرض کیا: ” ہمارے بزرگ پیار سے بولنا تو دور، وہ اوئے“، ” بغیرت کھوتیا“ جیسے القابات سے نواز کر مخاطب کرتے ہیں۔ یہی سلسلہ سکول میں بھی دیکھنے کو ملتا تھا۔ میرے ایک ٹیچر اپنے سٹوڈنٹس کو ” بےحیاؤ! بے شرمو! “ جیسے خصوصی ناموں سے پکارتے تھے لیکن آپ ہر کسی کو جی بیٹا، جی سر، محترم، جناب، آپ کہہ کر پکاررہے ہوتے ہیں۔
انہوں نے میری طرف دیکھا مجھے ان کےچہرے پر اطمینان اور سکون کی لہریں دوڑتی نظر آئیں۔ وہ نرمی کے ساتھ بولے:
” بچے! میں ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ آج سے چند سال پہلے نہایت کرخت لہجے میں مخاطب ہوا کرتا تھا۔ میں دوسروں کو مخاطب ہی” تو“ سے کرتا تھا۔ میرے الفاظ نہایت بہیمانہ قسم کے ہوا کرتے تھے۔“
” میں اپنے دوستوں کی بے عزتی کردیتا تھا، بڑے چھوٹے کا بھی خیال نہیں کرتا تھا اور مجھ میں تمیز بھی نہیں تھی۔ چناں چہ مجھے پہچاننے والوں کی اکثریت مجھ سے نفرت کرتی تھی۔ میں اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے کئی مرتبہ ذلیل بھی ہوچکا تھا جس کی وجہ سے میں اکثر بے اطمینانی اور بے چینی کا شکار رہتا تھا۔ لہذا میں نے اپنی اس خامی ہر قابو پانے کا فیصلہ کیا۔“
”میں دوسروں کو احترام دینے لگا ” تو“ سے ” آپ “، ”اوئے“ سے ”جناب “ جیسے الفاظ استعمال کرنے لگا۔ میرے دائرے کے لوگ اس تبدیلی پر حیران تھے جبکہ مجھے ان سے بڑہ کر حیرانی ہوئی۔ نفرتیں محبت میں بدلنے لگیں۔ بے چینی نے اطمینان کا روپ دھار لیا اور آج میں بے حد مطمئن اور مسرور ہوں ۔ میں آج بھی دوسروں کو اپنے الفاظ اپنے لہجے سے چھلنی کرنے سے گریز کرتا ہوں۔“
انہوں نے اتنا فرمایا اور چپ ہوگئے۔
میں بھی خاموشی کے ساتھ ان کی طرف دیکھنے لگا ۔ پورا کمرہ خاموشی میں ڈوب چکا تھا۔ میں نے چند لمحوں کی اس خاموشی کو توڑتے ہوئے عرض کیا:
” آپ کا انداز واقعی دوسروں سے ہٹ کر ہے، میں ہمیشہ سے آپ کی محبت کا اسیر رہا ہوں“
انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اٹھ کھڑے ہوئے، میں بھی اٹھا، اجازت لی، اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
کمرے سے باہر نکلتے ہوئے میں نے محسوس کیا میں ان کے لہجے ان کی گفتار سے بہت زیادہ متاثر ہوچکا ہوں لیکن کیا متاثر ہونا کافی ہے؟ مجھے معلوم ہوا کسی سے متاثر ہونا اتنا بڑا کمال نہیں ہوتا جتنا بڑا کمال اس شخص کی متاثر کردہ عادات کو اپنالینا ہے ۔
دنیا کی بہت سے انسان دوسرے انسانوں سے متاثر ہوتے ہیں لیکن ان عادات کو اپنا لینے والوں کی تعداد بہت نادر ہے۔
ہمارا معاشرہ تلخ وتند لہجوں کی زد میں ہے آپ کسی سے مخاطب ہوجائیں وہ آپ کو کاٹنے کو دوڑے گا، لوگ پیار بانٹے بغیر پیار ملنے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں جبکہ یہ تو بانٹے سے ملتا ہیں ۔
میں نے سوچا میں بھی انہی احمقوں میں شامل ہوں۔ میرے اندر سے ایک ہوک اٹھی اور میں ”کاش“ کہتے اپنے آپ سے مخاطب ہوا
” کیا میرے لہجے میں بھی مٹھاس پیدا ہوسکے گی، میرا لہجہ بھی میاں صاحب اور اس بزرگ کی طرح ہوسکے گا، کیا میرے الفاظ دوسروں کیلئے راحت کا سبب بن سکیں گے؟“
ٹھنڈی ہوا کا ایک زوردار جھونکا آیا اور میرے جسم سے ٹکراتے ہوئے آگے نکل گیا میں نے آہ بھری اور چپ چاپ آگے نکل گیا۔