سوالیہ نشان

کسی مسئلے کا سبب جاننے کا آسان ترین طریقہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شازیہ عبدالقادر :

کسی بھی چیز کی اصل وجہ جاننے کے لئے پانچ بار” کیوں “ کا جواب تلاش کریں۔
ایک انٹلیکچوئیل ورکشاپ میں ٹیکنیکل سپورٹ کی وجہ سے شرکت کا موقع ملا تو درج بالا اصول کی عملی مشق کروانا یاد رہ گیا۔

گزشتہ ایک عرصہ سے ایک تسلسل کے ساتھ جب جب چائلڈ ابیوز کا واقعہ سامنے آتا ہے
ایمان داری سے آپ پانچ ” کیوں “ کا جواب تلاش کرتے کرتے اگر خود تک نہ پہنچ جائیں تو آپ مبارک باد کے لائق ہیں۔

چائلڈ ابیوز کے مجرم کو لعن طعن کرنے سے پہلے ایک بار
اپنی سوشل میڈیا والز
اپنے سوشل میڈیا انباکسز
یوٹیوب، نیٹ فلیکس، ساؤنڈ کلاؤڈ وغیرھا کی پلے لسٹس
وغیرہ پر نظر ڈالئے گا

اپنے اردگرد شادی بیاہ خوشیوں کے فنکشز، شادی ہالز سے لے کر مالز، مارکیٹس، بازار کو بھی دیکھ لیجئے گا
دوسروں کی بہنوں، بیویوں، بیٹیوں، ماؤں کے بارے میں غیر اخلاقی کمنٹس بھی دیکھ لیجئے گا۔

میڈیا، تعلیمی نظام ، بددیانت حکمرانوں، عدل و انصاف سے عاری عدلیہ کا نظام ان سب کو کوسنے سے پہلے ایک بار صرف ایک بار اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
اللہ اور اس کے رسولؐ کی بنائی حدود کو کہاں کہاں پامال کیا۔

صرف مجرم کو نہ کوسیے گا، کبھی خود کو بھی کٹہرے میں کھڑا کریں۔
برائی ہوتا دیکھ کر خاموش رہنا بھی برائی میں شریک ہونے کے برابر ہے ۔
پھر یاد کریں وہ حدیث، جس کا مفہوم ہے کہ
شراب بنانے والا، اسے کشید کرنے والا، اس کا سامان ڈھونے والا، سب برابر کے شریک ہوں گے۔

تسلسل سے دوچار مجرموں کی سفاکی تو سامنے آجاتی ہے۔
ایسے بیسیوں مجرم اردگرد موجود ہیں ،
کسی نہ کسی طرح ایمان اور حیا کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں۔

جہاں ہمیں فحاشی و عریانی اب بری نہیں لگتی،
جہاں غیراخلاقی حرکتوں کو ہم بولڈنس سمجھ کر قبول کرتے جارہے ہیں،
جہاں کو ایجوکیشن، مرد و خواتین کا ایک جگہ کام کرنا ترقی قرار پایا ہے،
جہاں کم سے کم لباس ترقی یافتہ ہونے کی نشانی سمجھا جا رہا ہے،

جہاں سوشل ہونے کے نام پر مرد و عورت اسلام کی حدود و قیود کو دقیانوسیت قرار دیں،
جہاں میڈیا اور تعلیمی اداروں میں ہیجان انگیزی ہر مبنی تفریحات دستیاب ہوں،
جہاں کیبل ٹی وی چینلز پر فحش و غیراخلاقی فلموں ڈراموں کی بھرمار ہو،
جہاں فحش اور غیراخلاقی فلموں، سیزنز، ڈراموں کے نام فخریہ شئیر کئے جاتے ہیں،
یہاں تک کہ غیراخلاقی حرکتوں میں ملوث لوگ باعث عزت قرار پائے جاتے ہیں۔

بےجا تعریف و توصیف کو ہلاک ہونے کے برابر قرار دیا گیا ہے لیکن ہم معمولی چیز کی بھی خوشامد اور بےجا تعریف و توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں
اس سب کچھ کو ہم میں سے کس کس نے روکا؟

ہمیں تو دین اسلام نے ” نظام حیا و حجاب “ دیا
بتایا کہ
دوسروں کے گھروں بلااجازت داخل نہ ہوا کرو،
بچے بڑے ہونے لگیں تو ان کے بستر الگ کردو،
نگاہیں جھکا کر رکھو، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو،
عورت اور مرد دونوں کے محرم رشتے بتادئیے گئے،
مرد اور عورت دونوں کا ڈریس کوڈ بتایا گیا،

ہم نے ترقی و تہذیب کے نام پر اسلام کے ” نظام حیا و حجاب “ کو اتار پھینکا
یہ مرد یا عورت کے لئے نہیں تھا
یہ ایک ایسے معاشرے کے لئے تھا جہاں انسانی اخلاقیات پروان چڑھیں،

جہاں مرد یا عورت دونوں بیک وقت حیا کو اپنائیں،
رشتوں کے احترام اور تقدس کا خیال کریں،
پھر وہاں کسی کا بیٹا ہو یا کسی کی بیٹی ہو،
اس پر کوئی ہوس کی نگاہ نہ ڈال سکے۔

دین اسلام کے نظام حیا و حجاب کو گلے کا طوق سمجھ کر ہم نے اتار پھینکا
جو ہماری آنکھوں کو ہر غلط چیز دیکھنے سے روکتا ہے،
جو ہر اس بڑھتے قدم کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جو حلال چھوڑ کر حرام کی جانب جائے،
جو دل میں آنے والے ہر خیال کو فلٹر کرتا ہے، ایمان بیدار کرتا ہے،
اور یورپ و مغرب کی فرسودہ تہذیب جو خود اپنی موت مر رہی ہے اسے سر کا تاج بنادیا۔

ذہنی غلامی کی ایسی مار پڑی ہے کہ اس وقت بھی جب
آج چائلڈ ابیوز کے واقعات سامنے آتے ہیں تو
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں جس کے سبب بیمار ہوئے۔

مغرب کی قوانین یاد دلانے سے پہلے خود اپنے اوپر اخلاق و حیا کو لاگو کرنا ہوگا
آس پاس ہر اس چیز کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی جو اسلام کے نظام و حیا و حجاب کے برخلاف ہو
اسلام کے نظام وحیا و حجاب کی ترویج کرنا ہوگی
ہمیں اپنی اصل کو لوٹنا ہوگا،اسی میں انسانیت کی بقا ہے۔
اسی میں ہماری خیر ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں