شازیہ عبدالقادر:
”ثریا تمھاری تو لاٹری نکل آئی، اتنے خوبصورت دلہا۔“ سہیلیاں بالیاں ان کی شادی پر انہیں رشک سے کہہ رہی تھیں۔
اور پھر انہی سہیلیوں کو جنازے میں بیتابانہ پہنچتے دیکھا تو وہ تب بھی رشک سے یہی کہہ رہی تھیں کہ ثریا تو تھی ہی جنت کی مکین۔
1975 میں والد راجہ احسان الحق کے منصورہ ملتان روڈ کے اولین رہائشی گھرانوں میں پلنے والی ثریا انور کی زندگی آج کی ہر خاتون، ہر لڑکی کے لئے صحابیات جیسی ایک مثال ہے۔
راجہ احسان الحق منصورہ کی ابتدائی انتظامیہ میں سے تھے۔ اس دور کے تمام لوگ ان کی خدمات اور محنت کے گواہ ہیں۔
یہ دس بچوںکی ماں ، ایک بچے کا شیرخوارگی میں صدمہ سہنے والی اور ایک جوان شہید بیٹے کی ماں کا اعزاز بھی رکھتی تھیں جو 21 اگست 1999 میں جہاد کشمیر کے دوران شہید ہوا۔
میری خالہ جان سے شناسائی 1995 میں تب ہوئی جب ہم مرکز اسلامی جمعیت طالبات میں تربیت گاہوں کے دوران میں انھیں مرکز میں گھومتے پھرتے دیکھتے۔
مرکز طالبات کے من جملہ امور کے سلسلہ میں خالہ جان گلفرین نواز، خالہ جان فہمیدہ گل ہاشمی، بیگم صفدر چوہدری، بیگم صفیہ قرنی، بیگم زبیدہ اسعد گیلانی اور خالہ جان ثریا سے مسلسل رابطہ رہتا تھا۔ ان کی طرف سے مرکز طالبات اجلاسوں،شوراؤں،تربیت گاہوں،اجتماعات میں کبھی کھانے آرہے ہیں اور کبھی ہم چابی لینے اور دینے جارہے ہیں، کبھی سفر کے دوران ساتھ خالہ جان کی ضرورت پڑتی تھی ۔
یہ صرف ایک ایک خالہ جان نہیں بلکہ ان کے پورے پورے گھرانے اس خدمت میں شامل ہوا کرتے تھے۔
سبھی خالہ جانیں اپنی اپنی جگہ اقامت دین کی جدوجہد کرتی نوعمر طالبات کے لئے محبت اخلاص اور خدمت کے جذبے سے سرشار تھیں ۔
مگر خالہ جان ثریا انور کا جذبہ کچھ اور ہی تھا۔ ان کی مہمان نوازی، نفاست اور سلیقہ اور پرخلوص اصرار سے گندھی ہوئی ہوا کرتی تھی۔
منصورہ آڈیٹوریم سے مرکز طالبات تک کا اندرونی راستہ جہاں طعام گاہ و بک اسٹالز لگا کرتے اور ساتھ والے فلیٹ کے صحن میں برتن دھلا کرتے تھے، وہاں سے آج بھی گزروں تو کان میں خالہ جان کی آواز گونجتی ہے:
”راستے سے برتن اٹھالیا کریں۔“
”جلدی جلدی سمیٹا کریں۔“
”کام والیوں کو پیسے کس بات کے دیتے ہو جب وہ وقت پر صفائی نہ کریں“
”لائٹس، پنکھے بند کردیا کریں“
کبھی وہ کھانا دینے آرہی ہیں اور کبھی برتن گم ہوگئے تو ان کی تلاش میں آرہی ہیں۔
مرکز اسلامی جمعیت طالبات کی نگرانی اور مختلف تربیت گاہوں اجتماعات کے انتظامیہ میں ہونے کی وجہ سے منصورہ کی خالہ جانوں کے ساتھ بار بار رابطہ رہتا۔
اور اکثر ہی کسی نہ کسی کے برتن ہمارے کچن کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے۔
ایک بار ہم کسی اجلاس کی بریک میں باتوں میں مصروف تھے کہ دور سے شنید آئی کہ ثریا خالہ جان آرہی ہیں۔
میں ایک دم سہیلیوں کے پیچھے چھپ گئی کہ رات جس دیگچی میں چاول آئے تھے۔ وہ غائب تھی ۔
حسب توقع خالہ جان نے آتے ہی میرا نام لے کر پوچھا،سہیلیاں آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں
تو مجھے آواز آئی:
”اچھا تو جب وہ ملے اسے یہ گاجر کا حلوہ دے دینا“
اور واپس چل پڑیں۔
یہ الگ قصہ ہے کہ وہ گاجر کا حلوہ مجھے کتنا مل سکا۔
خالہ جان ایسی ہی تھیں، جو لڑکیاں انتظامیہ میں ہوتیں وہ ان کا ایسے ہی، ماں کی طرح خیال رکھتی تھیں۔
ان کی بیٹی حمیرا ہماری ہم عمر تھیں، آگے پیچھے کی بہنیں، اپنے والدین کی لاڈلی، نٹ کھٹ سی۔ خالہ جان بار بار ہمیں کہتیں:”حمیرا کو ساتھ ساتھ رکھا کرو۔“
مرکزی ترسیل کی ذمہ داری کے دوران یا کسی اجتماع کے انتظامیہ میں ہونے کے دوران، جب کام کے لئے کالج و اکیڈیمی کے درمیانی وقت مرکز جمعیت طالبات بھاگم بھاگ جانا ہوتا، جاکر پہلا فون خالہ جان ہی کو کرنا ہوتا تھا کہ حمیرا لوگوں کو بھیج دیں، اور حمیرا لوگ موجود ہوتے۔ ڈائریکٹ حمیرا سے کہتی تو وہ آئیں بائیں کرتی اور جب خالہ جان سے کہتی تو وہ ضرور اسے بھیج دیتیں۔ ایسے کرتے کرتے ہماری دوستی بہت اچھی ہوگئی اور حمیرا خود سے جمعیت کے پروگرامات اٹینڈ کرنے میں دلچسپی لینے لگی۔
خالہ جان کی یہ حکمت تھی کہ بیٹی کو زبردستی اجتماعات میں نہیں بھیجا بلکہ کام کے بہانے ہم سے جوڑا۔بیٹیوں کے ایمان اور تربیت کی فکر ان کے لہجے سے چھلکتی تھی۔
1998 میں ان کے جواں سال بیٹے کی جہاد کشمیر میں شہادت پر جب جمعیت طالبات کا وفد خالہ جان کےپاس گیا تو ہشاش بشاش۔ شعیب شہید بھائی کی چیزیں دکھائیں اور بتایا کہ کیسے وہ خواب میں آئے اور کیسے خوشبو آتی ہے۔
انھوں نے شہید کی ماں ہونے کا حق ادا کیا۔
اہل منصورہ رشک کرتے تھے کہ ثریا چن کر بہوئیں لائی ہے۔ اللہ نے انھیں اس معاملے میں بھی بڑی خیر سے نوازا تھا لیکن آج ہر ایک کی زبان پر ہے کہ خود خالہ جان کی بیٹیوں جیسی بہوئیں یہ کہتی ہیں کہ وہ ہماری ماں سے بڑھ کر تھیں۔
گھر کی آس پاس کی رشتہ داروں کی یہ گواہی کہ بہوؤں کو انہوں نے بیٹیوں سے بڑھ کرمقام دیا عزت دی۔
زاہدہ نصیر کہتی ہیں کہ شادی کے ساتویں دن تراویح کے لئے ساتھ منصورہ مسجد لے گئیں اور سب سے ملوایا۔ زاہدہ یہ بتارہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ
گھر میں بہو سے ساتویں دن میٹھا بنواکر میٹھی زندگی کے آغاز کا اہتمام کرنے والے اللہ سے جوڑنے کا آغاز کرنا شروع ہوجائیں تو زندگی گلزار کیوں نہ ہو۔ اس کا ثبوت خالہ جان ثریا کی گھریلو زندگی ہے۔
زاہدہ اور ثمینہ باتیں بتائی جارہی تھیں۔
زاہدہ کہتیں کہ ان کا پہلا بیٹا جس کا نام اس کے شہید چچا پر شعیب پر ہے، چند ماہ کا تھا جب خالہ جان نے کہا کہ اسے بچے کی پھوپھو سنبھالے گی۔ آپ جامع مسجد منصورہ کا دورہ تفسیر کریں اور یوں شادی کے دوسرے سال ہی بہو کو چالیس دن ہر فکر سے آزاد کرکے قرآن کی صحبت دستیاب کی۔
ثمینہ کہنے لگی: ہم بیمار ہوں یا بچوں کی آمد کا سلسلہ ہو، روزانہ تازہ ہاتھ سے پسے ڈرائی فروٹس سے بھرپوردودھ کا گلاس فجر کے بعد ہماری سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوتا۔ تین سال قبل آنے والی پوتی کے وقت بھی انہوں نے بہو کے لئے یہی روایت جاری رکھی حالانکہ اب زیادہ نحیف تھیں۔
ہمیں اپنی ضروریات کا کبھی کہنا نہیں پڑتا تھا، انہیں سب خود خبر ہوتی۔
ان کی عادت یہ بھی تھی کہ بیٹوں کو کہتیں :
”آج تو میرا بڑا ہی دل کررہا ہے کہ فلاں چیز کھاؤں یا بس ابھی فلاں چیز آجائے “
بیٹے ماں کی فرمائش پر دوڑے جاتے جبکہ وہ خود اتنی شوقین نہ تھیں لیکن بہوؤں کے لئے وہ یہی طریقہ اختیار کرتیں۔
بہوئیں کہتیں کہ ہم میاں بیوی میں کوئی گرما گرمی ہوجاتی تو مسکرا کر کہتیں:” چونچیں لڑ پڑی ہیں“
پھر ہمیں سمجھاتیں کہ
تم میری بیٹیاں ہو، میں نے تو اپنی بیٹیوں سے ہی بات کرنی ہے نا۔ یہ بیٹے بس ایسے ہی ہیں۔
بہوئیں کہتیں کہ ان کے لہجے میں جانے ایسا کیا تھا کہ ہمارے دل میں ان کی بات اتر جاتی اور ہمیں لگتا کہ بس ہماری ماں ہیں یہ شوہروں کی ماں نہیں۔
افطاریاں کروانا، مرکز خواتین، مرکز جمعیت طالبات کی مہمان داریاں کرنا بلاشبہ تسلسل سے ان کا معمول تھا۔
وہ نہ صرف لوازمات و کھانا لےکر آجاتیں بلکہ ایک ایک کو خود پیش کرتیں، محبت سے کھلاتیں کہ یہ اللہ کے سپاہی ہیں، دین کی خدمت کرنے آئی ہیں، ہمیں ان کی خدمت کرنا چاہئے۔
وہ بےلوث خدمت کا حق ادا کیا کرتیں۔ اس سال آخری رمضان المبارک تک وہ ڈھیر سارا بیسن خود گھولتیں۔ سچی بات ہے کہ ان کے گھر سے آئی ہر چیز کا ذائقہ ہی الگ تھا۔
ایمیون سسٹم ڈس آرڈر کےدوران، میں منہ کے شدید السر کا شکار ہوگئی۔ ڈاکٹرز سے تشخیص نہ ہورہی تھی۔ تین چار ماہ سے منہ گلے کے زخموں کی اذیت سے گزرتی ہوئی بالآخر ہاسپٹل داخل ہوگئی۔
بلاشبہ اہل منصورہ نے میرے گھر، میرے بچوں کی نگرانی کا حق ادا کردیا لیکن سب سے حیرت انگیز بات جسے میں معجزہ خداوندی کہتی ہوں اور جس کا گواہ صرف اللہ ہے ۔ مجھ سے پانی کا ایک گھونٹ پینا تیزاب جیسا لگتا تھا، شہد والے پانی کے ڈراپر بھی اذیت سے حلق سے گزرتے تھے اور منہ گلہ ہونٹ زخموں سے بھرے تھے۔
ہاسپٹل میں بچوں کی گھر میں پریشانی کی وجہ سے میں بہت بےچین تھی۔ کبھی انھیں ایسے اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔ اور ڈاکٹر نے کہا تھا کہ جب تک آپ کچھ کھانا شروع نہیں کریں گی ہم چھٹی نہیں دے سکتے اور مستقل ڈرپس پر رہنا خطرناک ہے ۔ آپ کھانے کی کوشش کریں۔
میرا ہاسپٹل کا سائیڈ ٹیبل نرم پتلے کھانوں جوسز سے بھراہوا تھا۔ مجھے یادہے کہ زاہدہ کا میسج آیا ، خالہ جان کی دعا پہنچائی اور پوچھا کہ کیا کچھ کھانا ہے؟ جانے کیا میرے دل میں آئی، اسے بتایا کہ ڈاکٹر یہ کہتے ہیں حالانکہ سوپ اور چاول دونوں میری ٹیبل پر تھے اور مجھ سے ذراسا بھی منہ میں کچھ رکھنا ناقابل بیان تکلیف کا باعث ہوتا۔ یقین مانیں، اللہ گواہ ہے کہ خالہ جان ثریا کے گھر سے آیا سوپ کا کپ میں نے بہت کم تکلیف کے ساتھ پی لیا جس کی بنا پر مجھے ڈاکٹر نے اگلے دن چھٹی دے دی۔
خالہ جان ثریا اپنی بہوؤں سے روزانہ کوئی نہ کوئی نرم پتلی چیز بنواکر مجھے بھجواتیں اور مجھ سے وہی کھایا یا پیا جاتا جو ان کے گھر سے آتا۔ مجھے تڑپتے، دعائوں سے بھرے وائس میسجز ملتے۔ زاہدہ سے بار بار میرا حال پوچھتیں ۔
زاہدہ بتاتی ہے کہ انورنیازی چچا جان کو کہتیں کہ آپ تہجد گزار ہیں، میری بیٹی شازیہ کے لئے دعا کریں، خدا اسے بچوں کے سر پر سلامت رکھے۔ انورچچا جان سابق مرکزی پرسنل سیکرٹری امیر جماعت اور نشرواشاعت کے ذمہ دار ہزاروں لوگوں میں سے شازیہ کی صحت بارے میں اس لئے پوچھتے کہ خالہ جان میرے لئے انہیں رو رو کر دعا کا کہا کرتی تھیں۔
میرا وقت ابھی مقرر نہ تھا ورنہ وہ ایسا وقت تھا کہ میں موت کےمنہ سے واپس لوٹ کے آئی تھی۔ ایک نئی زندگی مجھے ملی۔ میری والدہ،میرے چچا، چچی، بھائی سب سہیلیاں، واقف کار کس کس نے بےلوث دعا نہ کی لیکن سب پر اجتماعیت کی ساتھی بازی لے گئیں۔
میرا میکہ دور نہ تھا لیکن خالہ جان ثریا منصورہ میں میرے لئے میکہ بن گئی تھیں۔ ان کی بہوئیں بھی اسی محبت میں گندھی ہوئی تھیں۔ میری والدہ اور بھائی دونوں ان کو ان کے خاندان کو بہت دعائیں دیتے ہیں۔
سات آٹھ ماہ ثریا خالہ جان نے دن رات میرے لئے جیسے دعائیں اور خدمتیں کیں، میں اپنے رب کی کس کس نعمت کا شکر ادا کروں۔ جب صحت یاب ہونا شروع ہوئی، ڈاکٹر نے کہا کہ تھوڑا بہت باہر آئیں جائیں۔ میں جامعۃ المحصنات گئی۔ واپسی پر خالہ جان کے پاس گئی تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ رونے لگ گئیں۔ ہاتھ اٹھا اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے لگیں۔ میرے ہاتھ چومتیں اور کہتیں: اللہ تیرا شکر ہے۔
آپ کو حیرانی ہوگی کہ وہ سب کے ساتھ ایسی ہی تھیں۔ 1975 سے 2019 تک منصورہ کے مرکزی فلیٹس میں رہنے والے ایک ایک گھر کی بیسیوں گواہیاں مل رہی ہی۔ یہاں تک کہ جب وہ 2019 میں گلزار منصورہ شفٹ ہوئیں تو بھی یہاں کی بہنوں سے تعلق رہا۔ اس رمضان ہر پرانی ہمسائی کو انہوں نے مکمل پروٹوکول کے ساتھ افطاریاں بھیجیں۔ گلزار منصورہ میں بھی ان کا سلوک ہمسائیوں سے ایسا ہی تھا۔
ہمسائے گواہی دیتے ہیں کہ تین بہوؤں کے ساتھ ایک گھر میں رہیں لیکن کبھی لڑائی کی یا اونچی آواز نہ آئی
کرونا کے باعث عید پر کوئی ملنے ملانے کا سلسلہ نہیں تھا۔ پھر بھی وہ سب ہمسائیوں کو عید ملنے گئیں۔
کبھی ادھر کی ادھر بات میں شامل نہیں ہوتی تھیں۔ اپنے کام سے کام رکھنا، متحرک رہنا، منصورہ کے گھر گھر سے واقفیت، تعلقات،
شوہر ایک حساس ذمہ داری پر فائز رہے لیکن مجال ہے کہ ان سے آپ کسی کی بری بات سنیں، کوئی شکوہ شکایت سنیں۔ ہمیشہ بھلی بات، ہمیشہ صلح جوئی، ہمیشہ مثبت پہلو سامنے رکھتیں۔
جماعت اسلامی کی پالیسی اور سمع و طاعت میں ہم نے انہیں کبھی پیچھے نہیں دیکھا۔ کبھی قیادت سے شکایات یا شکوے کرتے نہیں پایا۔
ہمیشہ قیادت کے لئے بے لوث خدمت، محبت اور پالیسی پر یکسوئی ہی دیکھی۔
بہوئیں کہتیں کہ ہم کسی کے بارے میں کوئی رائے دیتے ، بات کرتے تو ہمیں منع کرتیں یا پھر خاموش رہتیں۔ ایسی کسی گفتگو کا حصہ نہیں بنتی تھیں،ہمیں بھی پیار سے سمجھاتی تھیں۔
سترہ سال قبل کینسر کی بیماری سے بہادری سے لڑنے والی ثریا خالہ جان نے بعد میں مسلسل گرتی صحت کو اپنی خود سے طے کردہ ذمہ داریوں سے فارغ نہیں کیا۔ وہی بےلوث خدمت، خبرگیری جاری رکھی، چلتے پھرتے رہنا۔ نظر کم ہوچکی تھی لیکن کمزور صحت و نحیف جسم کے ساتھ ہم نے انہیں منصورہ میں ریلیوں میں، اجتماعات میں،ہر جگہ ہمہ وقت موجود پایا۔
پرانے کینسر نے دوبارہ سر اٹھایا تو علاج سے انکار کیا کہ اللہ ٹھیک کردے گا۔ اور یہی ہوا ایک ہومیو علاج اور تکلیف والی جگہ ایک مسنون دعا کا دم ان کی درد پر غالب رہا۔
شوگر کی مریضہ تھیں، بہو نے بتایا کہ چائے میں چینی ڈالتیں، ہم کہتے: ”امی جی!!!“ تو کہتیں۔
”لو دیکھو میں نے پڑھ دیا : بسم اللہ الذی لایضر مع اسمہ ۔۔۔۔۔۔۔ اب کیسے یہ مجھے نقصان دے سکتی ہے یہ تو اللہ کے نبی ص کا فرمان ہے یہ پڑھو تو کچھ نقصان نہ دے گا۔“
اور واقعی امی جی کی شوگر لو تو ہوجاتی ہائی کم ہی ہوئی۔
حالات حاضرہ سے باخبر رہتیں روزانہ اخبار پڑھنا، خبرنامہ سننا ان کا معمول تھا۔
رمضان المبارک کے بھی مکمل روزے رکھے اگرچہ آخری عشرے کے روزے انہیں رکھنے میں مشکل ہوئی لیکن منع کرنے کے باوجود انہوں نے مکمل روزے رکھے۔ بہو بتارہی تھیں کہ ہم نے منع کیا تو کہا :
”میں نے رمضان سے قبل اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی
مجھے مکمل روزے رکھوادیں
اللہ رکھوارہا ہے تو میں کیوں چھوڑوں۔۔۔۔۔“
رمضان المبارک میں ایک گھر چھوڑ کر میاں مقصود صاحب کے گھر تروایح پڑھنے جاتی رہیں،
عید کے دن ہمسائیوں سے ملنے گئیں اور رات ان کو تیز بخار نے آلیا۔ چند دنوں میں کورونا کا خدشہ درست ثابت ہوا اور ہاسپٹل میں شدید تکلیف کے ساتھ رہیں۔
یہ گھر کی گواہی ہے۔ میں نے ان کی بہوؤں کو ایک عرصہ ان سے ماں بیٹی جیسا سلوک کرتے دیکھا لیکن ایک مہلک بیماری میں مبتلا ساس کو تینوں بہوؤں نے جیسے بےلوث سنبھالا، یہ بے مثال بھی ہے اور معجزہ بھی۔ان کی اپنی بیٹی حمیرا اپنی بھابھیوں کا شکریہ ادا کرتی ہے تو بھابھیاں تڑپ اٹھتی ہیں کہ حمیرا ! وہ ہماری ماں تھیں۔
بہوئیں ان کے ہاسپٹل کے دوران ایک ہی سالن بنا کر بچوں کو کہہ جاتی تھیں کہ روٹیاں منگواکر کھا لینا۔ یاد رہے کہ اس گھر میں اٹھارہ سال سے تین سال کے مختلف عمروں کے پوتے پوتیاں ہیں۔
تینوں وہاں خالہ جان کے پاس رہتی تھیں۔ ڈاکٹر نے منع کیا لیکن بہوؤں سے ان کی تکلیف نہ دیکھی جاتی تھی۔ وہ کبھی ان کو سہارا دے کر کھانسی کے دوران کمرسہلاتیں۔ اس دوران زاہدہ بہن کے منہ پر بھی ان کی کھانسی کے چھینٹے پڑے۔ گلوز کے استعمال سے بہو کے ہاتھ الرجی ہوئی تو اس نے گلوز کے بغیر ان کے ساتھ وقت گزارا۔ کہتی ہیں کہ ہمارا دل ہی نہیں مانتا تھا کہ ہم انھیں دور سے اکیلا بیڈ پر بے یار ومددگار پڑا دیکھیں۔
پھر انہیں ہاسپٹل سے فارغ کردیا گیا۔ گھر بچوں سے بھرا ہوا تھا ۔ چھوٹے بچے تو کچھ سمجھتے نہیں تھے۔ کسی وقت چھوٹی پوتیاں لپٹ جاتیں۔ بہوؤں کےہاتھوں میں انہوں نے جان بنا کسی تردد کے اللہ کے سپرد کی۔
پھر گھر والوں نے پندرہ دن آئسولیشن پوری کی۔
ڈاکٹر جس نے علاج کیا وہ یہ قطعاً ماننے کو تیار نہیں کہ ایک کورونا کا مریض جس گھر میں ہو، وہاں کسی ایک بھی گھر والے کو کوونا کی ہلکی سی علامت بھی نہ ظاہر ہوئی ہوں۔ سبحان اللہ
شدید بیماری کے دوران دنیا و مافیا سے بے خبر کورونا جیسے اذیت ناک مرض سے نپٹتے ان کے منہ سے صرف یہ نکلتا:
” اللہ آجا نا۔۔۔۔۔ اللہ آجا نا۔۔۔۔۔۔“
کسی وقت ان کے تاثرات سے محسوس ہوتا کہ وہ جسمانی طور پر تو یہیں ہیں ذہنی طور پر کہیں اور موجود ہیں
ایک بار بہو سے کہنے لگیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بکری گم گئی ہے۔ بکری کا نام بتاتیں لیکن بہو کو سمجھ نہ آیا۔
پھر کہتیں:
ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بکری تلاش کررہے ہیں۔
ان کی بہو ثمینہ بہن بتارہی تھیں کہ جب ان کا آخری وقت تھا تو ہم شہد والا زمزم ان کو ایک ایک ڈراپر سے تھوڑے وقفے سے دے رہی تھیں۔ ایک ڈراپر گزر گیا تو دوسرا اٹکا۔ پھر تیسرا گزرا اور چوتھا دوبارہ نکل گیا۔میں نے زاہدہ کو بلایا۔ بیٹے آگئے، وہ انھیں چیک کرنے لگے لیکن میری نگاہ ان کے چہرے کے بدلتے رنگ کی طرف تھی۔
ان کے آخری وقت میں کسی ہچکی، کسی سانس نکلنے، ہوک کی ذرا سی آواز نہیں آئی۔ چہرے کا بدلتا رنگ دیکھا، ساتھ میں نے ان کے بازو دیکھے، میرے دیکھتے دیکھتے ان کے جسم کا رنگ بدل رہا تھا۔ میں نے فوراً ٹانگیں دیکھیں۔ ان کی ٹانگوں کی نشان ختم ہورہے تھے۔ اسی وقت میں نے ان کے پاؤں چیک کئے جن کے تلوے پر نیلاہٹ کے نشان تھے۔ باجی! وہ نشان غائب بالکل صاف تلوے اور پاؤں بھی بالکل صاف ہوگئے
اور یہ سب میرے سامنے دیکھتے دیکھتے ہوا۔
ان کی بہو بتارہی تھی اور میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہورہے تھے کہ
اللہ کے وعدے کتنے سچے ہیں، کتنے حق ہیں۔
اس کے بعد غسل بہوؤں نے دیا۔ کہتی ہیں کہ ان کا وزن تو نہیں تھا لیکن وفات کے بعد وہ بہت ہلکی ہوگئیں۔ انہیں ہم نے آرام سے اٹھایا، ہلایا، جلایا،غسل دیا ، کفنایا، وہ بالکل ایک چھوٹے بچے جیسی ہلکی پھلکی ہوگئیں تھیں۔
ان کی خواہش تھی کہ 1975 سے جہاں ان کا قیام رہا، جنازہ وہیں سے نکلے۔ تو بیٹے ان کا جنازہ اس گھر کے سامنے لائے تو خالہ جان کی سہیلیاں ہمسائیاں سب آن پہنچیں۔
وفات کے بعد بیٹے نصیر نیازی نے خواب میں بہت اچھے حال میں دیکھا، پوچھا:
امی فرشتوں نے آپ سے سوال پوچھے؟
کہتیں: ہاں! میں نے سب کے جواب دے دئیے۔
ہمارے ساتھ یہاں بڑامذاق ہوا ہے ہم چھوٹے تھے بڑے ہوتے جارہے ہیں۔
بیٹی حمیرا نے دیکھا کہ ایک جانب بہت بڑا فریج ہے۔ مختلف النوع شاندار چیزوں سے بھرا ہوا اور دوسری جانب بڑے سے شاندار پلنگ پر خالہ جان بیٹھی ہیں۔
کسی نے دیکھا بڑے اچھے حال میں ہیں۔ دو بچے پاس کھیل رہے ہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ شاید ایک شیرخوار بیٹا اور ایک شیرخوار پوتی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی لوگوں کے خواب میں آئیں اور کہا کہ یہاں بہت خوش ہوں۔
اللہ یہ سب گواہیاں ان کے حق میں قبول فرمائے،ان کے درجات بلند ہوں۔ آمین
ان کی زندگی سے میں نے توکل علی اللہ، راہ خدا میں صبر و استقامت، بےلوث خدمت، تحرک سیکھا۔
کاش! میں تھوڑا سا بھی عمل کرسکوں. اللہ توفیق دے آمین۔
یہ سب باتیں مجھ جیسی کمزور ایمان وعمل رکھنے والی ایک گناہ گار سی مسلمان کے لئے ایمان بڑھانے کا باعث ہیں۔ میں ان کی مکمل زندگی کی جھلک دکھانے سے قاصر ہوں مگر یہ چند جھلکیاں مجھے یقین دلانے کو کافی ہیں کہ اللہ اپنے سے محبت کرنے والوں، اپنے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنے والوں کی ناقدری نہیں کرتا۔
وہ اپنے وعدے کا سچا ہے۔
ایک تبصرہ برائے “جنت کی مکین، ثریا انور نیازی ( 1944-2020)”
ماشأاللہ ایسی تحریر پڑھ کر ایمان تازہ ہوگیا