ڈاکٹرشائستہ جبیں :
[email protected]
اللہ رب العزت نے ہر انسان کو ایک خاص فطرت پر پیدا کیا ہے۔ فطرت لفظ ’فطر‘ سے وجود میں آیا ہے جس کے معنی ہیں:” اندر سے پُھوٹنا “۔ اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ کا ایک صفاتی نام ”فاطر“ بھی ہے (فاطر السموت والارض) یعنی وہ جو کائنات کو بنا کسی سابقہ مثل کے وجود میں لے آیا۔
فطرت دراصل انسان کے وہ مجموعی اوصاف، صفات اور داعیات ہیں جو ہر انسان کے وجدان میں موجود ہیں۔ یہ تمام احساسات، جذبات و محرکات وہ ہیں جو بنانے والے نے پیدائشی طور پر اس کی شخصیت میں مضمر کر رکھے ہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ انسان دیگرحیوانات کی طرح محض داخلی وجود پر نہیں چلتا بلکہ اس کے حالات و واقعات بعض دفعہ اس کی فطرت کو جزوی یا کُلی طور پر بدل دیتے ہیں۔
انسان کو ارادہ و اختیار کی وہ خصوصی صلاحیت عطا ہوئی ہے، یہ صلاحیت استعمال کر کے وہ چاہے تو سلیم الفطرت بنا رہے اور چاہے تو فطری داعیات کو دفن کر کے اپنی فطرت کو مسخ کر ڈالے. اس حقیقت کا بیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں واضح فرمایا ہے:
”ہر بچہ فطرت ( یعنی اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں.“ (صحیح بخاری)
قرآن مجید میں فطرت کے حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے : فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ (الروم 30:30)
ترجمہ : اللہ کی بنائی ہوئی فطرت پر چلو جس پر اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے. اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی.
مولانا تقی عثمانی نے اس آیت کی تفسیر میں فطرت کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
”اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں یہ صلاحیت رکھ دی ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کو پہچانے، اس کی توحید کا قائل ہو، اور اس کے پیغمبروں کے لائے ہوئے دین کی پیروی کرے، اسی کو آیت میں فطرت سے تعبیر کیا گیا ہے.“
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ فطرت نہیں بدل سکتی. جس کی فطرت میں خیر اور بھلائی کا مادہ ہے، وہ دوسروں تک بھی خیر اور بھلائی ہی پہنچائے گا اور جس کی فطرت میں شر اور بُرائی ہے، وہ اس پر قابو پا کر کسی کو فیض نہیں پہنچا سکتا۔
مثال کے طور پر سانپ اور بچھو کی فطرت ڈنک مارنا اور اپنا زہر منتقل کرنا ہے. آپ ان کے ساتھ جتنا مرضی اچھا برتاؤ کر لیں، وہ موقع ملنے پر آپ کو ڈنک مارنے سے باز نہیں آئیں گے۔ فطرت کے اسی نہ تبدیل ہونے کے حوالے سے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
”جب تم سُنو کہ احد پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گیا ہے تو اسے سچ مان لو، لیکن جب تم یہ سنو کہ کسی آدمی کی فطرت بدل گئی ہے، تو اس کا اعتبار نہ کرو، اس لئے کہ انسان اسی چیز کی طرف جاتا ہے، جس پر وہ پیدا گیا ہے۔“
(مسند احمد بن حنبل)
یعنی انسان جس جبلت اور خلقت پر پیدا ہوتا ہے، اسی پر ہمیشہ قائم رہتا ہے اور اس کا حقیقی میلان اسی طرف قائم رہتا ہے۔ مثلاً جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے عقل مند و دانا پیدا کیا اور اس کی سرشت و فطرت میں عقل و دانش کا مادہ ودیعت فرما دیا، اور اس کی تقدیر میں فہم و فراست کے جوہر رکھ دیئے تو وہ کبھی بے وقوف اور احمق نہیں ہو سکتا۔
البتہ ایسے افراد جو اپنی ذاتی کوشش اور محنت سے یا اصحاب عقل و دانش کی صحبت اختیار کر کے ان اوصاف کے حامل ہو جاتے ہیں، وہ اس میں شامل نہیں ہیں. اس لئے کہ یہاں بحث فطرت اور جبلت کی ہے کہ انسان کو جس خصلت اور فطرت پر پیدا کر دیا گیا، وہ اس سے الگ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اس میں تغیر و تبدل ممکن ہے.
رہا اپنی ذاتی کوشش یا اہل عقل و فہم کی صحبت سے اعلیٰ اوصاف کا حامل ہونا، تو ایسا محض چند مخصوص لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کی تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے یہ بدلاؤ لکھ رکھا ہوتا ہے، مکمل فطرت ان کی بھی نہیں بدلتی. کیونکہ انسان ظاہر کو جتنا مرضی بدل لے، فطرت نہیں بدل سکتا۔
اچھے انسان کی اچھائی ہر طرح کے حالات میں قائم و دائم رہتی ہے اور برے انسان کی برائی ظاہر ہو کر رہتی ہے، جیسے خوشبو کو چھپانا ناممکن ہوتا ہے، ویسے ہی اچھا انسان اپنی فطرت کے مطابق ہر حال میں اچھا ہی ہوتا ہے اور برا انسان، اچھا بننے کے جتنے ناٹک کرے، اس کی بری فطرت، اُس سے کچھ برا کرا کر اسے ظاہر کر دیتی ہے.
مشہور پنجابی صوفی شاعر حضرت سلطان باہو رح کا اس حوالے سے مشہور شعر ہے، جس میں بظاہر انہوں نے جانوروں کا ذکر کر کے فطرت کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیا ہے:
سپاں دے پتر متر نہ تھیندے ،بھانویں چُلیاں دُدھ پیائیے ہو
کانواں دے بچے ہنس نہ تھیندے، بھانویں موتی چوگ چُگائیے ہو
(یعنی سانپ کی اولاد کسی کی دوست نہیں ہو سکتی، چاہے آپ اس کی کتنی خدمت کر لیں، اپنے ہاتھوں سے دودوھ ہی کیوں نہ پلائیں، اسی طرح کوے کا بچہ، اپنی خصلت میں کوے کا بچہ ہی رہے گا، وہ ہنس کا بچہ نہیں بن سکتا، چاہے اسے ہنس کی خوراک ہی کیوں نہ کھلائی جائے۔)
مولانا روم نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
این بود خوئے لئیمان دنی
بد کند با تو چو نیکوئی کنی
(کم ظرف اور بد فطرت لوگوں کی یہی عادت ہوتی ہے کہ جب اُن سے تو نیکی کرے تو وہ تجھ سے بدی کرتے ہیں.)
بد فطرت شخص کے ساتھ جتنا مرضی اچھائی کا معاملہ کر لیں، وہ اپنی فطرت کے مطابق ہی آپ کے ساتھ جوابی طرزِ عمل اختیار کرے گا، کیونکہ فرق فطرت کا ہے، جس شخص کی فطرت میں اچھائی ہے، وہ بہرصورت بھلائی کا رویہ رکھے۔
4 پر “کیا واقعی انسان کی فطرت نہیں بدلتی؟” جوابات
,Aslam o Aliqum wr wb.Dr shaba bhat alaa topic ha khmsha ki tarh.Jazak Allah khaira.khush rhy
Sukriya
Very very much Informative… Especially 1st paragraph…
Informative…weldon dr shaihba….i got very good points frm this…stay blessd dear❤️
Best post.. truly said that nature can never be changed..stay blessed api..❤️