ڈاکٹرشائستہ جبیں :
[email protected]
انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے، جس طرح جسم مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر بیمار ہو جاتا ہے، بالکل ویسے ہی روح کو بھی کئی قسم کی بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے مثلاً غیبت، تکبر، بُغض، حرص، کینہ، حسد اور خوشامد وغیرہ۔ ان میں سے کوئی بھی بیماری روح کو لگ جائے تو انسان تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔
خوشامد بھی روح کی بیماریوں میں سے ایک ایسی بیماری ہے جو اگر انسان کو لگ جائے تو اس کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کس خطرناک بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے. آزاد دائرہ معارف کے مطابق :
”خوشامد یا چاپلوسی ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت کچھ لوگ حد سے زیادہ دوسرے لوگوں کی تعریف کرتے ہیں۔ اس عمل میں مخاطب کے لیے ایسی خوش نما صفات ، عادات و اطوار ، محاسن ، زبان و گفتگو کی خوبیاں اور دور اندیشی وغیرہ منسوب کرتے ہیں جو یا تو کسی شخص میں فی الواقع موجود نہیں ہوتیں یا اگر ان میں سے کچھ پایا بھی جاتا ہے تو وہ اس درجہ خوبی اور خوش نمائی کو نہیں پہنچتے، جس طرح کہ انہیں بیان کیا جا رہا ہوتا ہے۔
خوشامد عام طور سے کسی صاحب حیثیت، ذوی المراتب شخصیت یا کسی ایسے فرد کے لیے کی جاتی ہے، جس سے کسی شخص کو کام پڑ رہا ہو یا پڑ سکتا ہو۔ خوشامد کی عادت مرد و زن دونوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ عادت انفرادی ملاقاتوں میں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، دفاتر، فلمی دنیا ہر جگہ پائی جاتی ہے اور ہر طبقہ کے لوگ اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ہر شخص کی فطرت ہے کہ تعریف اور مدح سرائی اُسے خوش کرتی ہے اور تنقید و برائی اسے ناگوار گزرتی ہے۔ تعریف پر مشتمل گفتگو کو کوئی شخص ٹوکتا تک نہیں ہے، اگرچہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جھوٹی تعریف ہے، کیونکہ ہر انسان اپنی خوبیوں، خامیوں کو خود سب سے بہتر طور پر جانتا ہے، اس کے باوجود دوسروں سے جھوٹے ہی سہی، تعریفی کلمات اس کی انا کو تقویت پہنچاتے ہیں اور وہ انہیں سُنتے رہنا چاہتا ہے۔
خوشامد کے معاشرے میں تیزی سے پھیلنے کا ایک بڑا سبب لوگوں کو متاثر کر کے فوری طور پر یا دیرپا تعلقات اور معاملات میں فوائد حاصل کرنا ہوتا ہے کیونکہ خوشامدی اپنی گفتگو اور طرزِ عمل سے صاحب اختیار شخص کے دل میں نرم گوشہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور پھر اس کا جائز اور ناجائز ہر طرح سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔
خوشامد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یا تو وہ سفید جھوٹ ہوتا ہے یا پھر مبالغہ آرائی، اور عموماً ان دونوں کی آمیزش ہی خوشامد کہلاتی ہے. خوشامد جادوئی اثر انگیزی رکھتی ہے، کیونکہ کذب و ریا اور بہروپیا پن کا مجموعہ ہوتی ہے اور خوشامدی کی اس میں یہ غرض ہوتی ہے کہ اُسے سُننے والے کو پوشیدہ مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے۔
سر سید احمد خان لکھتے ہیں :
” دل اور روح کی جس قدر بیماریاں ہیں، ان میں سب سے زیادہ مہلک خوشامد کا اچھا لگنا ہے. جس وقت انسان کے بدن میں یہ مادہ پیدا ہوجاتا ہے جو وبائی ہوا کے اثر کو جلد قبول کر لیتا ہے تو اسی وقت انسان اس مرض مہلک میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کو یہ معلوم ہو جاوے کہ خوشامد کا شوق کیسے نالائق اور کمینے سببوں سے پیدا ہوتا ہے تو یقینی خوشامد کی خواہش کرنے والا شخص بھی ویسا ہی نالائق اور کمینہ متصور ہو نے لگے گا۔ “
” جب ہم کو کسی ایسے وصف کا شوق پیدا ہوتا ہے جو ہم میں نہیں ہے یا ہم ایسا بننا چاہتے ہیں جیسے کہ ہم درحقیقت نہیں ہیں، تب ہم اپنے تئیں خوشامدیوں کے حوالے کرتے ہیں جو اوروں کے اوصاف اور اوروں کی خوبیاں ہم میں لگانے لگتے ہیں۔ گو بسبب اس کمینہ شوق کے اس خوشامدی کی باتیں اچھی لگتی ہوں، مگر درحقیقت وہ ہم کو ایسی ہی بدزیب ہیں جیسے کہ دوسروں کے کپڑے جو ہمارے بدن پر کسی طرح ٹھیک نہیں بیٹھتے۔ یہ بات کہیں عمدہ ہے کہ ہم اپنی حقیقت کو درست کریں اور سچ مچ وہ اوصاف خود اپنے میں پیدا کریں۔ “
ہمارے معاشرے میں اور کسی چیز نے ترقی کی ہو یا نہیں، خوشامد کرنا اور خوشامد پسند کرنا دونوں بامِ عروج پر ہیں۔ خوشامدی شخص کبھی تنقید نہیں کرتا اور اس کی پالیسی صرف واہ واہ پر مبنی ہوتی ہے۔ خوشامدی افراد شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ خوشامدانہ رویہ ہمارے معاشرے میں اس قدر رچ بس گیا ہے کہ کوئی کسی سے اختلاف رائے کی جرات نہیں کرتا اور نہ ہی اسے پسند کیا جاتا ہے۔
جائز تنقید کو بھی ناپسندیدہ بلکہ لائقِ سزا تصور کیا جاتا ہے۔ سرکاری، غیر سرکاری یا نیم سرکاری ہر طرح کے کلچر میں یہ منفی اقدار جڑ پکڑ چکی ہیں۔ معمولی سا اختلاف رائے کرنے والوں کو اس ہمت کی وہ سزا دی جاتی ہے کہ کوئی آئندہ ایسی جرات مندانہ حرکت کا سوچ بھی نہ سکے۔
خوشامد چونکہ نااہل اور نالائق لوگوں کا ہتھیار ہوتی ہے اور یہ ہر طرف پھیل چکی ہے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم انتہائی پست معیار کا معاشرہ بن چکے ہیں کہ جس کی سڑاند نہ جانے کتنی نسلوں تک اپنا منفی اثر قائم رکھے گی۔
اسلام میں خوشامد کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، جہاں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے، وہاں کسی کے سامنے اس کی سچی تعریف سے بھی منع کیا گیا ہے کہ کہیں شیطان اس بندے کو مغرور، متکبر نہ بنا دے.
اسلام ہر معاملے میں رہنمائی فراہم کرنے والا دین ہے جو نہیں چاہتا کہ انسان حدود پار کر کے اپنی زندگی خراب کرے۔ کسی انسان کے سامنے جھوٹی سچی تعریفوں کے پل باندھنا، انسان کے اندر تکبر کا بیج بو دیتا ہے اور جو انسان تکبر کی زد میں آ گیا، اس کی آخرت تباہ ہو گئی۔ اس لیے تکبر کی طرف لے جانے والے راستے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :” ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بچو، کیونکہ یہ تو ذبح کرنے کے مترادف ہے.“ (سنن ابن ماجہ)
مولانا غیور احمد قاسمی لکھتے ہیں کہ :” انسانی زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات میں ہر موقع کے لیے شریعت مطہرہ نے راہنمائی فراہم کی ہے. جن کاموں کو فطرت اور انسانیت کے لیے مضر اور نقصان دہ بنایا، ان کاموں سے ممانعت فرمائی اور سزا بھی متعین کی۔
خوشامد، چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کو بھی مذہب اسلام نے سزا کے دائرے میں رکھا اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سخت وعید فرمائی۔ جھوٹی تعریف، خوشامد اور چاپلوسی کرنا ایک مذموم فعل ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔ حوصلہ افزائی اور تعریف کرنے سے مذہب نے منع نہیں کیا، لیکن کسی کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرتے وقت شرعی قوانین کی پابندی لازمی ہے۔
منہ پر تعریف کرنے اور خوشامد کے حوالے سے صاف تنبیہ و توبیخ پر مبنی احادیث ہیں. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ایک شخص کو دوسرے کی تعریف میں مبالغہ کرتے ہوئے سنا تو فرمایا :
” اگر تم میں سے کوئی ضرور بالضرور تعریف کرنا چاہے تو یوں کہے میں خیال کرتا ہوں کہ وہ ایسا ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کیسا ہے، یہ حقیقت صرف اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے.“ (صحیح مسلم)
چاپلوسی اور خوشامد معاشرہ کے لیے ناسور ہیں، خوشامد کی قینچی عقل و فہم کے پر کاٹ کر انسان کے ذہن کو پرواز سے محروم کر دیتی ہے. موجودہ دور میں خوشامد اور چاپلوسی نے ایک فن کی صورت اختیار کر لی ہے اور ماحول کو پراگندہ کرنے میں اس کا کردار اہم ہے۔ لوگوں میں سچ اور صحیح بات برداشت کرنے کی قوت و صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔
کسی بھی عہدے پر متمکن شخص کو جی حضوری کرنے والوں کی فوج درکار ہوتی ہے، جو ہر غلط اور صحیح بات پر ان کی ہاں میں ہاں ملانے کا فریضہ سر انجام دے سکیں۔ اسے اس حقیقت کا ادراک تک نہیں ہو پاتا کہ خوشامد سے عقل و دانش رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے، انسان کے اپنے حواس ختم ہو جاتے ہیں اور وہ وہی کچھ دیکھتا، سنتا اور بولتا ہے، جو چاپلوس لوگ اس سے چاہتے ہیں. اگر کوئی اسے صحیح معاملہ بتانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو وہ اسے ناگوار گزرتا ہے، کیونکہ وہ مکمل طور پر خوشامد کے چنگل میں پھنسا ہوتا ہے.
خوشامد کرنے والا شخص بھی اپنی اس بری عادت سے وقتی طور پر کوئی فائدہ اٹھا لیتا ہو گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا دل اور ضمیر مردہ ہو جاتا ہے. ان کے اندر سے غیرت و حمیت کا مادہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ اپنے اشرف المخلوقات ہونے کے شرف سے محروم کر دئیے جاتے ہیں۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام عطا فرمایا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی ہمت کر سکے. کچھ لوگ فطرتاً خوشامدی ہوتے ہیں، وہ اپنے اعلیٰ افسران، ساتھیوں، دوستوں پر ایک کے ساتھ چاپلوسی بھرا رویہ رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ وہ یہ سب کسی نفع، نقصان کے حصول کے لیے نہیں، وہ بس اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہر ایک کی ہر جائز، نا جائز بات پر ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں۔
جھوٹی تعریف، خوشامد، چاپلوسی یہ تمام منفی اور معاشرے و لوگوں کو نقصان پہنچانے والی عادات ہیں، جو شخص ان کا شکار ہو جاتا ہے، اس کی دنیا اور آخرت دونوں ضائع ہونے کا امکان ہے. اس لیے وقتی اورعارضی مفادات کے حصول کے لیے اس بد عادت میں مبتلا ہونے سے خود کو بچانا ہی اصل کامیابی ہے.
بظاہر تو چاپلوس اور خوشامد کے فن کا ماہر شخص ہر جگہ بہت کامیاب اورہر دلعزیز ہوتا ہے، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:
زندگی میں اس قدر بے چارگی نہیں اچھی
ہر قدم پر چارہ تدبیر ہونا چاہیے
صاحب توقیر ہونے سے تو کچھ نہیں ملتا
آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہیے
لیکن اس حقیقت کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ ظاہری طور پر خوشامدی لوگوں کو کتنا ہی پسند کیوں نہ کیا جائے، دل سے نہ تو کوئی ان کی عزت کرتا ہے اور نہ ہی انہیں قابلِ اعتبار گردانا جاتا ہے، جس طرح خوشامد کرنے والا اپنی نالائقی چھپانے اور مطلب براری کے لیے چاپلوسی کر رہا ہوتا ہے، ویسے ہی صاحب اختیار شخص بھی اسے اپنے ہر جائز نا جائز کام اور مطلب کے لیے استعمال کر رہا ہوتا ہے، کیونکہ برائی کا بدلہ برائی اور بدنیتی کا اجر بد نیتی ہی ہوتا ہے.
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اس قبیح عادت سے نجات کر سکیں، اور سچی تعریف اور حوصلہ افزائی کو اپنا شعار بنائیں، تاکہ معاشرہ ایک صحت مند اور مثبت سوچ کے نتیجے میں ترقی کی حقیقی راہوں پر گامزن ہو سکے.
2 پر “آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہیے” جوابات
Bht achy alfaz mn aik bht acha message… 👌
Buhhttt achaaa msg dia ap ny..Allah hmain khushamd jesy bury kaam at dour rkhy .ameenn..Allah bless u❤️