رائے محمد ارسلان :
کچھ لڑکیاں مچھلی سے بھی زیادہ سادی ہوتی ہیں کیونکہ مچھلی کو بھی فری فوڈ کھانے کے فوراً بعد کانٹے میں پھنستے ہی سمجھ آ جاتی ہے کہ میں پھنس گئی ہوں اور پھر وہ اپنی بقا اور خوشیوں کی خاطر کانٹے سے نکلنے کے لئے تڑپتی اور زندگی کی طرف ریٹرن کرنے کے لئے زور لگاتی ہے۔
وہ اپنے پھنسنے کو محبت کا نام نہیں دیتی کہ مجھے مچھیرے سے محبت ہو گئی ہے، میں مچھیرے کی ہوں اورمچھیرا میرا ہے، مجھے مچھیرا ملے گا تو میں زندہ رہوں گی ورنہ میرا جینا مشکل ہے۔ میں مچھرے کے بغیر مر جاؤں گی،
”میں مچھیرے کا انتظار کروں یا آگے بڑھوں“ کے لئے مچھلی کسی مولوی سے استخارہ نہیں کرواتی، کسی سے حساب نہیں لگواتی اس جھوٹی امید سے جڑی نہیں رہتی کہ شاید ایک دن مچھیرے کو احساس ہوجائے اور وہ پلٹ کرہمیشہ کے لئے میرا ہو جائے !!
یاد رکھیں !
مچھلیاں پکڑنا مچھیرے کا فیورٹ مشغلہ ہوتا ہے، وہ کسی ایک مچھلی کا نہیں ہوتا اس لئے وہ آپ کا بھی نہیں ہوسکتا، مچھیرے کی فیک اور فیبریکٹ محبت ڈھونڈنے کے بجائے اس کی محبت سے باہر نکلنے پر زور دیں۔
”مجھے اس سے محبت ہے، مجھےاس سے محبت ہے“ کا ورد کرنے کی بجائے ”میں پھنس گئی ہوں، میں پھنس گئی ہوں“ کا ورد کریں تاکہ آپ کا لاشعور آپ کو اس کی جھوٹی محبت کے لالچ سے نکلنے میں آپ کی ہیلپ کرے۔ یہی اس سارے فرابلم کا سو بٹا سو فی صد سالوشن ہے۔
افسوس ناک کہانی
اس کا نام صدف زہرہ نقوی ہے وہ کیسے ایک صحافی ، بلیک میلر علی سلمان علوی کی محبت کے جال میں پھنسی، اس نے کیسے ایک زندہ دل لڑکی کی جان لے لی یہ ایک افسوسناک کہانی ہے۔ صدف نقوی ایک ذہین، سمارٹ، زندگی سے بھرپور لڑکی تھی وہ معاشرے کیلئے کچھ اچھا کرنے کا شوق رکھتی تھی۔
سوشل میڈیا اپنی خواہشات کو آگے بڑھانے کا ایک میڈیم ہے اور یہاں سوشل میڈیا پر اس کی ملاقات علی سلمان علوی سے ہوتی ہے جس نے خود کو ایک صحافی کہہ کر تعارف کروایا کہ فلاں فلاں ادارے کے لیے کام کرتا ہے اور کچھ ہی دنوں میں وہ جان گیا کہ صدف ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے، پیسے والی آسامی ہے۔
اس نے بجائے لمبی دوستی کے فوری شادی کی بات کردی۔ ایک لڑکی کا خواب بچے، اپنا گھر اور ایک آرام دہ زندگی ہوتی ہے۔ صدف کو اور کیا چاہیئے تھا۔ وہ راضی ہوگئی۔ اس نے سوچا یہ تو اچھا انسان ہے۔ نکاح ہی تو کر رہا ہے، گھر والوں کے نہ ماننے کے باوجود اس کی ضد کے آگے مجبور ہوکر دونوں کی شادی کردی گئی۔
لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی یہ ضد ایک دن اس کی جان لے لے گی۔ شادی کے بعد اسے اپنے شوہر کی حرکتیں عجیب سی لگیں اور 7 ماہ بعد اس پر یہ انکشاف بم بن کر گرا کہ یہ شخص ایک بلیک میلر ہے اور سوشل میڈیا پر لڑکیوں کو بلیک میل کرکے پیسے بٹورتا ہے۔
جب صدف نے اس بابت ہوچھا تو سلمان نے یہ کہہ کر معاملہ گول کردیا کہ یہ سب اس کا ماضی تھا اب وہ ایسا نہیں ہے اور وہ اس کی باتوں میں آگئی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ سلمان ایک پروفیشنل بلیک میلر ہے۔ اس دوران وہ بیوی کے پیسوں پر آہستہ آہستہ ہاتھ صاف کرنے لگا ۔
ایک سال بعد صدف کو پھر معلوم ہوا کہ سلمان نے اسلام آباد میں کسی لڑکی سے ملاقات کی۔ دونوں میں تلخ کلامی ہوئی، پھر اسے معلوم ہوا کہ اس کے شوہر کے درجنوں جعلی اکاؤنٹس ہیں جن سے وہ لڑکیوں کو بلیک میل کرتا ہے دونوں میں تلخ کلامی ہوئی چونکہ وہ حاملہ تھی شوہر کے ساتھ لڑنے کی ہمت نہیں تھی۔
پھر صدف ایک پیاری سی بیٹی کی ماں بن گئی اس نے سوچا کہ شاید بیٹی کی پیدائش پر شوہر کو عقل آجائے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا ، صدف نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی کا مستقبل خراب ہو اور لوگ اس کو باپ کی حرکتوں کا طعنہ دیں۔ ایک دن اس نے شوہر کو رنگے ہاتھوں ایک لڑکی سے ویڈیو چیٹ کرتے پکڑلیا ۔ دونوں میں تلخ کلامی ہوئی اور سلمان نے پہلی بار اسے مارا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کا شوہر ہاتھ اٹھائے گا۔
وہ غصہ سے اپنے گھر چلی گئی لیکن بیٹی کے مستقبل نے اس کا دل نرم کردیا اور اس نے شوہر کو پھر ایک موقع دینے کا سوچا اور واپس آگئی۔ 20 جون 2020ء کو اس نے اپنی بیٹی کی پہلی سالگرہ منائی لیکن جس کا ڈر تھا وہ ہو کر رہا 29 جون 2020ء کو صدف مردہ حالت میں گھر سے ملی جسے اس کے شوہر نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ پولیس نے بیوی کے قتل میں ملوث شوہر کو گرفتار کرلیا ۔
یہ کہانی لکھتے وقت مجھے کافی دکھ ہو رہا تھا کہ کیسے ایک ظالم مرد نے ایک ہنستی زندگی کو ختم کردیا، صدف کے گھر والوں نے خاموشی اختیار کرلی کیونکہ ان کو بدنامی کا ڈر ہے لیکن ہمیں اب چوکنا رہنا ہوگا۔
ایسے بہت سارے مرد نما بھیڑیئے آج بھی سوشل میڈیا پر لڑکیوں کو جال میں پھنسانے کیلئے بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر لڑکی کو ایسے بھیڑیوں سے محفوظ رکھے آمین۔