مسلمان لڑکی توبہ استغفار میں مصروف

استغفار کے حیران کن فوائد، جن کا جاننا آپ کے لئے بہت ضروری ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فریدہ یوسفی :

سرجھکائے وہ گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی، عیادت کے لئے آنے جانے والے اسے تاسف سے دیکھتے اورایسے جملے ادا کرتے کہ اس کا دل منوں بوجھ تلے دب جاتا۔ پھر ہمدردی کے بول سن کر سوچتی جو مجھ پر گزر رہی ہے وہ میں ہی جانتی ہوں۔

مدرسے والی باجی آئیں تو لمبا سا لیکچر استغفار پر دے ڈالا۔
وہ سارے وقت یہی سوچتی رہی کہ میں نے کون کون سے گناہ کئے ہیں اپنے معمولی چھوٹے بڑے سب گناہ یادکئے۔

پھر سوچا لوگ حرام کھاتے ہیں، شراب پیتے ہیں، جائیدادیں چھینتے ہیں، مال لوٹتے ہیں، نمازیں نہیں پڑھتے ، سود کھاتے ہیں، قتل و غارت کرتے ہیں، چوری ڈاکے کرتے ہیں، زنا کرتے ہیں، جادو ٹونے کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، فساد مچاتے ہیں، کرپشن کرتے ہیں ، کیا کچھ نہیں کرتے۔ یہ سارے گناہ تو میں نے نہیں کئے۔
پھر مجھے یہ بیماری کیسے؟ کیوں؟

کیا میں واقعی بہت گناہ گار ہوں کہ مجھے بس توبہ توبہ ہی کرنی چاہئے؟

کیا گناہ کیا ہوگا؟ معمولی معمولی گناہ؟ یا کوئی بڑا گناہ؟ کیا بھی ہوگا تو کیا ان سارے گناہوں سے بھی بڑا ہے جو یہ کینسر کی بیماری میں اللہ نے اسے مبتلا کردیا کہ جس کا علاج بھی نہیں۔

ٹھیک ہے گناہگار ہوں کوئی فرشتہ نہیں ہوں مگر ایسے بھی کیا گناہ۔

پھر کبھی ان سوچوں سے تھک جاتی تو اللہ کے سامنے جھک بھی جاتی کہ اللہ جی معاف کردیں۔ یہ فلاں فلاں گناہ کرتی رہی ہوں، بے شک ان کا بدلہ مجھ سے دنیا میں ہی لے لے، آخرت میں مجھے اپنی رحمت سے دور نہ کرنا۔ تب وہ بس خود کو رب کے حوالے کردیتی۔

آنے والے اسے صبر کی تلقین کرتے تو منہ سے کچھ نہ کہہ پاتی ۔

دل پکار پکار کر کہہ رہا ہوتا کہ جس اذیت اور تکلیف سے میں گزر رہی ہوں ان کو کیا معلوم۔ یہ گزریں تو جانیں کہ صبر کتنا ممکن ہے۔

زمانے بھر میں اس کی لاعلاج بیماری کا چرچا تھا جو دوست احباب رشتہ دار کبھی نہ آئے تھے وہ بھی آتے رہے۔

ایک دن یونہی ملگجی سی شام اس کی یونیورسٹی کی سینئرجو ڈیپارٹمنٹ کی انچارج اسٹوڈنٹ افئیر تھیں، اسے ملنے آگئیں۔
ان کا شفیق سا چہرہ جس پر وہی مخصوص ہلکے براؤن گلاسز۔
دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ، رینبو کلر کیک لئے نمرہ باجی کو دیکھ کر جانے کیوں زینب کو ایک پرسکون سا احساس ہوا۔

نمرہ باجی نے گلے لگایا ، پیار سے حال پوچھا تو زینب کو لگا وہ بس ابھی رو دے گی لیکن اس نے مسکراہٹ سے اشاروں سے جواب دیا۔
نمرہ باجی اسی طرح اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے بیٹھ گئیں۔
زینب! اللہ بہت رحیم ہے۔

جملے میں جانے ایسا کیا تھا۔ زینب کے آنسو بے ساختہ چھلک پڑے۔ اس نے آج پہلی بار انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔
” اللہ اپنے بندے پر کبھی ظلم نہیں کرتا“
نمرہ باجی نے دوسرا جملہ بولا۔

زینب کی سماعتوں کو لگا اسے یہی سننا تھا
نمرہ باجی! کیوں پھر، میں نے ایسا کیا کیا ہے۔ اتنے گناہگار لوگ ہیں دنیا میں۔

نہ زینب ایسے نہیں سوچتے
بس اللہ چاہتا ہے کہ میرا بندہ بس مجھے پکارے، مجھ سے مانگے۔
اللہ سے بدگمان نہ ہونا۔

زینب کے دل ودماغ میں یہ جملے پیوست ہوگئے۔
اس دن اس نے اپنے آپ کو اپنے رب کے سپرد کردیا۔
زینب کو معلوم ہوا کہ اس کا رب اس سے کیا چاہتا ہے۔
اب تک آنے والے سارے تیمارداروں کی محبت میں کوئی شک نہ تھا۔

معاشرے میں کسی کو ایسی لاعلاج بیماری دیکھ کر جو روئیے اور سلوک رائج تھے ان سب نے اسی کے مطابق اپنی طرف سے تو اخلاص سے ہی بات کی ہوگی کہ
صبر کرو، اللہ ٹھیک کردے گا
استغفار کرو، زیادہ سے زیادہ توبہ کرو۔ وہ توبہ سننے والا ہے۔

لیکن نمرہ باجی کے جملے
اللہ سے کبھی بدگمان نہ ہونا
وہ ظالم نہیں ہے
وہ بہت رحیم ہے
جملے تھے کہ آب حیات۔

اگرچہ اس کا روحانی علاج بھی جاری تھا، گھر والے دوا دعا سب کررہے تھے۔
پھر اس نے اپنے مفتی کزن کے کہنے پر ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی،الاخلاص، الفلق، الناس، بسم اللہ لایضر۔۔ ۔اور استغفار کی تسبیح کرنا شروع کی۔

مستقل استغفار کا ورد رکھنے لگی۔
اس کو دی جانے والی دعاؤں میں اثر آنے لگا۔
دوائیں جیسے کام کرنے لگیں۔

وظائف اور روحانی علاج بھی اثر دکھانے لگا۔
اسے محسوس ہوا کہ
اسے قوت مل رہی ہے، بیماری کی شدت کم ہونے لگی۔

پانچ سال سے اذیت بھرے دن رات اب کچھ کچھ سکون میں ڈھلنے لگے ہیں۔
اسے جو محسوس ہورہا تھا کہ بس! اب کسی کو میری بیماری کی سمجھ نہیں آرہی، اب بس دنیا سے رخصتی ہی اس کا علاج ہے

اسے اب امید ہونے لگی کہ جانا تو ایک دن ہے ہی، اپنے حصے کا کام کرنا چاہئے
اس نے گھر میں، گھر کے کاموں میں،گھروالوں میں دلچسپی لینا شروع کی۔

مایوسی اور ناامیدی کے بادل چھٹنے لگے۔

بیماری تو اپنی جگہ موجود تھی مگر اب قابل برداشت ہونے لگی تھی۔
اب کے جو رمضان المبارک آیا اسے لگا کہ اس نے ایک نیا جنم لیا ہے
بچوں کو گھر والوں کو اردگرد لوگوں کو اس کے روئیے میں مزاج میں اب حرارت محسوس ہونے لگی۔
اسے اپنی گزشتہ زندگی کی غلطیوں کو سدھارنے کی سوجھنے لگی۔
بہت ساری گرہیں کھلیں۔

جن سے ناراض، خفا تھی اس رمضان میں انہیں منالیا۔
جو لوگ اسے برائیوں کی جانب، اللہ کی ناراضگی کی جانب کھینچتے تھے بڑی خاموشی سے ان سے کنارا کرلیا۔
اب جن لوگوں کے روئیے وہ کبھی معاف نہیں کرسکتی تھی ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے ہلکا پھلکا محسوس کررہی تھی۔

اس کی بیماری تو اب بھی وہیں تھی لیکن استغفار کی کثرت نے اسے ان سب حالات میں کھڑے رہنے کی ہمت دیدی تھی۔
وہ جو رب سے مایوس ہونے لگی تھی اس کی ساری امیدیں اپنے رب سے جڑنے لگی تھیں۔
اسے ایک مضبوط سہارا مل گیا تھا،قوت مل گئی تھی، اب جب جب وہ لڑکھڑانے لگتی،
استغفار کی تسبیح بڑھا دیتی۔

جب جب اس کی ہمت، برداشت جواب دینے لگتی، وہ استغفار کا ورد بڑھا دیتی۔
اسے معلوم ہوگیا تھا کہ استغفار اپنے رب کے سامنے اپنی عاجزی کا بے بسی کا اظہار ہے

یہ ایک قوت بخش عمل ہے۔
یہ لائف سرکل کی کلینزنگ ہے۔
یہ ایمان کی افزائش ہے جو بس اللہ کے قریب اور قریب کرتا چلا جاتا ہے۔

استغفار ایک پارس ہے، جسے اس کی توفیق حاصل ہوجائے، جو اس کی قدر و قیمت پہچان جائے
وہ کندن بن جاتا ہے۔

وہ اپنی سہیلیوں کے واٹس ایپ گروپ میں بتارہی تھی کہ
کبھی ہمت ہار جائیں تو استغفار بڑھا لیں اور پھر سے ایک بار کوشش کریں دیکھئے گا مکمل کامیابی نہ بھی ملے حددرجہ ضرور ملے گی۔

کبھی کسی بات پر پشیمانی ہو تو بھی استغفار بڑھا لیں، اس کام میں دوبارہ مبتلا ہونے کا موقع ملا بھی تو بچت ہوجائے گی مزید پشیمانی سے بچ جائیں گے۔

کبھی دوسروں کے روئیے، لہجے دل دکھائیں تو بھی استغفار بڑھالیں، دل ان سے بےنیاز ہوجائے گا۔
کبھی لگے کہ کوئی دعا، کوئی التجا، مناجات قبول نہیں ہورہی تب بھی استغفار بڑھالیں، یا تو دعائیں قبول ہونے لگیں گی یا جو قبول نہ ہوں گی، ان کی حقیقت کھل جائے گی یا پھر ان سے بےنیازی ہوجائے گی۔

مشکل پہ مشکل سامنے آنے لگے تب بھی استغفار بڑھالیں یا تو مشکل آسان ہوجائے گی ،کوئی رستہ نکل آئے گا یا اس مشکل کی ٹینشن ختم ہوجائے گی۔

ایسا محسوس ہو کہ اللہ کی رحمت دور ہورہی ہے وہ توجہ نہیں دے رہا تب بھی استغفار بڑھا لیں کیونکہ یہ خالصتا شیطانی وسوسہ ہوتا ہے جس سے بچنے کے لئے استغفار کی ضرورت ہوتی ہے۔
دل و دماغ میں منفی خیالات بار بار آئیں جو ذہنی سکون برباد کردیں تب بھی استغفار بڑھادیں۔

استغفار ایک توفیق ہے،
رب کائنات کے آگے سپردگی ہے۔

میں عاجز ہوں تیری مدد چاہئے اور استغفار کے قلبی اور قولی اظہار، کثرت ورد، ان رستوں پر جانے سے بددلی پیدا کردیتا ہے جہاں رب کی ناراضگی ہو،
ان رستوں پر اطمینان دیتا ہے جو رب کی خوشنودی کو جاتے ہیں۔
آزما کر دیکھ لیں، استغفار ایک پارس ہے،
آپ کو کندن کردے گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں