خوش و خرم مسلمان خاندان

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حمیرا گیلانی :

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
یہ ایک مصرعہ نہیں بلکہ ایک کرب ہے، ایک ایسی تکلیف کا اظہار جس کو نہ تو کوئی سمجھ سکتا ہے اور نہ بیان کر سکتا ہے جب تک وہ خود اس تکلیف سے نہ گزرے لیکن آج ہمارے معاشرے کے ہر گھر پہ یہ مصرعہ صادق آ رہا ہے کیونکہ ہمارے گھروں میں غیر محسوس طریقہ سے موبائل اور نیٹ داخل کر دیا گیا۔

یہ سکرین پتہ نہیں کیسے ہمارے گھروں میں نہ صرف داخل ہوگئی بلکہ گھروں کو مکان میں تبدیل کر گئی۔ وہ گھر جہاں محبت کی مہک ہوتی تھی جہاں اپنائیت کے رنگ بکھرے تھے، رشتے ایک دوسرے سے ایسے جڑے تھے کہ لگتا تھا تسبیح کے دانے ہیں ۔

ممتا کی خوشبو اور بزرگوں کی دعائیں ہر طرف رقص کرتی تھیں، باپ کی شفقت و محبت ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ اڑوس پڑوس تو ایسے لگتا تھا جیسے ان سے زیادہ سگا کوئی نہیں۔ ہر ایک آپس میں ایسے رہتے تھے کہ لگتا تھا کہ وہ ہم ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔

پھر نجانے کس کی ںظر بد لگ گئی ، کون سی آندھی چل گئی جو ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ کہاں سے وہ آ گیا جو ہمارے گھر کو گیسٹ ہاؤس بنا گیا ۔ انسان خواہشات کی اندھی تقلید میں، زیادہ سے زیادہ مال کی ہوس اور ” تیری دیوار سے اونچی میری دیوار رہے “ کے چکر میں پڑگیا۔

وہ اپنے ہی گھر میں بڑی بڑی سکرینیں نصب کر بیٹھا اور اسی سکرین نے اس کے خاندانی نظام کو چکنا چور کر دیا ۔ سکرین ٹائم جو پہلے 2 گھنٹے پہ محیط تھا، پھیلتے پھیلتے چوبیس گھنٹوں پہ چھا گیا ۔ جس نے ماں کو اولاد سے، باپ کو خاندان سے، اولاد کو والدین اور بزرگوں سے جدا کر دیا ۔

رشتے بھی وہی ہیں۔ رہتے ہیں اسی چھت کے نیچے لیکن اجنبی بن کے۔ بس تعلق اتنا ہی رہ گیا کہ ماں کو فکر ہے کہ بچے بھوکے تو نہیں۔ باپ کو فکر ہے کہ سکول فیس وقت پہ جا رہی ہے۔ بچوں کو فکر ہے کہ ہمارا کارٹون ٹائم مس نہ ہو جائے۔ نہ وہ آپس کی چاہت ہے نہ وہ رات کی گپ شپ ۔ سکون سے خالی شب و روز جس میں من کے خالی پن کا احساس حاوی ہے۔

مکان بنائے جاتے ہیں۔ انسان انھیں گھر بناتے ہیں، غلطی کہاں کب اور کس سے ہوئی، اب یہ دیکھنے کا وقت نہیں۔ اب تو اس غلطی کو سدھارنے کا وقت ہے ۔ بس! کوشش کریں کہ اپنے ذمہ کا کام کریں اور آج کی نسل کے ذہن میں یہ بات ڈال دیں کہ گھر انسانوں سے بنتے ہیں۔ ہر ٹیچر، ہر ماں باپ، پڑوسی، رشتہ دار، غرض ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ اپنا فرض نبھائے اور جس مکان میں وہ رہتے ہیں، اسےایک بار پھر گھر بنالیں۔
یہ ہے وہ ذمہ داری جسے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی نسل تیار کرنے کی ضرورت ہے جو اس کے مفہوم کو جانتی اور سمجھتی ہو ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں